کل رات ایک نجی ٹی وی چینل پہ جو پاک فوج کے بارے میں
اپنی دریدہ دہنی کے باعث جانا جاتا ہے،ایک صاحب اپنے بچے جمورے کے ساتھ
براجمان تھے۔عسکری معاملات پہ ان کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔کل ان کی
خوشی کا عالم دیدنی تھا۔باچھیں کھلی جاتی تھیں اور وہ زبانِ حال سے پکار
پکار کے کہہ رہے تھے کہ" مزے تے ماہیا ہنڑ آن گے"وہ فرما رہے تھے کہ جنرل
راحیل شریف کی بطور آرمی چیف تقرری سے فوج پہ سولین بالا دستی کا سفر تو
شروع ہو گیا لیکن اب اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ان کی گفتگو
کا محور یہ تھا کہ فوج کی قیادت کو یوں تقسیم کیا جائے کہ اس کی مرکزیت ختم
ہو جائے۔اس کی کمان ایک آرمی چیف کی بجائے تین چار کمانڈ ز میں یوں تقسیم
کر دی جائے کہ اگر کہیں کسی ایک جنرل کی سوچ میں فتور آئے بھی تو دوسرے اس
کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔چار فور سٹار جنرل بنا دیئے جائیں اور یہ چیف وغیرہ
کا ٹنٹا ختم کر دیا جائے۔
خدا گواہ فوج کو سولین حکومت کے ماتحت ہونا چاہئیے۔فوج کو بھی عوام کی
منتخب حکومت کی بنائی پالیسیوں پہ سر تسلیم خم بھی کرنا چاہیے۔فوج کو کبھی
ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی سوچ نہیں رکھنی چاہیے۔طالع آزمائی اب
قابلِ نفرت بنا دی جانی چاہیے۔ملکی دفاع کے نام پہ لوگوں کو گھروں سے
اٹھانے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے چاہے وہ ملک کو ہی اٹھا کے کہیں گروی
رکھ آئیں ۔فوج کو آنکھیں بند کر کے اور کانوں میں روئی ٹھونس کے اپنے من
میں ڈوب کے سراغ زندگی پانے کی کوشش کرنی چاہیے۔فوج کے معاملات کو ان لوگوں
کی ہدایات کی روشنی میں چلانے کی کوشش کرنی چاہیے جن کی اندرونی خوف کے
مارے ہمہ وقت گھگھی بندھی رہتی ہے۔جن میں سے کوئی پڑوسیوں سے ہدایات لیتا
ہے تو کسی کو براہ راست انکل سام کی اشیرواد حاصل ہے۔خدا گواہ ! فوج کو
پاکستان کی سیاسی حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے لیکن پاکستانی حکومت کے۔وہ لوگ
جن کی اولاد باہر ہے جن کے کاروبار باہر ہیں اور جن کے محل،انہیں پاکستان
سے کتنی ہمدردی ہو سکتی ہے۔وہ جن کا کعبہ واشنگٹن ہے ان سے پاکستانی ہونے
کی توقع عبث ہے۔فوج کے معاملات کو اب ٹی وی اینکرز کی صوابدید پہ چھوڑ دینا
چاہیے۔
جنرل راحیل شریف ایک ایسے ادارے کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں جو اس وقت ملک کا
سب سے منظم ادارہ ہے اور کافی حد تک مقتدر بھی۔بجائے اس کے کہ حکومت اس
ادارے کو کمزور کرنے کی کوششوں کی حمایت کرے، اسے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی
کوشش کرنی چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارے پہ اس کے سربراہ کی گہری
چھاپ ہوتی ہے لیکن ادارے فرد واحد نہیں چلاتا بلکہ اس کے لئے عمیق اور
معنیٰ خیز مشاورت کی جاتی ہے۔اداروں میں روایات تبدیل ہوتی ہیں لیکن اس کے
لئے جنرل اشفاق پرویز کیانی جیسا کوئی مرد آہن درکار ہوتا ہے۔یہ راتوں رات
تبدیل نہیں ہوتیں۔ضیاء الحق نے فوج کی سمت تبدیل کی تھی۔اس نے فوج کے کلچر
کو بدل کے رکھ دیا تھا۔اس وقت لیکن لوگ بغیر وضو نماز پڑھا کرتے تھے کہ
انہوں نے دل سے ان احکامات کو قبول نہیں کیا تھا۔آج پچیس سال بعد اس تبدیلی
کا اثر پاک فوج میں نظر آتا ہے کہ صبح دم لوگ اٹھ کے تہجد بھی پڑھتے ہیں
اور پانچ وقت کی نماز بھی۔
ضیاء کے ہوائی حادثہ میں دنیا چھوڑ جانے کے بعد جو آرمی چیف آئے انہوں نے
فوج کی ضیائی سمت کو تبدیل کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی حتیٰ کہ فوج
میں وہ روایات اور نظریات پختہ ہو گئے۔اس کے بعد مشرف صاحب تشریف لے آئے
انہوں نے آتے ہی فوج کو" جیسے تھے" کا حکم صادر کر دیا۔اب جسم تو "جیسے تھے
"کا آرڈر بلاچون و چراں تسلیم کر لیتا ہے لیکن دماغ یہ حکم تسلیم کرتے کرتے
عشرے گذار دیتا ہے۔جنرل مشرف کے نظریات کو جنرل کیانی نے آگے نہیں بڑھایا
بلکہ انہوں نے فوج کو ایک نیا نظریہ دیا کہ فوج ریاست کی حریف نہیں بلکہ اس
کا حصہ ہے۔انہوں نے جہاں ریاست کے احکامات کو دل و جان سے قبول کیا وہیں
اپنے ادارے کے عزت و وقار کو بھی یوں اپنے پروں کے نیچے رکھا کہ کسی کی
عزتِ نفس کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ملک وقوم کی فلاح و بہبود کے لئے جنرل
کیانی کی اسی پالیسی کے تسلسل کی ضرورت ہے۔
پاک فوج اس وقت ایک دوراہے پہ کھڑی ہے۔ تائثر یہ دیا جا رہا ہے کہ نواز
شریف نے جنرل راحیل شریف کو چیف آف آرمی سٹاف بنا کے پاک فوج کو خانہ زاد
بنا لیا ہے۔اس تائثر کی نفی جتنا جلدی ہو حکومت اور فوج دونوں کے لئے بہتر
ہے۔فوج کی سوچ بدل رہی ہے۔ اسے خود سے بدلنے کا موقع ملے گا تومعاملات خوش
اسلوبی سے ملکی استحکام اور ترقی کا باعث بنیں گے ۔اگر فوج کو مفلوج و
مطعون کر کے،اسے ناک رگڑوا کے ،تھلے لگا کے بدلنے کی کوشش کی گئی تو
معاملات بگڑنے کا خطرہ رہے گا۔معاملات بگڑ جائیں تو پھر گھر کا سربراہ گھر
والوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اگر وہ بہت اصول پسند اور اصول پسند ہو تو
بھی اسے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ملکی اور عالمی تاریخ بھی میرے اس کہے کی
تائید کرتی نظر آتی ہے۔راستی ،نیکی اورحسن نیت اپنا راستہ خود بناتی ہے
جبکہ برائی ،گمراہی اور بد نیتی بوم رنگ کی طرح ہے کہ استعمال کرنے والا
اکثر خود اس کا شکار بن جاتا ہے۔نگاہِ ناز کے منتخب یوں بھی کبھی حکومت کے
لئے زیادہ سعد ثابت نہیں ہوئے۔
جنرل راحیل کو آرمی چیف کی حیثیت سے بے شمار چیلینجز کا سامنا ہے جس میں
اندرونی اور بیرونی دہشت گردی سر فہرست ہے لیکن ان خطرات سے بھی بڑا خطرہ
فوج کو بحیثیت ادارہ دشمنوں کی نظرِ بد سے بچانا ہے۔ حکمران اپنے اندرونی
خوف پہ قابو پالیں تو فوج ان کی شاید سب ہی مان لے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج
جنرل مشرف عدالت کے روبرو آرٹیکل سکس کا سامنا کر رہے ہیں اور بظاہر فوج اس
معاملے سے لا تعلق نظر آتی ہے۔حوصلے اور صبر کے ساتھ ادارے کے عزت و وقار
کو ملحوظ رکھتے ہوئے فوج سے جس چیزکا تقاضا کیا جائے گا فوج اس کا مثبت
جواب دے گی لیکن یہ یاد رکھیں کہ فوجی سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں اپنے"
بابے" کی تو ہین نہیں بھلے وہ جہانگیر کرامت اور پرویز مشرف ہی کیوں نہ ہو۔
سولین سپریمیسی اور سٹرکچل چینجز جیسے بودے اور بے معنیٰ الفاظ پہ توجہ
دینے کی بجائے اگر عوام کے دل جیتنے کی کوشش کی جائے تو سازشوں کی خود بخود
چھٹی ہو جائے گی۔یاد رکھیں! آمریت فوجی ہوں یا سولین کبھی پسند نہیں کی
جاتی۔ |