دور جدید میں جمہوریت کو کسی بھی ملک کی ترقی کا ضامن
تصور کیا جاتا ہے۔یہ بات بہت حد تک درست معلوم پڑتی ہے جب ہم اسے ترقی
یافتہ ممالک پر اپلائی کر کے دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں فوج کے بے پناہ اثر و
رسوخ اورجمہوری عمل کے تسلسل میں بار بار مداخلت کو ملک کی موجودہ صورت حال
کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔مگر سابقہ روایات کے برعکس جنرل اشفاق پرویز
کیانی نے جمہوریت کی مضبوطی اور تسلسل کے لئے ہرممکن تعاون کیا اور جمہوری
عمل کے تسلسل کو یقینی بنایا ۔ بلاشبہ جمہوریت کے لئے ان کی گراں قدر خدمات
ہیں جو ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
پچھلے دنوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ
چیفس آف سٹاف کمیٹی کے تقرر کے حوالے سے خبریں گرم رہیں۔ یہ بحث اس وقت
اپنے انجام کو پہنچی جب 27اکتوبر کو وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ
ایک بیان میں نئے آرمی چیف اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی
تعیناتی کا اعلان کیا گیا۔جنرل راحیل شریف کو چیف آف آرمی سٹاف اور جنرل
راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کیا گیا ۔جنرل راحیل
شریف بری فوج کے پندرھویں سربراہ اور جنرل راشد محمود پندرھویں چیئرمین
جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ہوں گے۔ جنرل راحیل شریف، جنرل اشفاق پرویز
کیانی کی جگہ لیں گے جو 6سال پاکستان کی بری فوج کے سربراہ رہنے کے بعد
28اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں گے ۔ پاکستانی افواج کا سب سے اعلیٰ مگر رسمی
عہدہ چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی (جو جنرل شمیم وائیں کی ریٹائرمنٹ
کے بعد 7 اکتوبر سے خالی تھااور جنرل اشفاق پرویز کیانی اضافی ذمہ داریاں
نبھا رہے تھے) دوسرے سینئرترین افسر جنرل راشد محمود کو دیا گیا ہے۔ پچھلی
حکومت کی جمہوری مدت پوری ہونے کے بعد نئی حکومت کو اقتدار کی بطریق احسن
منتقلی اور آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعدعہدہ چھوڑنے اورنئے
آرمی چیف کا تقرریقینا خوش آئند اور مستقبل کے لئے ایک مثال ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں جرنیلوں نے بدھ کی صبح وزیر اعظم ہاؤس میں
وزیر اعظم میاں نواز شریف سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ ترجمان وزیر اعظم
ہاؤس کے مطابق ملاقات میں پیشہ ورانہ امور اور ملکی سلامتی سے متعلق
معاملات پر بات چیت ہوئی۔بعد ازاں پنجاب ہاؤس میں ایک مشاورتی اجلاس میں
دونوں جرنیلوں کے باضابطہ تقرر سے قبل سینئروزراء اور پارٹی راہنماؤں کو
ایک اہم اجلاس کے دوران اعتماد میں لیا۔ اجلاس میں وزیر اعلی پنجاب میاں
محمد نواز شریف ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر خزانہ اسحاق ڈار،
وزیر اطلاعات پرویز رشید،وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، سینیٹ میں قائد ایوان
راجہ ظفرالحق ، وزیر اعظم کے مشیر خواجہ ظہیر شریک تھے۔وزیر اعظم نے انہیں
دونوں جرنیلوں سے اپنی ملاقاتوں کے بارے میں بریف کیااور نئی تقرریوں کے
بارے میں شرکاء کو اعتماد میں لیا۔تقرریوں کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا
ہے۔
بتاتا چلوں کہ نئے آرمی چیف کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر نہیں کیا
گیا۔سینیارٹی کے لحاظ سے سرفہرست لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم(جو سپیشل سروسز
گروپ SSGکے کمانڈر بھی رہ چکے ہیں) کو" سپرسیڈ" کر کے جنرل راحیل کا تقرر
کیا گیا ہے۔جنرل راحیل سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔سینئر تھری سٹار
جرنیل ہونے کی حیثیت اپنے جونیئر جرنیل راحیل شریف کی کمانڈ میں کام کرنے
کی بجائے جنرل ہارون اسلم نے فوج کا ایک اور "علی قلی خان" بننا پسند کیا
اورقبل از وقت ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی۔واضح رہے کہ پاک فوج میں روایت ہے کہ
جب کسی سینئر کو سپر سیڈکر کے جونیئر کو ترقی دی جاتی ہے تو سینئر کے سامنے
دو آپشن ہوتے ہیں کہ یا تو وہ جونیئر کی زیر کمان ملازمت جاری رکھے یا پھر
ریٹائرمنٹ پر چلا جائے ۔ زیادہ تر افسر دوسرے آپشن کو ترجیح دیتے ہیں اور
خود بخود ریٹائر منٹ پر چلے جاتے ہیں ۔ ترقی پانے والے دونوں جنرل ہارون
اسلم سے جونیئر تھے۔لیفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم نے اپنا استعفٰی ملٹری
سیکرٹری برانچ کو بھجوا دیا ہے۔
ہارون اسلم کو چیف آف آرمی سٹاف نہ بنائے جانے پربعض تجزیہ نگاروں کاخیال
ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے "کمانڈو ایکشن" کے بعد میاں نواز شریف ایس ایس جی
کے کمانڈوز سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور موجودہ حالات میں نواز شریف کسی نئے
کمانڈو ایکشن کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ۔ اس لئے انہوں نے اپنا صوابدیدی
اختیار استعمال کرتے ہوئے جنرل راحیل اشرف کو فور سٹار جنرل کے عہدے پر
ترقی دے کر چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا۔
جنرل راحیل میجر شریف کے بیٹے ،65کی جنگ میں نشان حیدر پانے والے میجر عزیز
بھٹی شہیدکے بھانجے اور 71کی جنگ میں نشان حیدر پانے والے میجر شبیرشریف
شہیدکے بھائی ہیں۔اکتوبر 1976میں کمیشن حاصل کرنے والے جنرل راحیل شریف
کومیجر شبیر شریف کی شہادت،انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلوئیشن اور
گوجرانوالہ کور کی کمانڈ "سی او اے ایس" کے عہدے تک لے آئی۔ انہوں نے
انفینٹری بریگیڈ گلگت، اورپاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ایڈجوائنٹ کے طور
پر بھی کام کیا۔
میں جنرل راحیل شریف کو اس تعیناتی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ان کی اپنے
کام سے لگن اور قابلیت میں کوئی شک نہیں اور دفاع پاکستان سے یقینا کوئی
بھی آرمی چیف غافل نہیں ہو سکتا مگر انہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مربوط،
پائیدار اور قابل قبول حکمت عملی بنانا ہو گی ۔ تینوں مسلح افواج کے باہمی
تعلقات کو مضبوط بنانا ہو گااور سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی اور ادارہ
جاتی روابط میں بہتری کو یقینی بنانا ہو گا تا کہ ڈیفنس پالیسی سمیت دیگر
معاملات خوش اسلوبی سے طے پا سکیں اور جمہوریت بھی رواں دواں رہے ۔ |