غور کیجئے گا

انڈیا سے سکھوں کا ایک وفدپاکستان میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنے آیا اس وفد میں سکھ رہنما سردار من موہن سنگھ بھی تھا پاکستان پہنچنے پر وہ مختلف شہروں میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرتے ہوئے فیصل آباد گئے تو وہاں پر ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے آپ اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں گے یا اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ،اس سوال کے جواب میں سکھ رہنما نے جو جواب دیا اس کو سننے کے بعد کسی بھی غیرت مند محب وطن پاکستانی کی آنکھیں شرم سے جھک جانی چاہیے ،امریکہ نواز سیاست دان ،اینکر پرسن اور غلام سوچ کے مالک خود کو آزاد کہنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے،انڈیا اور امریکہ کو اپنا وفادار کہنے والے ڈالر کے پوجاریوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ جو سچ ہمیں بولنا چاہیے وہ انڈیا سے آیا ہوا سکھ بول رہا ہے جو حقائق ہمیں سامنے لانے چائیے وہ انڈیا میں رہنے والا غیر مسلم لا رہا ہے بلااس خوف وخطرکے اس نے واپس بھی بھارت میں جانا ہے اور وہاں رہنا بھی ہے ہم اگر ایمانداری سے سوچیں تو ہمیں اپنا ایمان کمزوری کے آخری درجے سے بھی گرا ہوا نظر آئے گا سکھ رہنما نے صاف اور و شگاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان میں جو بھی دہشت گردی ہو رہی ہے وہ انڈین ایجنسی ،را، کروا رہی ہے اس میں امریکہ کا بھی ہاتھ ہے اس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے بھارت کسی بھی حد تک جا سکتا ہے پاکستان میں جو چرچ،مساجد،اور مندروں میں خود کش حملے ہوتے ہیں وہ کوئی سچا مسلمان نہیں کر سکتااور نہ اس کا کام ہے اسلام امن کا پیغام دیتاہے اورا من کا درس دینے والے کے پیروکار کبھی ایسا نہیں کر سکتے اسلام سے محبت کرنے والا بھی ایسا نہیں کر سکتا ،روس کے ٹکڑے ہونے کے بعد اس کی کچھ ریاستوں سے اور پاکستان کے علاقوں سے انڈین ایجنسی، را، لوگوں کو بھارت لے جاتی ہے وہاں ان کو تربیت دی جاتی ہے پھر ان کو پاکستان بھیج دیا جاتا ہے کہ وہاں جا کر تباہی کریں دھماکے کریں ان لڑکوں کی شکل و صورت پاکستان کے عام لوگوں سے ملتی ہے اور پھر یہ الزام لگا دیا جاتا ہے یہ پاکستانی تھا اور اس کا زمہ دار پاکستان اور اس کی مذہبی تنظیمیں ہیں سردار من موہن سنگھ نے کھل کر یہ کہا کہ آج تک جو بھی ہوا پاکستان میں اس کی زمہ دار، را ،ہے اور وہی سب کرواتی ہے ،یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک انڈین سکھ اگر یہ سب جانتا ہے تو کیا پاکستان کا نمک کھانے والے زمہ دار لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے وہ سیاست دان ،وہ میڈیا کہ لوگ،خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار، جو حب الوطنی کا لبادہ اوڑھے عوام کو مسلسل گمراہ کرتے رہتے ہیں ،جو ایک ایک منٹ کے لاکھوں ڈالر لے کر اپنے ہی ملک کی بدنامی میں سرگرم عمل رہتے ہیں ان کے لئے اس سے زیادہ شرم کا اور کیا مقام ہوگا ،ان کے لئے اس سے بڑا بے غیرتی اور غداری کا اور کیا ثبوت ہوگا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں ہونے والے ہر دھماکے کا زمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں ۔جب کہ یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں اور نہ ہی اس سے کوئی بے خبر ہے کہ اس ملک میں عرصہ دراز سے جو خون خرابہ ہو رہا ہے جو دہشت گردی کی جنگ جاری ہے اس کا اصل مجرم کون ہے،یہ کہنا کہ فلاں تنظیم نے فلاں واقعہ کی زمہ داری ویب سائٹ پر قبول کر دی ہے کوئی مشکل کام نہیں جو اتنا بڑا منصوبہ بنا سکتے ہیں وہ ویب سایٹ نہیں بنا سکتے وہ بیان خود دے کر پاکستان کی کسی تنظیم کے نام نہیں لگا سکتے کیا۔پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا کونسا مشکل ہے یہاں چلتے چلتے جس کو چاہو اجمل قصاب بنا دو اور بھارت میں ہونے والی تمام تباہی اس کے نام لگا کر پاکستان کو بدنام کر دو۔ جب بولنے والی زبانیں بک جائیں،جب احتجاج کرنے والے ہاتھ اٹھنا روک جائیں،جب سچ کی سزا موت اور جھوٹ کا انعام تخت ہوتو اس ملک کی سلامتی کو کوئی نہیں بچا سکتا۔منہ سے رام رام کرنے سے کوئی سچا نہیں ہو جاتا اس کے لئے عملی کوششیں کرنی ہوتیں ہیں۔جب اس ملک کی عوام کی حالت زار دیکھو تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور جب چند بکاو اور جھوٹ بولنے والوں کی بے سر وپا باتیں سننے تو یوں لگتا ہے جیسے اس ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے اور جو کچھ اس دنیا میں ہو رہا ہے اس کا زمہ دار بس پاکستان ہے ۔ملک باتوں سے نہیں ترقی کیا کرتے بلکہ ان کی ترقی کے لئے لیڈر انہ سوچ کے مالک ،اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے۔جب کوئی شخص،کوئی قوم،کوئی ملک دوسرے کی گند اپنے سر لے کر اپنے نام لگا کر مجرم بھی خود ہی بن جائے تو اس سے بڑی غلامی اور اس سے زیادہ بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے ۔ایک مسلمان کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ اس کی زندگی اور موت کا مالک اﷲ ہے روزی بھی اﷲ کے ہاتھ ہے ،قران میں واضع ہے کہ اﷲ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے لذت دے اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ خوف کس بات کا پھر امریکہ سے ڈر کیوں،پھر سچ بولنے سے ڈر کیوں،جب انسان کوئی کام نہ کرنا چاہتا ہو تو اس کے پاس اس کے لئے ہزاروں بہانے ہوتے ہیں اسی طرح جب انسان کسی دوسرے سے نفع کما رہا ہوتا ہے جب انسان کا ضمیر بک چکا ہوتا ہے تو اس کو باتوں سے کوئی اثر نہیں ہوتا اس کے پاس بھی سینکڑوں ایسی دلیلیں ہوتیں ہیں کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے،بالکل یہی حالت اس ملک کے حکمرانوں کی ہے ان سیاست دانوں کی ہے ان با اختیار لوگوں کی ہے جو اس ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں مگر وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے ،ان کی نظر میں اپنی ذات ملک کی سلامتی سے زیادہ عزیز ہے ،اگر ان سے ایسا کوئی بھی سوال کیا جائے کہ امریکہ اور بھارت اس ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں آپ ان کو جواب کیوں نہیں دیتے تو وہ سب جن میں سیاست دانوں کی لسٹ لمبی ہے جواب دیتے ہیں کہ نہیں ایسا کرنے سے ہمارا رزق بند ہو جائے گا ہم برباد ہو جائیں گے،ہم مر جائیں گے جب کہ ایسا ہر گز نہیں اصل میں وہ اس ملک کا نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں۔لیکن وہ اپنے آپ کو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس عوام کا اور اس ملک کا سوچ رہے ہیں جب کہ ایک باغیرت قوم کے لئے عزت نفس سے بڑھ کر اور خود مختاری سے اگے کوئی چیز نہیں ہوتی جو قوم اپنی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ کبھی دنیا میں باعزت مقام بھی نہیں حاصل کر سکتی۔اپنے اندر شعور پیدا کریں حقائق کو سمجھے ان جھوٹے لوگوں کی باتوں میں آکر اپنا ایمان نہ خراب کریں جو ملک کا نہیں وہ کسی کا نہیں ،امریکہ اور بھارت کے گیت گانے والے اس ملک اور عوام کے کبھی وفادار نہیں ہو سکتے۔ غور کیجئے گا۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69740 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.