بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
آج ہم اپنے اردگرد پر نظر ڈالیں تواہل بصیرت صاحبان علم و فن خال خال ہی
ملیں گے!…… متا عِ عشق‘ اور دوائے دل لُٹانے والوں کی بستی سونی نظر آئے گی……
عشق ومستی‘ سوزوگداز ‘اور صد ق واخلا ص کی جِنس بھی کمیا ب ونایاب ہے……
مگرہاں!……
اہلِ عشق ومحبت اور صاحبا نِ صد ق وصفا کے تذکرے دستیاب ہیں ……آج کے دور
میں یہ بھی متا عِ گر اں مایہ سے کچھ کم نہیں !
چونکہ گل رَفت و گلستاں شُد خراب
بوئے گل را از کہ جوئیم از گلاب
’’اگر چہ بہار کا موسم گز رچکا اور گلستا ن پر ویر انی چھائی ہوئی ہے مگر
آج بھی گلاب کی خو شبوکاآنا‘ موسمِ بہار کا پتا دیتا ہے‘‘ ۔
اس حقیقت سے انکار محال ہے کہ مقربینِ با رگاہِ ربو بیت کی زیا رت سے مر دہ
دلو ں کو حیا تِ نو کی دولت نصیب ہوتی ہے …… اُن کی زبان سے نکلے کلما تِ
طیبا ب ‘ امر اضِ قلبی کے لیے شفاء کا پیغا م دیتے ہیں……لیکن اِن حضرات کے
تذکروں سے بھی ان نفوسِ قد سیہ کے حسنِ کر دار اور اخلا قِ عالیہ کی ایسی
خوشبو میسر ہوتی ہے جوقارئین کے مشامِ جاں کو معطرو مسحور کردیتی ہے……اُن
کے تذکروں سے اُن کی صحبت جیسی تا ثیر ملتی ہے‘ جن سے دلوں کے بند در یچے‘
کُھلتے محسوس ہوتے ہیں……پھر اگر بخت‘ یا ور اور طلب ‘صادق ہوتوان سے دل کی
اُجڑی بستیاں آبا د ہوتی چلی جاتی ہیں…… مقر بانِ با رگاہِ ربو بیت کے تذکر
ے ‘اہل ایمان کے لیے سچائی تک رسائی‘ صبر و استقا مت اور اطمینان قلبی کا
باعث ہوتے ہیں ۔جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ارشاد با ری تعالیٰ ہے :
وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبِیاَءِ الرُّسُلِ مَانُثَبِّتُ بِہٖ
فُؤَادَکَج
وَجَآءَ کَ فِیْ ھٰذِہِ الْحَقُّ وَ مَوْعِظَۃٌ وَّذِکْرٰی لِلْمُوْ
مِنِیْنَ
(سورۂ ھود:۱۲۰)
’’اوریہ سب جو ہم بیان کرتے ہیں آپ سے پیغمبروں کی سرگزشتیں(یعنی حضرات اہل
اﷲ کے تذکرے)یہ اس لیے ہیں کہ پختہ کر دیں ان سے آپ کے قلب(مبارک) کو،اور
آیا آپ کے پاس اس میں حق اور یہ نصیحت اور(اس میں) یاد دہانی ہے اہل ایمان
کے لیے‘‘۔
قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرات اہل اﷲ کے تذکروں سے ایمان
والوں کے قلوب پختہ ہوا کرتے ہیں‘بزرگوں کی یاد منانا حق ہے اور یہ کہ ان
کے تذکروں میں نصیحت ہے……ان عظمت والو ں میں شاہ احمد رضا حنفی رحمۃ اﷲ
علیہ کی ہستی بھی نمایاں شان کی مالک ہے……اُن کی علمی و روحانی شخصیت
تقریباً سو سال سے عالم اسلام پر بادل بن کر چھائی ہوئی ہے……
شاہ احمد رضا حنفی ۱۸۵۶ ء کو بھارت کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے اور ۱۹۲۱ء
کو وہیں وصال فر ما یا……آپ اس دور میں پیدا ہوئے جب بر صغیر کے حالا ت
دگرگوں تھے ایک خونی انقلا ب آنے والا تھا، مسلمانوں کے حالات اور افکا ر
واعمال میں ایک ہیجان بر پاتھا ، ایسی تحریکیں چل پڑی تھیں جنہوں نے ایمان
ویقین کو کمز ور کر دیا تھا ۔ آپ نے جب ہوش سنبھا لا تو اپنی خدادادایمانی
اور علمی قوت سے گرتے ہوؤں کو بچایا ، آپ نے مسلمانوں کے ایمان ویقین کو
متز لز ل اور عشق ومحبت کو بربادنہ ہونے دیا …… عشق رسول ﷺ کی ایسی شمع
روشن کی جس نے تاریک فضاؤں کوآج تک روشن کیاہوا ہے ‘آپ نے عشق رسول ﷺ کے
ذریعے مسلمانوں میں زندگی کی ایک ایسی لہر دوڑائی جس نے مُردوں کو زندہ کر
دیا…… آپ نے دور جدید کی شکستوں اور ناکامیوں میں مسلمانوں کی رہنمائی
فرمائی …… آپ نے پوری اسلامی تاریخ سے کشید کرکے مسلم ثقافت پیش کی …… آپ
نے روایتی حکمت ودانش کو زندہ رکھا …… آپ نے جدید سائنس کے مقابل اسلا م کا
دفاع کیا …… آپ نے عالمی بر ادری کا اسلا می تصورپیش کیا اور حقیقی اسلامی
بر ادری کا تحفظ کیا …… آپ نے عصر جدید کو مذہب اور تصوف کی شاندار ‘روایات
کو پامال کرنے نہ دیا …… آپ نے عقائد وجماعت کی حفاظت کی …… وہ عقائد جو
اسلا م کی اساس ہیں……آپ ایک عظیم مدبر اورجہاں دیدہ مبصر تھے…… آپ کی اصل
اہمیت یہ ہے کہ وقت نے آپ کو سچااور صحیح ثابت کیا اور وقت کی گو اہی سچی
اور اٹل ہے ۔ بلا شبہ آپ عظیم بزرگ تھے ۔مزید معلومات کے لیے ہمارا
رسالہ’’پردہ اُٹھتا ہے‘‘کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
شاہ احمد رضا حنفی کی عظمت کی ایک نشانی تویہ ہے کہ جو علو م وفنون آپکے
علم میں تھے بلکہ ان علو م وفنون میں آپ نے تصانیف بھی یادگار چھوڑیں‘ ان
کے علاوہ مستقبل کے ان علوم وفنون کی نشان دہی کی جوابھی باقاعدہ وجود میں
بھی نہیں آئے تھے……دوسری نشانی یہ کہ آپ نے ملت اسلامیہ کے دینی ، اخلاقی ،
معاشی ، تعلیمی اور سیا سی مسائل کا جو حل پیش کیاتھا‘ ایک صدی گزر جانے کے
باوجود عالم اسلا م کے مسائل کے لیے آج وہ اسی طرح مؤثر ہیں …… تیسری نشانی
یہ کہ آپ کی حیات وتعلیمات اور علمی آثار پر دنیا کے چار براعظموں : بر
اعظم ایشیاء ، بر اعظم یورپ، بر اعظم امریکہ اور براعظم افریقہ کی جامعا ت
اور تحقیقی اداروں میں کا م ہوا اور ہورہا ہے ۔تفصیل کے لیے سیدی اُستاذی
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمدکی’’امام احمد رضا اور عالمی جامعات‘‘اور
ہماری’’امام احمد رضا اور جامعہ الازہر‘‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
شاہ احمد رضا حنفی نے اپنے علمی تبحر سے علمائے اسلا م اور حکمائے اسلا م
کی یاد تازہ کر دی اور ان کے شاند ار تسلسل کو قائم رکھا ۔ منقولات اور
معقولات میں آپ نے اردو، فارسی اور عربی میں جو لا تعداد تصانیف اور شرح
وحواشی پیش کیں ان سے آپ کی حیرت انگیز وسعت علمی اور عظمت کا اند ازہ
ہوتاہے ۔ آپ کے بہت سے قلمی مخطوطات کے عکس آج بھی موجود ہیں ۔ آپ نے اپنے
فتوؤں کا ایک عظیم ذخیر ہ چھوڑا ہے جو منقولا ت اور معقولات کا جامع ہے ۔
’’فتا وٰی رضویہ‘‘ کی بارہ جلدیں متعدد بار ہند وستان وپاکستا ن سے شائع
ہوچکی ہیں …… تاریخِ فتاوٰی میں’’ فتاوٰ ی رضویہ‘‘ اپنی نظیرآپ ہے۔ ایک ایک
فتوے میں بیسیوں حوالے ہیں جن کو پڑھ کر غیر مفتی بھی مفتی بن گئے ۔
شاہ احمد رضا حنفی کے زمانے میں حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے
اورنبوت کا دعوٰ ی کرنے والے پیدا ہوئے‘ آپ نے ناموس مصطفی ﷺ کی حفاظت
فرمائی اور نا م نہاد ین کی سخت مزاحمت فرمائی ، مسلسل رسالے لکھے اور
فتاوٰی جاری کیے ……سیر ت نبوی ﷺ سے متعلق اگرشاہ احمد رضا حنفی کے رسالے
اور فتاوٰی جمع کیے جائیں تو سیرت النبی ﷺ پرالگ سے ایک ضخیم کتاب تیار
ہوسکتی ہے……حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی ہر
کتاب میں سیرت ہی سیرت جگمگا رہی ہے……شاہ احمد رضا حنفی نے ادب وشاعر ی کو
مجازی محبوبوں سے نجات بخشی اور حقیقی محبو ب کا ایسا رنگ دکھا یا کہ سارے
رنگ پھیکے پڑگئے ……فن شاعر ی میں نعت کو اتنا بلند کیا کہ پوری اردو شاعر ی
تکتی رہ گئی ……آپ نے نعتیہ شاعری سے ملت میں ایک نئی روح پھونک دی ……آپ کا
نعتیہ کلا م ’’ حدائق بخشش‘‘ کے نام سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکا
ہے،جبکہ عربی شاعری کا پورا مجموعہ ’’بساتین الغفران ‘‘ کے عنوان سے جامعہ
از ہر‘مصر کے استا ذ شیخ سید حازم محمد احمد عبد الرحیم المحفوظ نے مرتب
کیا ہے جو ۱۹۹۷ ء میں لا ہور میں شائع ہوگیا ہے ۔
شاہ احمد رضا حنفی کے عہد میں معاشرے میں بہت سی بد عات رائج ہوگئی تھیں
……آپ نے سختی سے ان کا رد فرمایا اورایک ایک بدعت کے ردمیں تحقیقی مقالے ،
رسالے اور فتاوٰی صادر فرمائے ……آج ہمارے معمو لات میں بھی بہت سی ایسی چیز
یں داخل ہوچکی ہیں جن کی شاہ احمد رضا حنفی نے سخت مخالفت فرمائی تھی ،آپ
کے افکار وخیالات کی روشنی میں ہمیں اپنی اصلا ح کی طرف بھی توجہ دینی جائے
……
جدید علو م عقلیہ نے جوانوں کو مبہوت کر دیا تھا ……شاہ احمد رضا حنفی نے
اپنے عہد کے سائنسد انوں کو چیلنج کر کے جوانوں کو حیران کر دیا اور ان کا
ایمان متز لز ل نہ ہونے دیا ……۱۹۱۹ ء کو کششِ ثقل کے نتیجے میں آفتاب میں
گھاؤ پیدا ہونگے جس سے زمین کے بعض علا قوں میں قیامت صغرابر پاہوگی ……جب
شاہ احمد رضا حنفی کو انگریزی اخبار Daily Ex. press(شمار ہ ۱۸؍اکتو بر
۱۹۱۹ء)کی یہ خبر سنائی گئی تو آپ نے اس خبر کو لغو قراردیا ۔ پھر اس پیش
گوئی کے ردمیں ایک مقالہ ’’ معین مبین بہر دورشمس وسکو ن زمین ‘‘ قلم بند
فرمایا جس میں ۱۷؍دلائل سے پر وفیسرالبر ٹ ایف پورٹا کا رد فرمایا ،چنانچہ
۱۷ ؍دسمبر ۱۹۱۹ء کو سب نے دیکھا کہ شاہ احمد رضا حنفی نے جو فرمایا تھا
وہی سچ ثابت ہوا ……آپ نے اس رسالے کے بعد علم ھیئت پر دو دقیق مقالے’’فوز
مبین در رد حرکت زمین‘‘(بریلی)اور’’الکلمۃ الملھمہ فی الحکمۃ المحکمہ لوھاء
فلسفہ المشئمہ‘‘ (دہلی ۱۹۷۴ء)قلم بند فرمائے ‘جن میں جد ید وقدیم فلسفیو ں
اور سائنسد انوں کا رد فرمایا ہے ……مزید تفصیل کے لیے سیدی اُستاذی پروفیسر
ڈاکٹر محمد مسعود احمد،ڈاکٹر مجیداﷲ قادری اور ڈاکٹر محمد مالک کی کتب کا
مطالعہ مفید ہوگا۔
اسلا می حکومت مزاج کے اعتبا رسے غیر مذہبی نہیں ، خالص مذہبی ہے کیونکہ
اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری رہنمائی کرتاہے
……شاہ احمد رضا حنفی کے آخر ی زمانے ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۱ء کے درمیان تحریک
خلافت اور تحریک ترک موالا ت چلیں اور ہند ومسلم اتحاد کی باتیں ہونے لگیں
توآپ نے اس خیال کی سخت مز احمت ومخالفت فرمائی اور’’ دوقومی نظریہ‘‘ کا
احیا ء کیا ‘ یہ وہ زمانہ تھا جب محمد علی جنا ح اور ڈاکٹر محمد اقبال بھی
ایک قومی نظریہ کے حامی تھے۔ آپ کی انقلابی جد جہد نے ان دونوں قائدین کی
رہنمائی کی ……افسوس ہم ابھی تک شاہ احمد رضا حنفی کے سیاسی تد بر کو سمجھ
نہیں سکے ……اﷲ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے ۔ آمین ‘شاہ احمد رضا حنفی نے اپنے
رسالے ’’المحجۃ المؤتمنہ ‘‘ میں دوقومی نظریہ کی خوب وضاحت فرمائی ہے ……
نصاب تعلیم ، اسلا می طر ز حکومت میں بنیا دی اہمیت کا حامل ہے ……شاہ احمد
رضا حنفی نے جدید نظام تعلیم کے خلاف سخت جد وجہد فرمائی جو انگریز حاکموں
نے مسلمانوں کے مزاج و معاشرت کے بدلنے اور اسلا م سے دور کر نے کے لیے نا
فذکیاتھا ……آپ نے نظام تعلیم اور اقتصادی نظام کا ایک خاکہ پیش کیا ……جس کا
تفصیلی ذکر علامہ جلا ل الدین قادری نے ’’ امام احمد کا نظر یہ ء تعلیم ‘‘
(لاہور ) ، پر وفیسر رفیع اﷲ صد یقی نے ’’فاضل بریلوی کے معاشی نکا ت جدید
معاشیات کے آئینے میں‘‘ (لاہور۱۹۷۸ء)اور کمیبرج یونیورسٹی کے انگر یز نو
مسلم استاد ڈاکٹر محمد ہارون نے ’’ امام احمد رضا محدث بریلو ی کا عظیم
اصلاحی منصوبہ ‘‘(کراچی ۱۹۹۷ء ) میں تفصیل سے بیان کیا ہے …… عظیم منصوبہ
وہی پیش کر سکتا ہے جس کے افکار و خیالات خود عظیم ہوں…… بلاشبہ شاہ احمد
رضا حنفی اپنے دور کی ایک ایسی عظیم شخصیت تھے‘جن کے افکار و خیالات ہمہ
جہت تھے…… ان کا علم ہمہ گیر اور عالمگیر تھا‘ ان کے اثرات بھی ہمہ گیر اور
عالمگیر ہیں ……اﷲ تعالیٰ ہمیں ان کے افکار عالیہ سے ہدایت ورہنمائی عطا
فرماتا رہے۔آمین |