”ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی زرخیز ہے ساقی“​

یہ جولائی کی تپتی ہوئی گرم دوپہر تھی،سورج پتہ نہیں کس کا غُصہ زمین والوں پہ نکال رہا تھا۔گلے پیاس سے خُشک ہو چُکے تھے اور آنکھیں جلن کے باعث کُھل نہیں رہی تھیں، تیز چلچلاتی دھوپ جسم پر پڑ تی تو سوئیاں سی چُبھ جاتیں۔دوپہر کے دو بج رہے تھے ۔جھُلسا ہُوا سُرخ چہرا لئے میں پنڈی سے گوجرانوالہ جانے والی بس میں سوار ہُوا،کنڈکٹر مجھے میری سیٹ دِکھا کے چلا گیا،بہتا ہُوا پسینہ صاف کرنا اب رومال کی پہنچ سے یقیناباہر ہو چُکا تھا ،تھوڑی دیر بعدہلکی نیلی جینزاور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان بس میں سوارہُوا ،اُس کے ایک کندھے پہ لیپ ٹاپ کمپیوٹر بیگ لٹک رہا تھا ،بغل میں منرل واٹر کی بوتل ،ایک ہاتھ میںچمڑے کا چھوٹا سا بیگ اور دوسرے ہاتھ کی اُنگلیاں تیزی سے موبائل فون پہ چل رہی تھیں۔تیز دھوپ سے اُس کا سفید دودھیا چہرا دہکتی ہوئی سُرخ بھٹی کی مانند لگ رہا تھا ۔کنڈکٹر نے اُسے کندھے سے پکڑ کرمیری طرف اشارہ کیا اور وہ بغیر کوئی علیک سلیک کیے عجیب شانِ بے نیازی سے میرے ساتھ آ کے بیٹھ گیا۔ور ساچی کی سفید ٹی شرٹ کو جا بجا بلیڈ سے کٹ لگائے گئے تھے جہاں سے اُس کے جسم کے سنہری بال صاف نظر آ رہے تھے۔جینز کا حال یوں تھا گویا نوجوان نے سلوا کے نہیں پہنی بلکہ پہن کہ سلوائی ہے۔اُس کی اُنگلیاں ابھی بھی اُس کے ٹچ سکرین موبائل فون پہ بلا کی سُرعت سے چل رہی تھیں اور وہ اپنے کانوں میں لگے ہیڈ فونز میں بجتے ہوئے میوزک پہ سر کو ہلکا ہلکاہلا رہا تھا۔میں نے کھنگار کر گلا صاف کیا اور اُس کی طرف مُنہ کر کے ہلکا سا مسکراتے ہوئے السلامُ علیکم کہا ،اُس نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی مُجھے اُس کی فون پہ چلتی ہوئی اُنگلیوں اور مستی میں ہلتے ہوئے سر میں کوئی تبدیلی محسوس ہوئی ،مُجھے لگا جیسے وہ مجھے سُن نہیں پایا،میں نے تھوڑا سا سوچ کے اب کی بار ذرا اُونچی آواز میں کہا :
”السلامُ علیکم ڈیئر !“
اُس کے چہرے کے تاثرات بدلے اُس نے دائیں ہاتھ سے ایک کان کی پِن نکالی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ،میں نے اپنی بات دُہرائی تو اُس نے اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے ہونٹوں کو جوکروں کی طرح پھیلایااوراپنے عجیب و غریب بالوں سے لدے انناس جیسے سر کو ہلکے سے اُوپر نیچے ہلایااور پِن دوبارہ کان میں لگا کر سر ہلانے لگا۔میں بمُشکل یہ اندازہ کر پایا کہ وہ مُسکر ا کر میرے سلام کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہے ۔
”عجیب احمق انسان ہے “ میں نے سوچا۔
کُچھ دیر بعد اُس نے میوزک بند کیا ،بیگ سے لیپ ٹاپ نکالا اوراسے ایک یو۔ایس۔بی ڈیوائس سے کنیکٹ کر کے انٹر نیٹ پربڑی محویت سے ویڈیو گیمز کے نئے ورژنز کا جائزہ لینے لگا،بس چلنے سے کُچھ ہی پہلے ایک گدا گر بچہ بس میں چڑھ آیا، بچے کاگرمی سے بہت بُرا حال تھا، میل سے اٹے ہوئے غلیظ اور پھٹے پُرانے کپڑوں سے پسینے کی بدبو آ رہی تھی،اُس کی حالت کُچھ ایسی تھی کہ ہر دلِ درد مند رکھنے والے کو دیکھ کر ترس آ جاتا اور وہ پانچ دس روپے دے دیتا ،وہ ہماری سیٹ کے قریب آیا اور اُس نوجوان سے عجیب معصوما نہ لہجے میں بولا:
” بھائی جان کُچھ مدد کر دیں نا۔۔میرے ابو کام پہ نہیں جاتے ،نشہ کرتے ہیں اورمجھے مار تے ہیں “
وہ اپنی نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین سے ہٹائے بغیر بے پروائی سے بولا:
”تمہارے ابّا کو میں نے تو نشے پہ نہیں لگایا جگر!“
”آج اگر میں سو روپیہ نہ لے کر گیا تو وہ مجھے پھر ماریں گے“
اُس کے تصنع سے پاک چہرے سے بے بسی عیاں تھی۔
”ارے میں نے تمہیں مار سے بچانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے کیا؟باپ تمہارا ہے تو اس کے مسئلے بھی اپنے پاس ہی رکھو اور یہاں سے چلتے بنو، گرمی پہلے بہت ہے یہ نہ ہو کہ گرمی کا غُصہ تم پہ نکل جائے “۔
نوجوان نے ایسے تُرش لہجے میں کہا کہ بچہ سہم گیا،اُس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ ایک لمحے کی دیر کیے بغیر جلدی جلدی چلتا ہُوا بس سے نیچے اُتر گیا۔
میں نے قہر آلود نگاہ نوجوان پر ڈالی ،دل ہی دل میں اُسے دو تین غلیظ ترین گالیاں دیں اور کھڑکی سے باہردیکھنے لگا ۔
سامنے سڑک کے پار ایک گدھا گاڑی کیچڑ میں پھنسی ہوئی تھی اور ایک شخص اُس کے ایک ٹائر کے آگے اینٹ رکھ کے دوسری طرف والے ٹائر کو زور لگا کے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا،پتہ نہیں اُس وقت مُجھے ایسا کیوں لگا کہ اگر میں اُس ٹائر کے آگے پڑی ہوئی اینٹ اُٹھا کے اس نوجوان کا سر وہاں رکھ دوں تو شاید گدھا گاڑی آسانی سے نکل آئے۔
بس چل چُکی تھی۔ گرم ہوا ایسے جلد کو چھوتے ہی جُھلسا رہی تھی جیسے ڈرائیور نے گاڑی جی ٹی روڈ کی بجائے جہنم روڈ پر ڈال دی ہو،
کُچھ دیر بعد ڈرائیور نے اے سی آن کیا تو مجھے لگا جیسے بس کے ساتھ نچلی طرف سائیکل کے پیڈلوں پہ کھڑے ہو کے تیزی سے بس کے ساتھ ملنے کی کوشش کرتے ہوئے خوانچہ فروش نے زور سے کہا ہو۔۔”بہت دیر کی مہرباں آتے آتے“۔
مگر یقینا یہ میرا وہم تھا،اور پھر میں اس پہ خود ہی مُسکرا دیا،عین اُسی وقت میری آنکھیں ساتھ تشریف فرما نوجوان سے ٹکرائیں اور میری مسکراہٹ کا ستیا ناس ہو گیا۔
کُچھ دیر بعد اُس کے فون پر ایک انگریزی گانے کی رنگ ٹون بجنے لگی،میں بہت کوشش کے باوجود یہ نہ سمجھ پایا کہ یہ گانا کوئی صاحب گا رہے ہیں یا صاحبہ۔۔اُس نے موبائل فون کی سکرین پر طائرانہ نگاہ ڈالی اور اٹینڈ کر کے کان سے لگانے کے بعدبڑے پُر جوش انداز میں بولا:
”ََHello Dude ! what's up?“
کُچھ توقف کے بعد پھر گویا ہُوا،
”yeah I'm back to home یار“
لائن کے دوسری طرف والے صاحب نے پتہ نہیں کیا ارشاد فرمایا جسے سُن کے اُس نے کُچھ یوںجواب دیا،
”yeah, you are right،جب گدھوں کو بھی اے سی میں سفر کرنے کا شوق چڑھ جائے گا تو شور تو ہو گاہی،i think i can't listen you, see you in the eve,bye “
معاملہ میری برداشت سے باہر ہو رہا تھا ویسے بھی یہ میرا پہلا سفر تھا کہ جس میں مَیں بغیر ہمسفر سے گفتگو کئے اتنی دیر گُزار چُکا تھا،اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ موصوف نے مُجھے منہ ہی نہیں لگاےا تھالیکن اب کی بار مُجھ سے چپ نہ رہا گیااور میں نے اُسے بڑے دھیمے سے انداز میں کہا ،
”Brother ! If you don't mind may I say something“
”yes?“
اس نے بھنوے اُچکاتے ہوئے کہا،اس کے چمکتے ہوئے سامنے کے دانت یقینا مجھے بڑے خوبصورت لگتے اگر وہ کسی اور کے منہ میں ہوتے۔
”معافی چاہتا ہوں میرے خیال میں آپ کو مُسافروں کے بارے میں ایسی زُبان نہیں استعمال کرنی چاہیے تھی،مُمکن ہے آپ اپنے دوست سے بہت بے تکلف ہوں مگرشاید یہ مُناسب نہیں کہ آپ اس انداز میں باقی لوگوں کا تذکرہ کریں اور آپ نے اُس بچے کے ساتھ بھی ذرا زیادہ ہی سخت رویہ روا رکھا وہ بے چارا کافی سہم گیا تھا“
میں کس طرح اپنے اندر کی کیفیت چُھپا کہ اُسے ’آپ‘ کہہ کر مُخاطب کر رہا تھا یہ میں جانتا ہوں یاسب کچھ جاننے والا۔
وہ کسی بھی قسم کے جذبات سے خالی چہرہ لئے میری ساری بات بڑے تحمل سے سُنتا رہااور میرے چُپ ہونے پر بے ساختہ گویا ہُوا،
”مُجھے ڈر ہے کہ کُچھ دیر بعد تمہیں یہ نہ بتانا پڑ جائے کہ مُجھے تم سے کس طرح بات کرنی چاہیے تھی۔۔۔ ہوں۔۔۔ “
گاڑی دریائے جہلم کے پُل سے گُزر رہی تھی،مُجھے یوں لگا جیسے اُس کے ایک ہی جُملے نے میری عزت اُتار کے پوری قُوت سے دریا کی طرف اُچھال دی،بد حواسی کی حد ہے کہ کُچھ لمحے بعد مُجھے عزت دریا میں گرنے کی آواز بھی سُنائی دی۔ اُس کے اچانک دئیے گئے اس جواب سے میں سٹپٹا گیا، رفتہ رفتہ جب میرے حواس بحال ہوئے تو میں نے دیکھا کہ میرا مسیحا بڑی محویت کے ساتھ ہیری پوٹر ناول کامُطالعہ کر رہا ہے۔
اس وقت مجھے اپنے چھٹی کلاس کے استاد جناب منور حسین صاحب بڑی شدت سے یاد آئے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر لوگ ایک دوسرے کی وہ باتیں بھی سننے لگیں جو دل میں اپنے آپ سے کی جاتی ہیں تو دنیا ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ختم ہو جائے۔اس وقت اگر وہ میرے دل کی آواز سن لیتا تو کیا ہوتا یہ تو معلوم نہیں،لیکن اگر میں اس کے دل کی آواز سن لیتا تو مجھے یقین ہے کہ اس کا لیپ ٹاپ کم ازکم دو حصوں میں ضرور تقسیم ہو چکا ہوتا۔ اسے ہماری کم عقلی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے ان کا نام منور کم عقل رکھا ہوا تھا ورنہ ان کی بات میں دم تو بہرحال تھا۔
ڈرائیور اپنی دُھن میں مست بڑی سپیڈ سے گاڑی چلارہا تھا اور ہر مسافر دل ہی دل میں تھوڑے بہت خوف کے باوجودشکر ادا کر رہاتھا کہ اتنا گرم طبیعت ڈرائیور ملا ہے چلو وقت پرپہنچا کر کچھ پل تو پہلے گرمی سے نجات دینے میں معاون ثابت ہو گا۔ ہم وزیر آباد سے نکل کر اب گکھڑ میں داخل ہو رہے تھے ۔ڈرائیور نے شہر میں داخل ہونے پر مسافروں کے اصرار کے باعث سپیڈ معمول سے کُچھ کم تو کی مگر صرف کہنے کی حد تک۔ شاید وہ بھی میرے پھپھو زاد عامر کی طرح اس معاملے میں بے اختیار تھا،میں جب بھی موٹر بائیک پر عامر کے پیچھے بیٹھتا تو اسے کہتا کہ یار خُدا کے لئے سپیڈ تھوڑی کم کرو ،میرے کہنے پر وہ ایکسیلیٹر کو تھوڑا سا ڈھیلاتو چھوڑتا مگر چند سیکنڈ بعد ہی دوبارہ ایکسیلیٹر نیڈل میٹر کے آخری نمبروں کو چُھو رہی ہوتی اور اُس کا جواز ہمیشہ یہی ہوتا کہ یار میں چاہ کر بھی سپیڈ کم نہیں کر سکتا کیونکہ مسئلہ میرے چاہنے کا نہیں، یہ ہاتھ اور ایکسیلیٹر کا آپس کا معاملہ ہے اور یقین کرو اس بارے میں وہ میری رائے کو قابلِ غور نہیں سمجھتے۔
میں کھڑکی سے باہر سڑک کے بائیں طرف اس گلی کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا جس میں ہمارے میٹرک کے استاد جناب یونس صاحب کا گھر تھا اور اس سنہری دور کو یاد کر رہا تھا جب ہم سب دوست اکٹھے ان کے گھر ٹیوشن کے لئے آیا کرتے تھے ،اب تو وہ سب اک خواب کی طرح لگتا تھا جب ہم گھر سے پڑھنے آتے اور سارا وقت ریلوے ٹریک پر بیٹھ کر اسامہ بن لادن سے لے کر ایران کے ایٹمی پروگرام تک اور کرینہ کپور اور سیف علی خان کے افیئر سے لے کر غلام علی کی سُر اورنصرت فتح علی خان کی لَے تک ہر موضوع پر انتہائی فضول اور بے معانی بحث کر کے اسی ٹریک پر چلتے ہوئے پیدل ہی واپس راہوالی پہنچ جاتے، اِک مدت سے ہم نے تو وہ ٹریک دیکھا بھی نہیں، اب جب اس پر ٹرین آتی ہو گی تو اس کے دروازے میں باہر ٹانگیں لٹکاکر بیٹھے ہوئے مسافر یہ سوچتے تو ہوں گے وہ پانچ،چھے پاگل سے لڑکے جو ہمیں دیکھ کر بے وجہ شور مچاتے تھے،نعرے لگاتے تھے اب پتہ نہیں کہاں گئے ہیں ،یہاں کیوں نہیں بیٹھے ہوتے، کیا ہوا اُنہیں، میری آنکھوں میں نمی چمکنے لگی، میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک کسی نے مجھے پیچھے سے تھام کر بڑی قوت سے کھینچا اور میں خیالات کی دُنیا سے باہر نکل آیا، پھر اس نے اسی قوت کے ساتھ مجھے آگے کی جانب اُچھالا اور میں پلک جھپکنے میں اپنے سے اگلی سیٹ پربیٹھی خاتون پر جا گرا جو کہ خود اگلی سیٹ پر گرنے سے بچنے کی کوشش میں مصروف تھیں،کُچھ ثانیے گُزرے اور مجھے سمجھ آ گیا کہ کیا ہُوا ہے۔
ڈرائیوراتنی زیادہ رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا کہ شاید اسے خود بھی ہلکا ہلکا ڈر لگ رہا تھا ۔بس سٹاپ سے تھوڑا آگے یو ٹرن پہ اچانک سامنے ایک ٹرک نے بغیر انڈی کیٹر دیئے اپنی لین تبدیل کر لی اور بس کے بالکل سامنے آگیا،بس ڈرائیور نے ٹکر سے بچنے کیلئے جلدی سے سٹیئرنگ وہیل گھما دیا ،رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے کنٹرول ڈرائیور کے ہاتھ سے نکل گےا اور بس ایک رکشہ میں جا لگی ،رکشہ قلا بازیاں کھاتا ہوا دور جاکر ایک کھمبے سے ٹکرایا اور اس کا ڈرائیور انتہائی زخمی حالت میں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پہ جا گرا، بس میں موجود کئی سواریوں کی چیخیں ایک ساتھ بلند ہوئیں،انہی چیخوں کے شور نے مجھے خیالات کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت میں لا کر پھینکا ۔
ڈرائیور کے حواس بحال ہونے میں کچھ دیر لگی ،لیکن بھیڑ کے جمع ہونے سے پہلے وہ سوچ چُکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے،اُس نے ٹرک ڈرائیور کو دو تین گالیاں دیں اور بس کو پہلے گیئر میں ڈال کے ایکسیلیٹر دبا دیا۔
میرے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان کا لیپ ٹاپ اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا تھا، وہ جلدی سے اُٹھا اور آگے کی جانب بڑھا، میرا خیال تھا کہ وہ اپنا لیپ ٹاپ اُٹھانے گیا ہے،میں نے آج تک اتنے صدقِ دل سے کبھی اپنے رزلٹ کے لئے دُعا نہیں مانگی تھی جتنے خلوص سے میں نے اُس وقت یہ دُعا مانگی کہ اُس کا لیپ ٹاپ دوبارہ کبھی نہ چل سکے۔مگر مجھے حیرت اُس وقت ہوئی جب وہ لیپ ٹاپ کو پھلانگتا ہوا آگے چلا گیا۔
وہ ڈرائیور کے پاس گیا اور اسے کہنے لگا، ”گاڑی روکو“
ڈرائیور نے لاتعلقی سے پوچھا،”خیریت ہے بائو جی کوئی چیز گر گئی ہے کیا؟“
”میں کہہ رہا ہوں گاڑی روکو “،اب کے اُس کے لہجے میں سختی تھی۔
”بائو جی آرڈرلائو ، خیر تے ہے؟“کنڈکٹر نے معاملہ خراب ہوتا دیکھ کر کہا،
”اگر آپ میں سے کوئی اُس رکشہ ڈرائیور کی جگہ ہوتا تو کیا؟ گاڑی روک کر اُس کی مدد کرنا تو ہم سب کا فرض ہے،کیا آپ میں سے کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا؟“ وہ اس بار بس کے مسافروں سے مُخاطب تھا۔
بس میں ایک دفعہ خاموشی چھا گئی،ایکسیڈنٹ کی گھبراہٹ ابھی دُور نہ ہو پائی تھی کہ اچانک اس قسم کی بات سُن کر لوگ سمجھ نہ سکے کس طرح برتائو کریں۔
”میں تمہارے ساتھ ہوں بیٹا!“ بس کے پچھلے حصے سے آنے والی اس آواز سے لگ رہا تھا کہ کوئی ادھیڑ عمر شخص بول رہا ہے۔
یہ آواز بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی،
”میں بھی تمہارے ساتھ ہوں“ ،ڈرائیور کی پچھلی سیٹ سے ایک نوجوان کھڑا ہوا۔
”بیٹا ماں کی دعائیں بھی تیرے ساتھ ہیں“،یہ وہی خاتون تھی۔
”اج اے گڈی ایتھے ای رُکے گی“،پیچھے سے ایک جو شیلے نوجوان کی آواز اُبھری۔
یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ میں ابھی تک حیرت سے نہیں نکل پایا۔پہلی آواز کے بعد تو ایک شور سا مچ گیا ،بس میں بیٹھا ہر مسافر اُس نوجوان کے ساتھ بول رہا تھا۔میں نے بہت کوشش کی کہ میں بھی بول سکوں مگر میرے حلق سے آواز نہ نکل سکی، میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ مجھے کوئی دیکھ تو نہیں رہا اور پھر کھڑا ہونے کی کوشش کی،میں کھڑا نہ ہو سکا،پتہ نہیں میں کیوں اُس کے ساتھ کھڑانہ ہو سکا اور تماشائی بنا رہنے پر اکتفا کر گیا۔
مسافروں کے اصرار کی وجہ سے ڈرائیور کو مجبوراً بس روکنا پڑی،بس رُکی تو سب سے پہلے وہی نوجوان اُترا اور بھاگ کر رکشہ والے کے پاس پہنچا، اُسکے پیچھے باقی مسافر بھی اُتر ے اور وہاں پہنچنا شروع ہوگئے۔وہاں پہلے ہی کافی لوگ جمع ہو چُکے تھے،نوجوان لوگوں کے درمیان سے رستہ بناتا ہوا رکشہ ڈرائیور تک پہنچا۔ رکشہ ڈرائیور کے سر سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا،اُس کا سر غالباً رکشہ کی سامنے کی سکرین پر لگا تھا۔ اُس کا ایک بازو ٹوٹ گیا تھا اور کہنیوں سے خون بہہ رہا تھا،اُس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چُکے تھے اور وہ زمین پر لیٹا کراہ رہا تھا۔ نوجوان آگے بڑھا اور اسے سب سے پہلے ہاتھ میں پکڑی بوتل میں سے پانی پلایاپھر جیب سے موبائل فون نکالا اور 1122اور 130پر کال کر کے حادثہ کی اطلاع کی۔کچھ ہی دیر بعد وہاں پہلے ٹریفک پولیس کی وین اور پھرایمبولینس پہنچ گئی۔ٹریفک پولیس کے اہلکارقانونی کاروائی میں مصروف ہو گئے۔ ایمبولینس سے 1122کے اہلکار اُترے اورانہوں نے زخمی کی عارضی مرہم پٹی کرنے کے بعد اُسے سٹریچر پرڈال کر ایمبولینس میں رکھااور قریبی ہسپتال کی جانب نکل پڑے۔ایمبولینس کے جانے کے بعد میں نے اُس نوجوان کے چہرے پر ایک عجیب سی طمانیت اور سکون دیکھا۔
میں بس کی پچھلی جانب ایک دیوار کا سہارا لے کر کھڑا تھا،میرے فون پر میسج ٹون بجی،میں نے میسج کھولا تو سکرین پر لکھا ہوا تھا:
”ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی زرخیز ہے ساقی“​

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274632 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More