بے دین مولوی یا شیطان

پاکستان میں ہر مقدس شعبہ کاروبار بن چکا ہے سیاست سے لے کر دین تک کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں کرپٹ لوگ موجود نہ ہوں میں معذرت کے ساتھ آج جس مقدس شعبے کا ذکرکرنا چاہتا ہوں وہ ہے دینی شعبہ جس میں شہوت پرست اوردین کے دشمن لوگ گھس آئے ہیں جو مختلف مواقع پر لڑکیوں کو جنسی طور پرہراساں کرتے ہیں اور پھر ان سے اپنی ہوس پوری کرتے ہیں ممکن ہے جو میں آج لکھ رہی ہوں اسے کوئی شایع نہ کرے لیکن میں کچھ ہوس پرستنام نہاد مولویوں کو ننگا کرنا چاہتی ہوں۔

ہر شعبےمیں کالی بھیڑیں ہوتی ہیں میرا یہ آرٹیکل لکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سب مولوی کرپٹ ہیں لیکن ان میں سے اکثر کرپٹ ہیں میری ایک دوست تھی جو اتنی شریف تھی کہ اسکی شرافت کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے اسے دینی علم حاصل کرنے کا بڑاشوق تھا اس نے میٹرک کےبعد مجھے بھی مشورہ دیاکہ اکٹھی کسی اچھے دینی مدرسےمیں داخلہ لیتی ہیں کیونکہ میرا اور اسکا مسلک مختلف تھا اس لیے مجھے گھر سے اجازت نہ ملی اور ویسے بھی میرے والدین چاہتے تھے کہ میٹرک کےبعد میری شادی کر دیں مجھےبھی اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا سومیری میرے کزن کے ساتھ شادی ہو گئی اور میری دوست ایک خاص مسلک کے دینی مدرسے میں داخل ہوگئی ایک دن اس کا فون آیا کہ وہ ایک بڑے دینی مدرسےمیں داخلہ لے چکی ہے اور کچھ دنوں تک مدرسہ چلی جائے گی اس نے بتایا کہ رہائش بھی وہیں پہ رکھنا ہو گی میں نے اس سے کہا کہ تم لوکل ہو روزانہ کلاسز لے کر گھر آسکتی ہو لیکن اس نےکہا کہ مدرسے والوں کی یہ شرط ہے کہ میں وہیں رہوں۔

بہرحال وہ کبھی کبھی رابطہ کر لیتی تھی ایک آدھ مہینے میں وہ مجھے مدرسے کے لوکل نمبر سے فون کرتی رہتی میں اپنی خوشحال زندگی گزار رہی تھی میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تو میری سب سہیلیاں مبارک باد دینےکے لیے آئیں لیکن میری وہ دوست نہ آئی مجھے بڑا دکھ ہوا کہ وہ تو میری بچپن کی سہیلی ہے کیوں نہیں آئی میں نے اس کےمدرسے میں فون کیا تو کسی مرد نے اٹھایا اور کہا کہ وہ کلاس میں ہیں میری دوست نے اپنے مدرسےکا نمبر دے رکھا تھا لیکن اسے فون کرنے کی کبھی نوبت نہیں آئی تھی سو فون کیا توجواب ملا کہ اپنا پیغام دے دیں ان کو پہنچ جائے گا میں کسی کو اپنا نام نہیں بتاتی لیکن میں نے دینی مدرسے کی وجہ سے اپنا نام بتا دیا اور پیغام چھوڑ دیا۔ لیکن اس کے بعد ہر روز گھر پر فون آنے لگا جب میں اٹھاتی تو میرا نام لے کر کوئی مجھ سے ملنے کی بات کرتا اور کہتا آپ کی آوازبڑی خوبصورت ہے وغیرہ وغیرہ۔

مجھے بہت غصہ آتا مجھے شک پڑ گیا کہ میرا نام اسی شخص نے بتایا ہےجس سے میری فون پر بات ہوئی تھی میں نے سوچا اپنی دوست کےگھر جاتی ہوں اور ان سےکہتی ہوں کہ کم از کم اپنی بیٹی کو موبائل لے دیں تا کہ وہ اپنےجاننے والوں سے بات کر سکے میں نے اس کے ابو کو فون کیا وہ مجھے بھی اپنی بیٹی کی طرح اپنی بیٹی سمجھےہیں انہوں نےکہا کہ بیٹا مدرسے میں موبائل فون کی اجازت نہیں اس لیے اس کے پاس موبائل نہیں ہے اور انہوں نےمجھ سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا میں آپ کے بیٹے کی پیدائش کی خبردینا اسے بھول گیا ہوں اس لیےمعذرت چاہتا ہوں میں نےکہا انکل کوئی بات نہیں بہرحال میں چند دنوں سے فون سے بھی تنگ تھی میرے شوہر بہت اچھے ہیں میں اپنی ہر بات ان سے شئیر کرتی ہوں میں نے ان کو بتا دیا انہوں نے مجھے کہا کہ جس بھی نمبر سے فون آئے اسےنوٹ کر لینا اور پریشانی کی کوئی بات نہیں مجھے اپنے شوہر کی طرف سے مجھ پر اعتماد پر بہت اچھا لگا جمعرات کا دن تھا میرے شوہر کےگھر آنے سے پہلے بیس کے قریب مختلف نمبروں سے مجھے فون آ چکے تھے میں نے سب نمبرنوٹ کر کے اپنے کسی دوست کو فون کر کے اسے دے دئے ہم دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک بار پھر فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف میری دوست تھی اس نےکہا کہ وہ آج ہی اپنے گھر پہنچی ہےکل میری طرف آئے گی۔

میں اپنے شوہر کو بتا چکی تھی کہ میں نے اپنی اسی دوست کو اسکے مدرسے میں فون کیا تھا جس پر میرے شوہر نے کہا لگتاہے کہ وہی بندہ جس نے فون سنا وہی یہ حرکت کر رہا ہے میرے شوہر نےکہا کہ اپنی دوست سے اس بارے میں ضرور پوچھنا کہ اس مدرسے کا ماحول کیسا ہے میں نے اپنے شوہر کو کہا کہ دیندار لوگوں کےبارے میں ایسی بات نہیں سوچنا چاہیے یہ لوگ بڑےنیک ہوتے ہیں میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی مجھے تو اپنی دوست کی قسمت پر رشک آتاہے جو دین کی تعلیم حاصل کر رہی ہے شادی کے بعد اپنے بچوں کی بڑے اچھے انداز سے تربیت کر سکےگی۔

میں نے اپنے شوہر کے کہنے پر کہا کہ میں اپنی دوست سے اس بارے ضرور پوچھوں گی میرے شوہر علی الصبح دفتر چلے گئے تو دن میں میری دوست اپنے بھائی کے ساتھ آ گئی اس کا بھائی اسے چھوڑکرچلا گیا اور اس نےکہا کہ میں شام کو آپ کو لے لوں گا اس کے بھائی کے جاتے ہی میری دوست میرے گلے میں بانہیں ڈال کر رونا شروع ہو گئی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کافی دنوں بعد ملی اس لیے رورہی ہےیا کسی اور وجہ سے ہم دونوں ایک دوسری سے بہت محبت کرتی تھیں میں نے کہا یار رونے کی کیا بات ہے میں تمہیں ہر سنڈے ملنےآ جایا کروں گی لیکن اس نے کہا میں اس وجہ سے نہیں رو رہی بلکہ میں کسی اور وجہ سے رو رہی ہوں میرے اندر جو کرب ہے اس کو تم نہیں سمجھ سکتی میں نےکہا بتاؤ میں تمہاری دوست ہوں اس نے جھلکتے آنسؤؤں کے ساتھ کہا میں اپنی عزت اور اپنا سب کچھ لٹا چکی ہوں میں حیران ہو رہی تھی اس نے اتنی خوفناک کہانی سنائی کہ جس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی رونا شروع کر دیں اس نے بتایا کہ مدرسے کے بڑے مولوی کے بیٹے نے اس کو شروع میں تنگ کیا میں نے شکایت بھی کی لیکن کوئی نوٹس نہ لیا گیا ایک دن میں گرلز ہاسٹل کے باتھ روم میں نہانے کا سوچ کی تیاری کر رہی تھی کہ مولوی کا بیٹا آگیا ااور نا زیبا حرکات شروع کر دیں اس کے ساتھ ایک اورلڑکا بھی تھا میں نے شور مچانا چاہا لیکن اس نےمیرا منہ پر ہاتھ رکھ لیا اس نے میرے ساتھ بڑی بد تمیزی کی میں نے فوری جاکر اپنی ٹیچر کو ایک بار پھر شکایت کی تو اسنے کہا کہ آج رات مولوی صاحب سے بات کرے گی لیکن مجھے پتہ تھا کہ مولوی صاحب تو بیرون ملک تھے میں نے سوچا کہ آج گھر والوں کو بتا دوں گی میں نے فون کرنا چاہا لیکن مجھے فون نہیں کرنے دیا گیا رات کو ۹ بجےکے قریب مجھے میری ٹیچرنے اپنے کمرے میں بلایا میں نے سوچا کہ لڑکوں کی بدتمیزی کے بارے میں بات کریں گی میں چلی گئی تو وہ اپبے کمرے سے باہر نکل گئیں اور مولوی کا وہی بیٹا اور اس کے ساتھ والا لڑکا اندر آئے اور کمرا بند کر دیا ایک نے میرے ساتھ وہ کیا جس سے ایک با عزت لڑکی عزت دار نہیں رہتی دوسرا میری ویڈیو بناتا رہا اس کے بعد میری ٹیچر اور وہی لڑکا مجھے مسلسل بلیک میل کر کے ہر روزمجھے جانوروں کی طرح استعمال کرتے ہیں یہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ نئی آنے والی ہر لڑکی سے ہوتا ہے وہ مجھے یہ باتیں بتا رہی تھی اور مجھے غصے سے لال پیلی ہو کر آنکھوں سے آنسو بہائے جا رہی تھی۔

لیکن اس سے اگلی جو بات اس نے بتائی اس بات نے میرے اندر مولویوں کے خلاف نفرت کالاوا بھر دیا اس نے بتایا کہ جب مولوی جس کو شیطان کہنا مناسب ہے بیرون ملک سے لوٹا تو ایک دن اسنے اپنے کمرے میں مجھے بلایا اور بلیک میل کر کے وہی شیطانی عمل دھرایا میرے سہیلی یہ ساری باتیں بتا کر مجھ سے بار بار یہ مطالبہ کر رہی تھی میں اس کا ایک چھوٹا سا کام کر دوں وہ مجھ سے کسی طرح زہر لا کردینے کی ضد کر رہی تھی۔ میں نے اس کوبہت سمجھایا کہ ایسا نہ کرو اور اب اس مدرسے میں نہ جانا اتنی ساری باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور اس کے بھائی نے دروازے پر بیل دی وہ مجھ سے اجازت لےکر چلی گئی میں پوری رات یہی سوچتی رہی کہ اپنے شوہر کو بتاؤٔں یا ناں لیکن میری حالت دیکھتے ہوئے میرے شوہر نے اندزا لگ لیا اور میں نے سب کچھ ان کو بتا دیا۔

میرے شوہر بھی ایسے لوگوں پر لعنت کر رہے تھے مجھے اور ان کو اس بات کا بھی بخوبی پتہ چل گیا تھا کہ ہمارے گھر میں کون فون کرتا تھا۔مجھے اگلے دن میری دوست کے بھائی کا فون آیا وہ رو کر بتا رہا تھا کہ آپی مدرسے کے تھرڈ فلور سے گر کر اللہ کو پیاری ہو گئی ہیں مجھے ایسے لگا جیسے یہ سب کچھ میرے ساتھ ہوا ہو۔

اللہ ایسے معاشرے کو ایسے شیطانوں سے بچائے ایک وہ وقت تھا جب ٹی وی پر بھی کوئی مولوی آتا تو میں ٹی وی بند کر دیتی لیکن میرے شوہر نے سمجھایا کہ سارے مولوی ایسے نہیں ہوتے یہ بات سمجھنے میں مجھے کافی ٹائم لگا۔ میں آج بھی خودکو اپنی سہیلی کا مجرم سمجھتی ہوں کہ میں اس کےلیے کچھ نہ کر سکی یہ تو میں جانتی ہوں کہ وہ گر کر نہیں مری تھی بلکہ اسنے خود کشی کی تھی لیکن میں اپنی اور اپنے شوہر کی عزت کے لیے خاموش ہوں لیکن مجھے یہ یقین ہے کہ ان شیطانوں کا انجام بہت براہوگا۔

nazia akhtar
About the Author: nazia akhtar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.