ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ سنا اور پڑھا جانے والا لفظ
’سازش‘ ہے یوں تو سازش کا مطلب ہے کہ کوئی بھی ایسا کام جو کسی دوسرے شخص
یا گروہ کے خلاف اس کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کیا جائے سازش کہلاتا ہے۔
سازشیں صرف ہمارے معاشرے کا خاصہ نہیں بلکہ بین الاقوامی نظریہ ہے اس
نظرےئے کے مطابق اور اپنے مطالعے اور تجربے کی وجہ سے آج اچانک ہم اس نتیجے
پر پہنچے ہیں کہ عالمی سطح پرہر وقت کوئی نہ کوئی سازش کہیں نہ کہیں کسی نہ
کسی کے خلاف تیار کی جاتی ہے ہمارے خیال میں ان سازشوں کا شکار بننے والے
عمومی طور پر اسلامی ممالک اور سازشیں تیار کرنے والے کفار ممالک ہیں اور
یہ سازشی قسم کے کفار ممالک کا خصوصی نشانہ ایک عظیم لیکن خود فریبی کا شکا
رقوم ، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے تباہ حال لیکن دنیائے اسلام کی قائد،
غیور اور بہاد ر عوام لیکن بے حسی اور بے حمیتی کے سمندر میں غوطہ زن ،
سوئی سے لے کر جہاز تک دوسروں کی دست نگر مگر اپنے تئیں دنیا کے سب سے
زیادہ ذہین لوگ یعنی مملکت خداد پاکستان میں بسنے والی قوم جس کے اخلاقی
انحطاط ، سستی، تساہل، خودغرضی ، خود فریبی اور دیگر کئی معاشرتی بیماریوں
کے باوجود ترقی یافتہ کفار ممالک اس قوم کی پوشیدہ صلاحیتوں سے شدید خوفزدہ
ہیں اور دن رات اس بات کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں کہ کسی طور اس قوم کو
نیچا دکھایا جائے اور اس کی بظاہر نظر نہ آنے والی ترقی کی راہ میں روڑے
اٹکائے جائیں۔ جو کفار ممالک پاکستانی قوم سے خوفزدہ اور اس کی ترقی کے
دشمن ہیں ان میں سر فہرست امریکہ اوراسرائیل ہیں جن کے بارے میں ہمارا
متفقہ خیال ہے کہ وہ اپنے تمام کام چھوڑ کر ہمہ وقت ہمارے بارے میں خوفناک
باتیں سوچتے ہیں اور خطرناک منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ آج بیٹھے بیٹھے ہمیں
خیال آیا کیوں نہ ان تمام سازشوں کا پردہ چاک کیا جائے اور عوام کو آنے
والے خطرات سے آگاہ کیا جائے کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بحثیت پاکستانی
ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہر اس معاملے میں اپنی رائے دیں جسکی الف بے بھی
ہمیں معلوم نہ ہواور ہر اس بات میں اپنی مہارت کا ثبوت دیں جس کے بارے میں
کبھی سنا بھی نہ ہو۔ پاکستان کے خلاف سب سے پہلی سازش اٹھارویں صدی عیسوی
میں انگریز نے کی جب اس نے محسوس کیا کہ اب سے دو ڈھائی سو سال کے بعد ایک
عظیم قوم معرض وجود میں آنے والی ہے تو اس نے برصغیر پر قبضہ جما لیا اور
بڑی تگ و دو اور محنت کے بعدکالا باغ ڈیم کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تیا ر
کی تاکہ یہ قوم کہیں پانی کے معاملات میں خود کفیل نہ ہو جائے چنانچہ اس نے
مستقبل میں قائم ہونے والی مملکت خداد کی مختلف صوبوں میں تقسیم کر دی اور
ان صوبوں اور صوبوں میں شامل اضلاع اور تحصیلوں تک کی یوں حد بندی کی کہ آج
دو صدیاں گزرنے کے اور ملک و قوم کی آزادی کے بعد بھی ہمارے آزاد منش عوام
اپنے اپنے صوبے اور انگریز کی کھینچی گئی لکیر کی قید میں ہیں اور وہ اپنی
صوبائی حد بندی سے باہر آنے کو قطعأ تیار نہیں گویا یہ صوبائی حد بندی نہیں
بلکہ نس بندی ہے کہ موجودہ نسلوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ آنے والی
نسلیں بھی اپنی اپنی حد میں رہیں اور کالا باغ ڈیم پر کوئی سمجھوتہ نہ ہو
سکے یوں اغیار کی سازش کامیاب رہی اور پاکستان کا کروڑوں کیوسک پانی ہر سال
سمندر میں جا گرتا ہے اور آباد زمینیں بنجر اور بنجر زمینیں بدتر حالت کو
پہنچ رہی ہیں یہ دشمن کی سازش تھی کہ آج تک ہم پانی ذخیرہ کرنے کہ قابل نہ
ہو سکے اور صورت حال یہ ہے کہ بارشیں نہ ہوں تو قحط کا سماں اور سیلاب ہو
تو پانی میں ڈوب کر مرتے ہیں حالانکہ ان حالات میں شرم سے ڈوب مرنا چاہئے
لیکن کیاکریں ( ’’شرم‘‘ نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے) یہ سب تو ہمارے
خلاف سازش ہے اور اس میں ہماری غیر ذمہ داری، لالچ، سستی، کام چوری، اقتدار
کی خواہش، صوبائی تعصب، کم علمی اور خود غرضی وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں
ہے۔
کفار ممالک کی ایک اور سازش کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب پاکستان کی سیاست
میں جاگیرداری نظام کی گرفت مضبوط ہوئی اب دیکھئے نابھارت نے اپنی آزادی کے
فورأ بعد اپنے ملک سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کردیا اور ترقی کی راہ پر
سفر کرنے کی کوشش کرنے لگا اور جب پاکستان نے بھی ایسی ہی کوشش کی اور پہلی
دفعہ ساٹھ کی دہائی میں لینڈ ریفارم کے ذریعے بڑے بڑے جغادری جاگیرداروں کو
نکیل ڈالنے کا وقت آیا تو کسی سازشی ہاتھ نے اس ساری کوشش کو ناکام بنا دیا
اور پاکستان سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ نہ ہونے دیا اور یوں ایک دفعہ پھر
کفار جیت گئے اور ہم ہار گئے کیوں کہ یہ بھی ایک سازش تھی ورنہ اس میں اس
وقت کی پارلیمنٹ میں بیٹھے جاگیرداروں کا کوئی عمل دخل نہ تھا اور نہ ہی
جرنیلی حکومت کا قصور کہ ایک اکیلا جنر ل اپنا ہی ملک تو فتح کر سکتا لیکن
اپنے اقتدار کو دوام بخشنے والوں کی گردن پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا یہ اور بات
ہے کہ عوام کا بھلے ’منکا‘ ٹوٹ جائے۔
اگر اس قسم کی سازشیں یہیں تک رہتی تو شاید ہم برداشت کر جاتے لیکن نوے کی
دہائی میں ان کافروں نے جدید ٹیکنالوجی کے نام پر وہ ادھم مچایا ہے الامان
الاحفیظ، پہلے انٹرنیٹ جیسی مکروہ چیز ایجاد کی اور اس سے خود تو علم اور
فائدہ حاصل کرنے لگے اورپھر یہ شیطانی ایجاد ہمارے ملک میں عام کر کے ہماری
قوم کے عظیم اور مجاہد نوجوان جو اقبال کے شاہین تھے اور نسیم حجازی کی
تلواروں کے سائے میں جوانی کی دہلیز پارکرنا چاہتے تھے ان کے خلاف ایک
گھناؤنی سازش کا آغاز کر دیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے
مطابق آج دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے والی صف اول کی قوم
ہمارے نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور ظاہر ہے یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت
ہو رہا ہے ورنہ ایک اسلامی ریاست میں مسلمان قوم کے بچے ایسا بیہودہ اور
غیر شرعی کام کیسے کر سکتے ہیں۔کفار نے صرف ہمارے اخلاقی انحطاط کے لئے ہی
سر توڑ کوشش نہیں کی بلکہ ہر معاملے میں چاہے وہ صحت کا شعبہ ہو یا تعلیم
کا مسئلہ ہماری ترقی میں رکاوٹیں ڈالنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے اب
اندازہ کریں کہ آزادی کے ۶۶ سال بعد بھی ہماری عوام کو صحت کی سہولتیں میسر
نہیں ہیں ڈاکٹر ہیں تو ادویات نہیں اور ادویات ہیں تو شفاء نہیں جعلی
ڈاکٹروں کی بھرمار ہے اور جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر ، اور اگر کوئی
درد دل رکھنے والاانسان ایفیڈرین سے کچھ سکون آور ادویات بنا کر پریشان حال
لوگوں کو کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی پریشانیوں سے نجات دلانے کی کوشش کر لے
تو اس کے خلا ف سازش کر کے کیس بنا دئے جاتے ہیں اور ایسے نیک لوگوں کو
منشیات فروش اور ضمیر فروش جیسے طعنے سہنے پڑتے ہیں ، اگر کوئی قصائی سفید
کوٹ پہن کر اپنے ذبح خانے کو کلینک کا نام دے کر بیما ر مریضوں کی زندگی کو
دکھوں سے آزادی دلوا دیتا ہے تو ہم اس بیچارے کو جعلی ڈاکٹر اور اطائی کہہ
کہہ کر اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں اب آپ خود بتائے یہ سازش نہیں تو اور
کیا ہے۔ انہی کفار نے پولیو کے نام پر عجب عجب ادویات بنا کر اپنے پروگرام
اس طرح ترتیب دئے ہیں کہ ان کے جاسوس گھر گھر جا کر ہمارے گھریلو حالات تک
کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمارے بچوں کو کوئی ایسی دوا پلا تے ہیں کہ
وہ بڑے ہوتے ہی کفار کی ایجادات مثلأ کمپیوٹر کے شیدائی ہو جاتے ہیں اور
انگریزی اور جدید تعلیم حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن الحمدللہ ہمارے کچھ
مجاہدین نے اس سازش کو پنپنے سے پہلے ہی جان لیا ہے اور جہاں کہیں بھی
پولیو کے قطروں کے نام پر ایسی کوئی گھناؤنی حرکت کرنے والے شر پسندوں کو
دیکھتے ہیں انہیں موقع پر قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ ہماری قوم کی تعلیم
کے خلاف بھی ایک بہت بڑی سازش کی گئی ہے ہمارے وہ سکول جہاں اساتذہ کو ہونا
چاہئے وہ کسی چودھری کی بیٹھک، کسی سائیں کی اوطاق یا کسی خان اور سردار کا
حجرہ بنی ہوئی ہے اور جہاں طلبہ کو ہونا چاۂے وہا ں بھیڑ بکریاں اور مویشی
بندھے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے یہ امریکی سازش کا نتیجہ ہے تا کہ ہمارے بچے
پڑھ لکھ کر ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ نہ کر سکیں اب اس میں ہمارے علاقائی
وڈیروں کا تو قصور نہیں ہے اور نہ ہی محکمہ تعلیم کی چشم پوشی اور انتظامیہ
کی نااہلی ، ۶۶ سالوں میں اگر کبھی تعلیم کا بجٹ ۲ فیصد سے زیادہ نہیں ہوا
تو اس کی بھی بڑی وجہ یہی سازشی عنصر ہیں ورنہ ہمارے حکمران تو چاہتے ہیں
کہ ان کے بچوں کو ملک کے اندر بھی تعلیم کی ویسی ہی سہولتیں میسر ہوں جیسی
جلا وطنی کے دور میں انہیں یورپ اور امریکہ کے اداروں میں ملتی ہیں۔
آپ آج ملک میں موجود توانائی کا بحران دیکھئے ، اس بحران پر قابو پانا
ہمارے جیسے انتہائی ذہین اور بہترین منتظمین کے لئے کیا مشکل تھا لیکن انہی
عالمی سازشوں کی وجہ سے ہم تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی ڈیم نہ بنا سکے
اور نہ توانائی کے متبادل ذرائع پر کوئی کام کیا وہ ملک جو کبھی قدرتی گیس
میں خود کفیل تھا آج اس کے لئے گھر کا چولہا جلانا بھی ایک امر مشکل ہے ،
وہ ملک جس میں کبھی دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہوا کرتا تھا آج اس کے
دریا پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ، ہر سال سیلاب میں ڈوبنے کے باوجود
اس تباہی کے تدارک کے لئے کچھ نہیں کیا گیا ، ایک زرعی ملک کو اسقدر مجبور
کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنی غذائی ضروریات کے لئے بھی گندم درآمد کرتا ہے، وہ
ملک جو کھجور کی پیداوار میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے وہ اپنی فصل کی
پروسیسنگ اور تجارت نہیں کر پا رہا، ایک جائزے کے مطابق جہاں ۱۵ لاکھ ایکڑ
زمین ایسی ہے جو دنیا کی بہترین چائے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن
ایک سازش کے تحت وہاں چائے کی کاشت پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور اب اس
کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کاہل، کام چور، بے صبرے اور لالچی ہیں بلکہ یہ ایک
عالمی سازش ہے کہ مبادا ہم امریکی کمپنیوں کی چائے چھوڑ کر اپنی چائے پینا
اور بیچنا نہ شروع کر دیں۔
امریکہ یورپ اور عرب ممالک میں پاکستانی پھلوں مثلأ آم، کیلا، آلوبخارا،
ناشپاتی اور کینو کی بہت مانگ تھی اور اس مانگ میں روز بروز اضافہ ہو رہا
تھا کہ اچانک اس طلب میں کمی واقع ہو گئی اور امریکہ نے پاکستانی پھلوں کی
درآمد پر پابندی لگا دی ، یورپ نے طلب کم کردی اور عرب ممالک اس پر سوچ رہے
ہیں اور یہ سب بھارتی سازش کی وجہ سے ہوا کہ بھارتی کمپنیوں نے دیہاتی
عورتوں کی طرح امریکہ ، یورپ اور عرب ممالک کے کان بھرنا شروع کر دئے کہ
پاکستانی تاجر کچے پھلوں پر کیلشئم کاربائیڈ لگا بھیجتے ہیں تاکہ منزل پر
پہنچتے پہنچتے یہ پھل پک کر تیار ہو جائے اور ان بھارتی تاجروں نییہ شوشہ
بھی چھوڑا کہ یہ کیمیکل نہایت زہریلا ہے اور کینسر کا سبب بھی بنتا ہے۔
ہمارا شکوہ بھارت سے نہیں بلکہ گلہ تو اپنے دوست ممالک سے ہے انہیں چاہئے
تھا کہ ہمارے تاجر بھائیوں کی خلوص نیت پر بھروسہ کرتے جو محض اس لئے اپنے
کچے پھل کیلشئم کاربائیڈ لگا کر ان ممالک کو بھجواتے تھے کہ وہاں کی عوام
کو تمام پھل باآسانی اور بروقت میسر ہوں اب ہمارے تاجر ڈاکٹر تو نہیں ہیں
کہ ان کو اس منحوس کیمیکل کی تباہ کاریوں کا بھی پتہ ہو۔لیکن میرا یقین ہے
کہ ہمارے تاجروں کو یہ کیمیکل استعمال کرنے کا مشورہ بھی کسی سازش کے تحت
کسی بھارتی دشمن نے ہی دیا ہو گا، ورنہ ہمارے تاجروں کو بھی یہ حدیث تو پتہ
ہی ہو گی کہ ’ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘۔
عوام کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے چند خدائی خدمتگاروں نے یہ
فیصلہ کیا کہ پاکستان کے ہر بچے تک دودھ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر
خوردنی تیل کی وافر مقدار پہنچائی جائے تاہم عوام کے ان ہمدرد تاجروں نے
سابق حکومت کے زیرک اور ذہین وزیر داخلہ کی طرح وسائل کی کمی کا نہایت
اچھوتا حل نکالا اور نہایت کم دودھ میں بے تحاشہ پانی ملا کر اس کی مقدار
اتنی کر لی کہ دودھ تو ہر بچے تک پہنچ سکے فائدہ بیشک کسی بچے کو نہ پہنچے
، جب خوردنی تیل کی کمی کا مسئلہ پیش آیا تو انہی درد مند تاجروں نے مردہ
جانوروں کی ہڈیوں، مرغیوں کی آلائشوں اور دیگر گندگی کو استعمال کر کے
خوردنی تیل جیسی ایک چیز بنا ڈالی جو دیکھنے میں کسی بھی قسم کے اعلیٰ
برانڈ کے تیل سے ملتا جلتا تھا اور تیل بنانے کے اس طریقے سے نہ صرف
ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ حل کیا بلکہ عوام کو بھی سستے داموں تیل
دیا،لیکن عوام دشمنوں کو یہ نیک کام ایک آنکھ نہ بھایا اور اس کام کے خلاف
ٹی وی پر باقاعدہ ایک پروگرام نشر کر ڈالا جس میں اس کار خیر کو بند کرنے
کا مطالبہ پیش کیا گیا اب یہ عوام کے منہ سے گھی کا تر نوالہ چھین لینے کی
سازش نہیں تو اور کیا ہے۔
اب حال ہی میں دس محرم کو راولپنڈی میں یہودی سازش کے نتیجے میں ہم نے اپنے
ہی بھائی مار ڈالے، اپنی مسجد جلا دی، اپنی املاک تباہ کیں اور اپنے قرآن
کی بے حرمتی کی اور اس پر مستزاد امریکی سازش کہ جونہی حکومت نے کرفیو میں
ذرا نرمی کی تو تاجروں نے اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں کو پر لگا دئے اور
ظاہر ہے یہ غنڈہ گردی، بدمعاشی، دہشت پسندی ہماری ناعاقبت اندیشی ، لالچ
اور ذہنی پسماندگی نہیں بلکہ یہود و ہنود کی سازشیں ہیں۔
آج ہمارے ملک میں موجودتمام مسائل ، انٹرنیٹ پر بے ہودگی، صحت اور تعلیم کی
سہولتوں کا فقدان، قتل و غارت گری، بھتہ خوری، دہشت گردی، معاشی اور
معاشرتی استحصال، توانائی کا بحران، کرپشن، شیعہ سنی فساد اور دیگر مسائل
کے پیچھے کسی نہ کسی سازش کا پہلو تلاش کیا جاتا ہے، ہمارے عوام اور حکمران
یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ہمیں تباہ ہونے کے لئے کسی سازش کی ضرورت
نہیں اور نہ ہی ہمارے خلاف کوئی ہم سے بہتر سازش کر سکتا ہے، ہمارے تمام
مسائل کے پیچھے کوئی تیسرا ہاتھ نہیں بلکہ ہمارے اپنے دونوں ہاتھ ہیں،
ہمارے زوال کا ذمہ دار امریکہ نہیں ہماری سستی، تساہل اور کام چوری ہے،
ہماری تباہی اسرائیلی سازش نہیں ہماری کوتاہ نظری، ناعاقبت اندیشی ،
نالائقی اور نااہلی ہے، ہماری معیشت کی تباہی کے پیچھے بھارت نہیں ہمارا
لالچ اور بے صبری ہے، ہمارے توانائی کے بحران کی وجہ بھارتی ڈیم نہیں ہماری
بزدلی اور بے ہمتی ، کم علمی اور دور اندیشی ہے اور ان تمام مسائل کی وجہ
ہمارے ہاں قحط الرجال ہے اور یہ قحط تب پیدا ہوتا ہے جب قیادت ختم ہو جائے
اور سیانے کہتے ہیں جہاں قائدین کی کثرت ہو جائے وہاں قیادت کا جنازہ نکل
جاتا ہے بلکل اسی طرح جیسے ہماری قیادت کا جنازہ نکل چکا ہے۔
اگر یہی حالات رہے تووہ دن دور نہیں جب اردو لغت میں سازش کے معنی اور
تعریف بدل جائے گی اور سازش کو یوں بیان کیا جائے گا کہ ’ ’کوئی بھی ایسا
کام یا مسئلہ جو پاکستانی قوم اپنی سستی ، کاہلی اور نالائقی کی وجہ سے نہ
کر سکے اور اپنی کارستانیوں کی وجہ سے نقصان اٹھائے غیر ملکی سازش کہلاتا
ہے‘‘ اوپر سے ہمارے حکمران جو واقعی بادشاہ لوگ ہیں اور انہیں ہر مسئلے کے
پیچھے کوئی تیسری قوت نظر آتی ہیں حالانکہ ’’ تیسری قوت‘‘ تو بیچاری نہ تین
میں نہ تیرہ میں۔ میں تو ڈرتا ہوں کہ کسی دن کوئی سیاسی بازیگر ترنگ میں آ
کر یہ اعلان نہ کر دے کہ وہ امریکی سازش کا نتیجہ ہے اور اسکی شادی کے
پیچھے اسرائیلی ہاتھ اور اس کے بچوں کی پیدائش میں ’’تیسری قوت‘‘ شامل ہے۔
اب آپ بھی سوچئے اور میں بھی غور کرتا ہوں کہ اسقدر بیہودہ کالم لکھنے کے
پیچھے کونسی سازش کارفرما ہے۔ |