آج کہو تو کہہ دوں..؟

آج کہو تو کہہ دوں..؟ذاتی پسنداور ناپسندنے مُلک میں ناہمواریاں پیداکردی ہیں .. ...

’’ایک عرصے سے کوئی خاص خُفیہ قوت ایسی ضرورہے کہ جو مجھے بہت کچھ لکھنے اور کہنے سے روک دیتی ہے، ورنہ تو میرے پاس لکھنے اورکہنے کو اِتنا کچھ ہے، کہ آپ پڑھتے اور سُنتے سُنتے تھک جائیں گے مگرمیں لکھتے لکھتے اور کہتے کہتے نہیں تھکوں گا،مگراپنے سینے میں اتنا لاوارکھنے کے باوجود بھی اکثر میں یہ سوچتاہوں کہ اگر میں نے وہ سب کچھ سچ لکھ دیا یا کہہ دیا تو مجھ سے خلقِ خداناراض ہوجائے گی ، اور اگر خلقِ خدامجھ سے ناراض ہوگئی توپھر میں کس کس کو ماناتاپھروں گااور اِس کے سامنے اپنے پاک دامنی کے لئے کیا کیا وضاحتیں پیش کرتارہوں گا،اور پھراِس پر بھی کیا یقین ہے کہ ناراض خلقِ خدامیری بات مان جائے گی اور اِس کا رویہ میرے ساتھ پہلے جیساہوجائے گا، یہی وجہ ہے کہ میں کچھ لکھنے اور کہنے سے ڈرتاہوں ،آج میں جس کشمکش اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوں اِس میں ایک میں ہوں دوسرا میرادماغ ہے اورتیسرا میرادل ہے جو اپنے چاروں خانوں کے ساتھ اَنگنت گرم اور ٹھنڈے جذبات لئے شامل ہے، جبکہ دوسری طرف میرے ضمیر کی وہ خفیہ طاقت ہے جو مجھے وہ سب کچھ کہنے اور لکھنے سے روکتی ہے،جو میں کرناچاہتاہوں، ورنہ تو میں کب کا وہ سب کچھ کہہ اور لکھ چکاہوتاجِسے لکھنے کے لئے میں کافی عرصے سے بیقرارہوں،مگر آج جب میں اپنی اِس جنگی اضطرابی کیفیت سے نکلناچاہ رہاہوں اوروہ سب کچھ کہہ اور لکھ دیناچاہتوں ہوں توایسے میں مجھے آپ کی حمایت اور آپ کی جانب سے ملنے والے اُس حوصلے کی اشدضرورت ہے،جو آپ نے بہت سے مواقع پربہت سے لوگوں کو دیئے ہیں ، اِسلئے آج میں بھی آپ سے ہاتھ جوڑکر اُن کی بھیک مانگتاہوں اور اُمیدرکھتاہوں کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے اورمجھے اپنی بھرپور حمایت اور حوصلے کی خیرات ضرور بخش دیں گے، اور آپ جب یہ دونوں چیزیں میری خالی جھولی میں ڈالنے کا ارادہ بھی کرلیں گے تو میں آپ سے اِپنی بات لکھنے اور کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ’’ کہوتوکہدوں...؟‘‘پھر یوں جب آپ مجھے کہوتو کہدوں کی اجازت دے دیں گے تو میں ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر اپنے دل و دماغ پر چڑھے غبار کے خلاف کو اُتارپھیکوں گا..اور وہ سب کچھ جو ایک لمبے عرصے سے میں نے اپنے دل کے تمام خانوں میں سب سے چھپاکررکھا ہے اور بہت کچھ یادوں کے بنددریچوں کے ساتھ اپنے دماغ کی رگوں میں ٹھوس کر رکھاہواہے اُن سب کو آپ کے سامنے اُنڈیل دوں گااوراِس طرح تب میں خود کو گنگاآشنان کیاہواجان کر پوِّترسمجھنے لگوں گا‘‘۔

یہ ایک خواہش ہے جو میرے دل و دماغ میں اُس وقت سے پنہاں ہے جب سے میں نے معاشرے کی ناہمواریوں کا مشاہدہ کیا ہے، اورآج میری اِس بات سے شاید آپ بھی بڑی حدتک متفق ہوں گے کہ جس معاشرے میں آپ اور میں سانس لے رہے ہیں اِس میں حکمران اور دولت مندطبقے نے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطرکیسی کیسی ناہمواریاں پیداکردی ہیں کہ میرٹ اور اِنصاف کا کھلے عام خون ہوناعام ہوگیاہے، اپنی اپنی پسندکو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سفارشی اور جونئیرزسینئرز پر لاکر بیٹھائے جارہے ہیں، اور اِنہیں ترقیاں دے کراپنی اور اغیارکی مرضی کے کام کئے جارہے ہیں، مُلک میں کوئی بھی ایساشعبہ نہیں رہاہے جہاں پر حق دار کو اِس کاحق مل رہاہو بلکہ اِسے حق سے محروم رکھ کر اپنی مرضی کے اُن لوگوں کو نوازہ جارہاہے، جو اُن کے پسندیدہ افرادہیں اور اِس عمل سے گزرنے کے بعداُوپر سے حکمران طبقہ یہ دعویٰ کرتے بھی نہیں تھک رہاہے کہ ہم حق و سچ اور میرٹ کے علمبردار ہیں ہم اور ہماری حکومت نے اِس کا تہیہ کرلیا ہے کہ مُلک میں میرٹ کو عام کیاجائے گا، اور حقدارکو اِس کا حق ملے گا، مگرایسانہیں ہے ۔جیساکہ موجودہ حکومت دعوے کررہی ہے اِس کے اِس دعوے کی ایک تازہ ترین مثال ہمارے سامنے موجود ہے جوموجودہ حکومت کے پہلے ابتدائی ایام میں مُلکی اہم ترین ادارے میں دی جانے والی ترقی کے عمل کے دوران سامنے آئی ہے، قوم نے دیکھاکہ ہمارے موجودہ وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے اپنے صوابدیدی اختیارکا استعمال کرتے ہوئے اِسی ادارے کے دوسینئرزکو پائی پاس کرکے اپنی پسندکے ایک جونئیرکو ترقی دے کراِس اہم قومی ادارے میں پائی پاس کرنے کی روایت کو برقراررکھاہے۔

جبکہ اپنے گزشتہ دودورے حکومتوں میں سے دوسرے دورِ حکومت میں ہمارے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اِس اہم ترین قومی ادارے میں اپنے پسندکی جونئیر ترین شخصیت کو ترقی دے کر اِس کے ہی ہاتھوں اپنی لولی لنگڑی ہی سہی مگر جمہوری حکومت گواں چکے ہیں ،اِس مرتبہ بھی وزیراعظم صاحب اِس اہم ترین قومی ادارے میں ترقی کے معاملے میں دوسنئیرزکو بائی پاس کرکے اپنی پسندکے جونئیرمگراپنے پیشے میں انتہائی قابل اور باصلاحیت شخصیت کو ترقی دے چکے ہیں ۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم نے اِس قومی ادارے میں ترقی کے عمل کو جس انداز سے گزراہے اِس پر کوئی شک نہیں ہے کہ اُن کا انتخاب سوفیصد درست یاغلط ہوسکتاہے مگر کیا ہی اچھاہوتاکہ پہلے اِس مُلکی اہم ترین ادارے میں دی جانے والی ترقی اُن سنئیرز کے حصے میں آتی جو ترقی پانے والے جونئیرسے بہت زیادہ سنئیرزتھے ،مگراِس موقع پر یہ شائدزیادہ بہتر تویہ ہوتاکہ وزیراعظم میا ں محمدنوازشریف اپنی ذاتی پسنداور ناپسند کو ایک طرف رکھ دیتے اور اپنے منصب اور ذاتی حیثیت سے سوچنے اور سمجھنے کے بجائے اور تدبر وبردبار ی کا مظاہرہ کرتے اور اِس اہم ترین قومی ادارے میں سینارٹی لسٹ کے حوالے سے ہونے والی ترقیوں کے سلسلے کو ملحوظِ خاطررکھتے توساری پاکستانی قوم سمیت پوری دنیامیں بھی یہ پیغام ضرورچلاجاتاکہ پاکستان کے پہلے دومرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں محمدنوازشریف اَب تیسری مرتبہ وزارتِ عظمی ٰ کا منصب سنبھالنے کے بعدسیاسی ولایت کے اُس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ آج اِن کے نزدیک ذاتی پسنداور ناپسندکوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے، آج پاکستان کے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے میاں محمدنوازشریف سیاسی روحانیت کو سمجھنے لگے ہیں اور یہ اِسی بنیاد پر مُلک و قوم کے فلاح اور بہبوداور اِس کی ترقی کے لئے ایسے سوچتے ہیں اور ایسے اقدامات اور احکاما ت جاری کرتے ہیں کہ اِن کے ایک ایک قول و فعل سے حب الوطی پھوٹتی ہے،جبکہ آج قوم کو ایک مرتبہ پھر جہاں اپنے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف کی جانب سے اہم قومی ادارے میں ہونے والی ترقی کے حوالے سے سینئرزکے ساتھ ہونے والی حق تلفی پر مایوسی ہوئی ہے تووہیں قوم اِن کے لئے بھی دعاگوہے کہ اِن کی حکومت قائم رہے،اور اِنکی حکومت کے ساتھ پھر کوئی ایساویسااور کیسانہ ہوجائے جیسااِن کے ساتھ ماضی میں ہوا۔یہ کون نہیں جانتاہے کہ اِن کی پسندید شخصیت نے اِن ہی کی حکومت کو اُلٹ پلٹ کرکے رکھ دیاتھا، بہرکیف..!آپ سمجھ چکے ہوں گے میں کیا کہناچاہتاہوں اور اِسی کے ساتھ ہی آپ سے میں ابھی یہ کہنے کی اجازت چاہوں گاکہ کہوتو کہدوں..(ختم شُد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 973557 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.