حضرت مولانا یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ
میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن وہب ؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت سلمان ؓ کے
ساتھ ان کے ایک دوست کی عیادت کرنے گیا جو کہ قبیلہ کندہ کا تھا ان سے حضرت
سلمان ؓ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو کسی بیماری یا آزمائش
میں مبتلا فرماتے ہیں اور پھر اسے عافیت عطا فرماتے ہیں اس سے اس کے زمانہ
ماضی کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور آئندہ زمانہ میں وہ اﷲ کی رضا کا طالب
ہو جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اپنے فاجر بندے کو بھی کسی بیماری یا آزمائش میں
مبتلا کرتے ہیں پھر اسے عافیت عطا فرماتے ہیں لیکن وہ اونٹ کی طرح ہوتا ہے
جسے اس کے گھر والوں نے پہلے باندھا تھا پھر اسے کھول دیا اس اونٹ کو کچھ
خبر نہیں کہ گھر والوں نے اسے کیوں باندھا تھا پھر اسے کیوں چھوڑا۔
قارئین دنیا میں جو بھی آیا ہے اس نے ایک دن اس دنیا سے رخصت ہوناہے بقول
شاعر
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
بڑے بڑے ناموں والے ،بڑی بڑی بادشاہتوں والے ،بڑی بڑی سلطنت والے ،بڑی بڑی
دولتوں والے اور بڑی بڑی حکومتوں کے مالک دنیا میں آئے کچھ عرصہ گزارا اور
ایک مسافر کی طرح خالی ہاتھ حسرت کی تصویر بنے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ہم
آج اس دنیا میں زندہ ہیں اور اپنی اپنی جگہ مجھ سمیت ہر کوئی یہی سمجھتا ہے
کہ ہم زندہ رہیں گے اور باقی پوری دنیا فنا ہو جائے گی ۔
’’ وے بلھیا اساں مرنا نا ہیں
گور پیا کوئی ہور‘‘
قارئین ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ بیماری
،پریشانی ،تنگی اور سختی در حقیقت رب کائنات کی طر ف سے ایک مسلمان کے لیے
یا تو آزمائش اور گناہوں کے کفارے کی ایک صورت ہوتی ہے یا پھر اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے ایک عذاب ہوتا ہے دنیا میں جتنی بھی بیماریاں اﷲ تعالیٰ نے پیدا
فرمائی ہیں اﷲ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے کہ ہم نے ان بیماریوں کی شفاء
پہلے پیدا کی ہے اب یہ انسان پر منخصر ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کے
لیے تسخیر شدہ کائنات کے چھپے رازوں پر غور کرتے ہوئے کس طرح اس تک پہنچتا
ہے ۔آپ تاریخ انسانیت کو کھول کر دیکھ لیں اور میڈیکل سائنس کی ارتقائی
ترقی کے حوالے سے انسان کی محنت پر نظر دوڑا لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر
دور میں کچھ عظیم لوگ ایک ’’ رقص درویشی ‘‘ کے عالم میں ریسرچ میں مصروف
رہے اس رقص درویشی کے دوران یہ عظیم درویش مختلف دریافتوں اور ایجادات میں
کام کرتے رہے اور بلا مبالغہ یہی لوگ انسانیت کے محسن کہلائے ۔بو علی سینا
سے لے کر عہد حاضر کی ایک عظیم مرحوم شخصیت ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی تک
ہمیں امت مسلمہ میں بھی ایسی ہزاروں شخصیات نظر آتی ہیں کہ جنہوں نے
انسانیت کی خدمت کرنے کے لیے بیش بہا علم کا خزانہ چھوڑا ۔
قارئین ہمارا آج کا موضوع دیکھ کر آپ اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ آج کا یہ
کالم کینسر جیسی موذی بیماری کے متعلق ہے ۔کینسر ایک ایسا مرض ہے کہ اس کا
نام سن کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کینسر اور ایڈز دو ایسی
بیماریاں ہیں کہ جن کا علاج انتہائی مہنگا ہے اور اگر یہ دونوں بیماریاں
ابتدائی سٹیج سے گزر چکی ہوں تو جلد یا بدیر انسان کا مقدر موت ہی ہوتی ہے
جس طرح پاکستان جیسے ایک پسماندہ اور تعلیمی میدان میں 128ویں نمبر پر کھڑے
ملک کے متعلق کوئی بھی یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس ملک میں کہ جہاں سوئی
سے لے کر ہوائی جہاز تک چائنہ ،یورپ ،امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے
امپورٹ کیا جاتا ہے وہاں ایٹمی ٹیکنالوجی پر اس حد تک کام کیا جائے گا کہ
پاکستان دنیا کا ساتواں جوہری ملک بن کر سامنے آ جائے گا اسی طرح دنیا میں
کوئی بھی ہوش مند انسان یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس غریب اور قرضوں
میں ڈوبے ہوئے ملک کے اند ر ایشیاء کا سب سے بڑا کینسر کا علاج کرنے کا
ادارہ اور ریسرچ سنٹر بن سکتا ہے جس طرح جوہری میدان میں فخر امت مسلمہ
ڈاکٹر عبدالقدیر خان مایہ ناز ایٹمی سائنسدان نے اپنے جنون اور جذبہ ایمانی
سے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا اسی طرح پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ جتوا کر
دنیا میں سر فخر سے اونچا کرنے کا موقع فراہم کرنے والے کپتان عمران خان نے
اپنی والدہ مرحومہ کے نام پر ایشیاء کا سب سے بڑا کینسر کا ہسپتال اور
ریسرچ سنٹر ’’ شوکت خانم میموریل ریسرچ کینسر ہسپتال ‘‘ بنا کر ایک دنیا کو
حیران کر دیا ان کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔
قارئین یہاں ہم بتاتے چلیں کہ ہم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور
عزیزی محمد رفیق مغل کے ہمراہ ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر پر سٹیشن
ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی سرپرستی میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر
خان اور شوکت خانم میموریل کینسر ریسرچ ہسپتال بنانے والے تحریک انصاف کے
قائد عمران خان کے انٹرویوز ریڈیو کے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک ود
جنید انصاری ‘‘ میں کیے اور ان دونوں عظیم شخصیات سے ان کی فیلڈز کے متعلق
سیر حاصل گفتگو کی ۔یہ گفتگو ’’ یو ٹیوب ‘‘ You Tubeپر بھی ریکارڈنگ کی شکل
میں موجود ہے رواں ہفتے میرپور کے تین اداروں میں شوکت خانم کینسر ہسپتا ل
کی طرف سے لاہور سے تشریف لانے والی کینسر کی ماہر معالج ڈاکٹر شمائلہ شبیر
نے لیکچرز دیئے ۔غازی الہیٰ بخش گرلز کالج میرپور میں سینکڑوں طالبات اور
پروفیسرز سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شمائلہ شبیر کینسر سپیشلسٹ نے خواتین میں
کینسر اور ’’ چھاتی کے کینسر ‘‘ کو پاکستان اور آزادکشمیر کی خواتین کے لیے
سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ کینسر کی وجہ سے مناسب وقت پر تشخیص نہ
ہونے کی بدولت بہت بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے کینسر کی
تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ اس مرض کے متعلق آگاہی حاصل کی جائے اور خواتین
خود تشخیصی مراحل کے متعلق مکمل آگاہی حاصل کریں ۔شوکت خانم کینسر ہسپتال
کی ٹیم اس وقت پورے پاکستان میں کام کر رہی ہے اور آزادکشمیر میں اس سلسلہ
میں میرپور سے آگاہی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے تقریب میں پروفیسر نوشابہ
رعنا نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی ٹیم کو خوش آمدید کہا اور کینسر کے علاج
کے حوالے سے ادارہ کی خدمات کی تعریف کی ۔ڈاکٹر شمائلہ نے بتایا کہ پاکستان
اس وقت پورے ایشیاء میں کینسر کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے اور خواتین میں
کینسر کی شرح اموات روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور اسی چیلنج کا مقابلہ کرنے
کے لیے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی طرف سے کراچی ،پشاور ،لاہور ،ملتان ،فیصل
آبا د،راولپنڈی ،اسلام آباد ،گوجرانوالہ ،سیالکوٹ،گجرات ،جہلم سمیت پورے
پاکستان میں خواتین میں آگاہی بیدار کرنے کے لیے کالجز اور یونیورسٹیز میں
’’ بریسٹ کینسر آگاہی مہم ‘‘ شروع کر دی گئی ہے آزادکشمیر میں اس کا آغاز
میرپور سے کیا جا رہا ہے کینسر کے علاج کے لیے سب سے پہلا مرحلہ تشخیص کا
ہے چھاتی ،بغل یا جسم کے کسی بھی حصے میں اگر گلٹی موجود ہو تو اسے کبھی
بھی غیر سنجیدہ انداز میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ فوری طور پر
ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہوئے ابتدائی تشخیص اور بعد ازاں الٹرا ساؤنڈ ،بائی
آپسی ،میمو گرافی اور دیگر ٹیسٹ کروانے چاہیں تا کہ بیماری تک پہنچا جا سکے
90فیصد گلٹیاں عام طور پر بے ضر ر اور کینسر سے محفوظ ہوتی ہیں لیکن دس
فیصد مرض کی موجودگی کا امکان بہت بڑی شرح ہے اور ابتدائی مرحلے پر اگر
کینسر کو ہم تشخیص کرلیں تو 90فیصد مریضوں کی جان بچائی جا سکتی ہے میرپور
یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کالج آف ہوم اکنامکس میں ’’ کینسر آگاہی
پروگرام ‘‘ کی خصوصی تقریب وائس چانسلر مسٹ پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن کی
زیر صدارت منعقد ہوئی تقریب میں ڈاکٹر طاہر محمود ،سربراہ شعبہ ہوم اکنامکس
پروفیسر نسرین طارق ،شوکت خانم مارکیٹنگ نارتھ کے منیجر محمد یونس اور مسٹ
کے انتظامی آفیسر داؤد صدیقی سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ڈاکٹر حبیب الرحمن
نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال کی طرف سے ڈاکٹر
شمائلہ نے میرپور سے کینسر آگاہی مہم کا آغاز کر کے کشمیریوں کے ساتھ
پاکستان کی قلبی وابستگی کا عملی ثبوت پیش کیا ہے ہم عمران خان کے اس
پروجیکٹ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور میرپور یونیورسٹی آف
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا وائس چانسلر ہونے کی حیثیت سے میں شوکت خانم کینسر
ہسپتال کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتا ہوں ۔ہمارے لیے یہ انتہائی فخر
کی بات ہے کہ اس فلاحی کام میں ہم شوکت خانم کا حصہ ہیں ڈاکٹر حبیب الرحمن
نے کہا کہ آزادکشمیر میں ایسے سینکڑوں پودے اور جڑی بوٹیاں موجود ہیں کہ جن
کی بہت زیادہ طبی افادیت ہے یہ میڈیسن پلانٹ کینسر سمیت دیگر لاتعداد موذی
بیماریوں کے علاج کے لیے مدد دے سکتے ہیں ہم نے حال ہی میں ایک ریسرچ کے
بعد آزادکشمیر میں ایک ایسا پودا دریافت کر لیا ہے کہ جس میں ایک ایسا
قیمتی مادہ پایا جاتا ہے جو کینسر کے علاج کے لیے بہت مفید ہے اس کا پیٹنٹ
کروا لیا گیا ہے اور جلد ہی انٹر نیشنل جرنل میں یہ ریسرچ پیپر شائع ہو
جائے گا اس میڈیسن کے سامنے آنے سے کینسر کے علاج میں بہت زیادہ مدد ملے گی
اور کینسر کی دیگر ادویات کی نسبت اس کی قیمت بہت معمولی ہو گی ڈاکٹر حبیب
الرحمن نے کہا کہ مسٹ میں ہم اپنے ریسرچ سکالر ز کو طبی نکتہ نگاہ سے اہمیت
رکھنے والے پودون پر کام کرنے کے لیے ہر طرح کی مدد دینے کے لیے تیار ہیں
پروفیسر نسرین طارق نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر مسٹ پروفیسر
ڈاکٹر حبیب الرحمن ،ڈاکٹر طاہر محمود ،شوکت خانم ہسپتال لاہور کی ڈاکٹر
شمائلہ شبیر ،مارکیٹنگ منیجر نارتھ محمد یونس کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ
انہوں نے ہوم اکنامکس کالج میں طبی نکتہ نگاہ سے انتہائی اہمیت رکھنے والی
یہ تقریب منعقد کی ۔ڈاکٹر شمائلہ نے ملٹی میڈیا پر تصویروں کی مدد سے
سینکڑوں طالبات کو چھاتی کے کینسر کی تشخیص سے آگاہ کرتے ہوئے مختلف علامات
پر سیر حاصل گفتگو کی ۔اسی سلسلہ کی تیسری تقریب آزادکشمیر کے سب سے بڑے
پرائیویٹ سکول و کالج ’’ دی گائیڈنس سکول اینڈکالج سسٹم ‘‘میں منعقد ہوئی
۔گائیڈنس سکول اینڈ کالج سسٹم میں کینسر آگاہی پروگرام کی تقریب کی صدارت
سربراہ ادارہ مسز غزالہ خان نے کی تقریب سے شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور
کی سپیشلسٹ ڈاکٹر شمائلہ شبیر نے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ
اساتذہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ طبی نکتہ نگاہ سے اہم ترین معلومات کو
معاشرے کے تمام طبقات اور بالخصوص طالبات تک پہنچانے میں مشنری جذبے سے کام
کریں ڈاکٹر شمائلہ نے کہا کہ چھاتی کا کینسر اس وقت پاکستان اور آزادکشمیر
میں تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ چالیس فیصد سے زائد خواتین چھاتی
کے کینسر کے ساتھ شوکت خانم ہسپتال میں رپورٹ کر رہی ہیں اگر اساتذہ اپنا
موثر کردار ادا کریں اور اپنے اپنے حلقہ احباب اور اپنی طالبات کو اس حوالے
سے سائنسی معلومات سے آگاہی فراہم کریں تو اس موذی اور مہلک مرض کا مقابلہ
کیا جا سکتا ہے ۔دی گائیڈنس ہاؤس سکول اینڈ کالج سسٹم کی سربراہ مسز غزالہ
خان نے کینسر کے علاج اور تشخیص کے لیے شوکت خانم ہسپتال کی خدمات کو لائق
تحسین قرارد یتے ہوئے ڈاکٹر شمائلہ اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا کہ
جنہوں نے آزادکشمیر تک ’’ کینسر آگاہی مہم ‘‘ کا دائرہ کار وسیع کیا ۔انہوں
نے کہا کہ ہمارا ادارہ شوکت خانم کی اس فلاحی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا
۔
قارئین یہ تمام احوال شوکت خانم کینسر ہسپتال کی اس مہم کا ہے جو کشمیر میں
میرپور کے شہر سے پہلی مرتبہ شروع کی گئی ہمیں امید ہے کہ تمام کشمیری اور
تمام تارکین وطن دوست شوکت خانم کی اس مہم میں سیاسی وابستگیوں سے بالا تر
ہو کر اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے ۔مر ہر کسی نے جانا ہے زندہ رہنے والے کام
یہی ہیں کہ دکھی انسانیت کی خدمت کی جائے عمران خان کا یہ کارنامہ سیاست سے
بالا تر ہے اور کینسر کا مرض کسی کو بھی لا حق ہو سکتا ہے یہ مرض نہیں
دیکھتا کہ مریض کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے ،مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف یا پھر
کسی اور پارٹی سے ۔اس سے پہلے کہ امتحان اور آزمائش کی یہ گھڑیاں آپ یا آپ
کے کسی پیارے کے دروازے پر دستک دیں ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ بھی اس
مہم کا حصہ بن جائیے یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایف ایم 93میرپور ریڈیو
آزادکشمیر کے سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی خصوصی مہربانی سے ہم نے
ایف ایم 93پر اسی شام کینسر کے حوالے سے ڈاکٹر شمائلہ شبیر کو خصوصی
انٹرویو بھی کیا اور اس انٹرویو میں ہماری ساتھی مس حنا اور ایف ایم 93کی
پوری ٹیم نے انتہائی جوش اور جذبے کے ساتھ حصہ لیا ہم نے قلم اور آواز کے
ساتھ ساتھ علمی اور عملی طور پر اس مہم کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ہے اور اس
کا مقصد صرف اور صرف اپنے وجود کو کوئی وجہ بخشنا ہے کسی کے آنسو سے تر
چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بھی صدقہ ہے ،کسی کے راستے سے کانٹے ہٹا دینا بھی
صدقہ ہے اور نیکی کے کسی کام میں کسی کی مدد کرنا بھی ایک صدقہ ہے آئیے اور
آپ بھی اپنے حصے کا چراغ جلائیے بقول غالب
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہ سخن و ا کرے کوئی
عالم غبارہ حشتِ مجنون ہے سر بہ سر
کب تک خیال طرہ لیلا کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التقات
ہائے در د بن کے دل میں مگر جا کر ے کوئی
رونے سے اے ندیم !ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عقدہ دل وا کرے کوئی
چاک جگر سے جب رہ پرشش نہ واہوئی
کیا فائدہ کہ جیب کو رسوا کرے کوئی
لخت جگر سے ہے رگ ہر خار شاخ گل
تاچند باغبانی صحرا کرے کوئی
ناکامی نگاہ ہے برق ِنظارہ سوز
تُو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
ہر سنگ و حشت ہے صدفِ گوہر شکست
نقصان نہیں جنون سے جو سودا کرے کوئی
سر بر ہوئی نہ وعدہ صبر آزما سے عُمر
فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی
ہے وحشت طبیعت ایجاد یا س خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
بے کاریِ جنون کو ہے سر پٹینے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے یوئی
حسن فروغِ شمع سخن دُور ہے اسد
پہلے دل ِ گدا ختہ پیدا کرے کوئی
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ملا نصیر الدین نے ایک مرتبہ ایک بیوہ عورت سے شادی کی اس عورت کے تین شوہر
مر چکے تھے اور ملا اس کے چوتھے شوہر تھے ایک دفعہ ملا سخت بیمار پڑ گئے
طبیبوں نے زندگی سے مایوسی ظاہر کی تو ان کی بیوی رونے لگی اور کہنے لگی
’’ ہائے میں کیاکرو تم مجھے کس کے سپرد کر کے جا رہے ہو‘‘
ملا نصیر الدین نے فوراً آنکھیں کھول کر جواب دیا
’’ پانچویں شوہر کے ‘‘
قارئین ہمیں امید ہے کہ آپ بھی اپنے پیاروں کو کسی دوسرے کے سپر د کرنے کی
بجائے موذی بیماری کینسر کا سائنسی بنیادوں پر مقابلہ کرنے کے لیے شوکت
خانم کینسر ہسپتال کے اس رفاعی منصوبے کا ساتھ دیں گے رہے نام اﷲ کا ۔۔۔۔ |