وزیر اعظم محمد نواز شریف نے
طویل مشاورت اور سوچ بچار کے بعد جنرل راحیل شریف کو مسلح افواج پاکستان کا
15واں سربراہ مقرر کیا ہے۔وہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جگہ لے رہے ہیں جو
چھ سال آرمی چیف رہے۔ کشمیری النسل جنرل راحیل شریف 16جون1956کو کوئٹہ میں
پیدا ہوئے ۔وہ ضلع گجرات کے علاقے کنجاہ کے رہنے والے ہیں۔والدمحمد شریف
ریٹائرڈ میجر،میجر شبیر شہید نشان حیدر کے چھوٹے بھائی اورمیجر عزیز بھٹی
نشان حیدر کے بھانجے ہیں۔فوجی روایات اور قواعد کی رو سے وزیراعظم پاکستان
کسی بھی لیفٹیننٹ جنرل کو بری فوج کے سربراہ کے طور پر تعینات کر سکتے ہیں۔
اس کے لیے ان پر سینیئر ترین یا ریٹائر ہونے والے فوجی سربراہ کے مشورے پر
عمل کرنے کی پابندی نہیں ہے۔جنرل راحیل شریف لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم کو
سپر سیڈ کر کے آرمی چیف بنے ہیں۔وہ سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے جبکہ
دوسرے سینیئر ترین جنرل راشد محمود کو پاکستانی افواج کا سب سے اعلیٰ مگر
رسمی عہدہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی دیا گیا ہے۔جنرل راحیل شریف
چیف آف آرمی سٹاف بننے سے قبل انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلوئیشن کے عہدے
پر فائز تھے۔جنرل راشد محمود اس سے قبل چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر فائز
تھے اور وہ کور کمانڈر لاہور بھی رہ چکے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی اور 1976میں پاک
فوج میں کمیشن حاصل کیا اور فرنٹیئر فورس کی 6بٹالین کا حصہ بنے۔ ان کے
بھائی شبیر شریف شہید نشان حیدر کا تعلق بھی فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے
تھا۔راحیل شریف سیاست سے بیزار اور انتہائی پیشہ ور سپاہی کے طور پر جانے
جاتے ہیں۔یہی وہ خوبی ہے جو انہیں آرمی چیف کے عہدے تک لے گئی اور وہ اپنے
دو سینئرز کو سپر سیڈ کر کے پاک فوج کے سربراہ قرار پائے۔راحیل شریف نے
نوجوان افسر کے طور پر گلگت میں انفٹری بریگیڈ میں خدمات سرانجام دیں بعد
ازاں وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ایڈجوٹنٹ کے عہدے پر بھی فائز رہے بعد
ازاں انہوں نے کینیڈا کے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج سے گریجویشن اور جرمنی سے
کمپنی کمانڈر کورس کیا اور انفنٹری سکول میں انسٹرکٹر مقرر ہو گئے۔نئے
نامزد آرمی چیف کمانڈ کا انتہائی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ انفٹری بریگیڈ
میں بریگیڈ میجر بھی رہ چکے ہیں جہاں انہوں نے دو انفٹری یونٹس کی کمان کی
ان میں سے ایک انفنٹری یونٹ کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور دوسرا یونٹ
انفنٹری یونٹ سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری پر تعینات تھا۔راحیل شریف کمانڈ
اینڈسٹاف کالج کوئٹہ میں فیکلٹی ممبر بھی رہے جبکہ 1998میں انہوں نے نیشنل
ڈیفنس یونیورسٹی اسلام اآباد سے وار کورس کیا۔راحیل شریف نے بطور بریگیڈئیر
بھی ایک بار پھر دو بریگیڈ کی کمان کی جبکہ بطور جنرل بھی انہوں نے دو کور
کے کمانڈر رہے۔راحیل شریف برطانیہ نے رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز سے بھی فارغ
التحصیل ہیں۔راحیل شریف انفٹری ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ اور پاکستان
ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔بطور لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف نے
دو سال تک 30کور کی کمانڈ کی اور پھر آئی جی ایلیویشن اینڈ ٹریننگ بنا دئے
گئے۔
پاکستان بّری فوج کے نامزد سربراہ لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج
کو درپیش اندرونی چیلنجوں کے لیے تیار کرنے کے لیے سالوں پر محیط کوششوں کے
حوالے سے جانے جاتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف اپنے فوجی کریئر میں ایک
ایسے افسر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جنہوں نے گذشتہ کئی برسوں میں فوج کو
جدید خطوط پر تربیت دینے اور اسے ملکی سرحدوں کے اندر درمیانے درجے کی
لڑائیوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرنے کے لیے وقف کیے۔جنرل
راحیل نے گذشتہ چند برس فوجی صدر دفاتر میں فوج کے تربیتی شعبے کے سربراہ
کے طور پر گزارے ہیں۔ اس دوران ان کی کارکردگی کو بہت اعلیٰ درجے کی قرار
دیا جاتا ہے۔جنرل راحیل نے تقرری کی اس قلیل مدت میں پاکستانی فوج کے
تقریباً تمام اہم تربیتی کورسز کو از سر نو مرتب کر کے انھیں جدید ضروریات
سے ہم آہنگ کیا ہے۔خاص طور پر سرحدوں کے اندر امن کے قیام اور دہشت گردی کے
خلاف کارروائیوں کے لیے فوج کو تیار کرنے کے لیے جنرل راحیل شریف کے تیار
کردہ تربیتی مینولز (manuals) خاصے پسند کیے گئے اور فوجی قیادت نے ان
کتابچوں کو اعلیٰ معیار کا حامل قرار دیا۔پاکستان کے اندر اور باہر فوج کو
’لو انٹنسٹی کنفلکٹ‘ (Low Intensity Conflict) کے لیے تیار کرنے پر ان کے
تحریر کردہ مقالوں کو خاصی پذیرائی ملی ہے۔اس سے پہلے جنرل راحیل شریف
پاکستانی فوج کی بہت پسندیدہ تصور کی جانے والی پوسٹنگ کمانڈنٹ پاکستان
ملٹری اکیڈمی تعینات رہے اور اس دوران انھوں نے اکیڈمی کے نصاب میں بھی بعض
کلیدی تبدیلیاں کیں۔ ان تبدیلیوں کا محور بھی نئے فوجی افسروں کو ملک کے
اندر لڑائی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرنا تھا۔ور کمانڈر
گوجرانوالہ کے طور پر بھی جنرل راحیل نے اپنی اسی دلچسپی کو عملی شکل دی
اور کور میں ایسی تربیتی مشقیں متعارف کروائیں جن کا محور ’لو انٹینسٹی
کانفلکٹس‘ تھے۔بعض فوجی افسران کا کہنا ہے کہ مستقبل کے چیلنجوں کو سمجھنے
اور ان کے لیے فوجی ردعمل کو بطریقِ احسن استعمال کرنے کی صلاحیت کے باعث
موجودہ حالات میں جنرل راحیل کی تقرری خاصی اہم ہے۔
ملک کے اعلی ترین فوجی اعزازات پانے والے نامور فوجی خاندان کا پس منظر
رکھنے والے نئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے
کہ وہ پاکستان کے لئے نہایت شاندار کردار ادا کرتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام
سنہری حروف میں لکھا سکتے ہیں۔ دو مرتبہ پہلے بھی وزیر اعظم رہنے والے
وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے یہ پانچویں آرمی چیف کی تقرری ہے۔اپنی
خاندانی اور علاقائی روایات کے عین مطابق جنرل راحیل ایک ’کھلے ڈلے‘ افسر
خیال کیے جاتے ہیں جو اپنا موقف کسی بھی موقع پر، کسی کے بھی سامنے کھل کر
بیان کر دینے کی شہرت رکھتے ہیں۔انتہائی بارعب اور اپنے موقف پر ڈٹ
جانیوالی شخصیت کے طور پر جانے جانیوالے جنرل راحیل شریف کے دو بیٹے اور
ایک بیٹی ہے۔لوگوں میں گھل مل جانے اور ماتحتتوں کی دلجوئی کے باعث ہر
دلعزیز ہیں۔
جنرل راحیل شریف سیاست سے بیزار اور بھارت کے کٹر مخالف تسلیم کئے جاتے
ہیں۔جنرل راحیل شریف ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے بھارت کی نئی جنگ حکمت عملی
کا توڑ نکالا اور عزم نو مشقوں کا انعقاد کیا جس کے بعد بھات کی کولڈ سٹارٹ
ڈاکٹرائن(مسلسل حملوں کو منصوبہ) ناکامی سے دوچار ہو گئی جس کی وجہ سے
بھارتی قیادت نامزد آرمی چیف کو ناپسندیدہ اور خطرہ قرار دیتی ہے۔جنرل
راحیل شریف کی تقرری پر بھارتی میڈیا کے تجزئیوں میں تنقیدی انداز اپنایا
گیا ہے۔بھارتی دلچسپی یہ بیان کی گئی ہے کہ جنرل راحیل شریف کشمیر کی
کنٹرول لائین پہ تعینات رہے ہیں اور وہ فوج کا نیا وار ڈاکٹرائن تیار کرنے
والوں میں نمایاں ہیں۔جنرل اشفاق پرویز کیانی چھ سال( دو معیاد عہدہ)آرمی
چیف رہے۔’’ رائٹرز‘‘ کے مطابق ’’ پاکستان نے ماڈریٹ آرمی چیف کا انتخاب
کیاہے۔اس صورتحال میں کہ جب روائتی حریف بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنازعہ پہ
کشیدگی برقرار ہے اور امریکی افغانستان کے قیام عمل میں پاکستان کی مدد کا
خواہاں ہے‘‘۔برطانوی اخبار’’ دی گارڈین ‘‘ کے مطابق ’’ پاکستان کے نئے آرمی
چیف نا صرف ایٹمی ہتھیاروں کا واحد کنٹرول رکھنے والے شخص ہیں بلکہ پاکستان
کی افغان پالیسی کے حوالے سے فیصلہ کن حیثیت کے حامل بھی ہیں ،اس وقت جبکہ
’’نیٹو‘‘ کا افغانستان میں جنگی مشن ختم ہو رہا ہے۔نئے آرمی چیف کا تقرر ی
کا اعلان عمومی طور پر چھ سے آٹھ ہفتے قبل کیا جاتا ہے تا کہ نئے آرمی چیف
خود کو نئی جاب کے لئے تیار کر سکے لیکن نواز شریف نے اس بارے میں فوری
فیصلہ نہیں کیا‘‘۔ ’’ دی گارڈین ‘‘ کا کہنا ہے کہ جنرل شریف نے عسکریت
پسندوں سے نمٹنے کے لئے نئی حکمت عملی بنائی اور بھارت کی ’’ کولڈ سٹارٹ ‘‘
ڈاکٹرائن کو کاؤنٹر(فوری نوٹس پر پاکستان پر حملہ) کرنے پر بھی کام کیا۔
روائیتی طور پر پاکستان میں آرمی چیف کا عہدہ سب سے موثر ہے ۔بھارت کے ساتھ
تنازعات ،مسئلہ افغانستان ، طالبان گروپوں کے خلاف لڑائی سمیت اندرونی و
بیرونی دفاعی امور میں فوج کا کلیدی کردار ہے۔مسلم لیگی وزیر اعظم محمد
نواز شریف کی مضبوط سول حکومت کے قیام کے بعد آرمی چیف کے عہدے کی تکمیل پر
وزیراعظم کی طرف سے نئے آرمی چیف کا تقرر اور اس کے بعدنئے چیف جسٹس کے
تقرر کے بعد پاکستان میں اقتدار و اختیار اور حالات و واقعات کے ایک نئے
دور کا آ غاز ہو رہا ہے۔عالمی قوتیں سمجھتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے
تعلقات کی بہتری سے ہی مسئلہ افغانستان کے حل میں پیش رفت کی توقع کی جا
سکتی ہے کیونکہ پاکستان بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل میں پیش رفت کے
بغیر افغانستان دونوں ملکوں کی’’ پراکسی وار‘‘کا میدان بنا رہے گا۔المختصر
یہ کہ ملک میں تمام تر منفیت اور گراوٹ کی ترویج کے ماحول میں عوام پاکستان
میں بہتری اور ترقی کی ایسی امیدلگا ئے ہوئے ہیں جس کا کلیدی انحصار وزیر
اعظم،آرمی چیف اور چیف جسٹس پر ہے ۔میرے خیال میں اب ایک اور موقع ملا ہے
کہ ہم پاکستان میں نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط خرابیوں کا تدارک کرتے
ہوئے بہتری کا ایسا راستہ اپنائیں جہاں طبقاتی نظام کی نفی کرتے ہوئے عوام
کی توقیر کو اہمیت دی جائے۔ جنرل راحیل شریف کی آرمی چیف کے عہدہ پر
تعیناتی ہر عنوان سے خوش آئند ہے ۔میرے خیال میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جنرل
راحیل شریف نے برطانیہ،کینڈا ،جرمنی کے ملٹری اداروں سے کورسز کئے ہیں
،امریکہ سے نہیں۔ |