وطن عزیز پاکستان میں روز وشب
کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ سر کجھانے کی فرصت نہیں ملتی۔ویسے بھی جس کے
اپنے گھر میں آگ لگی ہو۔آئے روز جس کا کوئی بھائی بند بوری میں بند
ملے۔دھماکے میں اڑا دیا جائے یا فائرنگ کر کے قتل کر دیا جائے۔جس کے
بھائیوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کے لئے ساری دنیا نے ایکا کر لیا ہو۔ساری
دنیا کی معاشی مصیبتوں نے جس کا گھر دیکھ لیا ہو۔چاروں طرف بلکہ اوپر اور
نیچے سے بھی دشمن وار پہ وار کرتا ہو ۔جہاں کسی سمت سے کوئی اچھی خبر نہ
آتی ہو۔جس گھر کے مکیں ایک دوسرے سے بیزار ہوکے آپس میں باہم دست و گریبان
ہوں۔اس گھر کا مکین گھر چھوڑ کے اگر محلے میں ہونے والے واقعات پہ کمنٹری
کرنے کی کوشش کرے تو اس شخص کی ہمت کی داد دینی چاہئیے۔میں جانتا ہوں کہ
مسلم امہ جسدِ واحد کی طرح ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ انسانیت نام کا
ایک مذہب ہے لیکن کہاں ہے یہ میں نہیں جانتا۔جانتا ہوں تو بس اتنا کہ دنیا
میں دو ہی مذہب ہیں دو ہی قومیں اور دو ہی نظرئیے۔ایک حاکمیت اور دوسرا
محکومیت۔ ایک زور طاقت اور جبر کا اور دوسرابے بسی،بے چارگی اور بے بضاعتی
کا۔
طاقت ور ہمیشہ سے مقتدر رہا ہے اور کمزور ہمیشہ سے محکوم ۔شاید قانون قدرت
بھی یہی ہے لیکن جب کوئی اس قانون کو توڑ کے اپنے اور اپنے بھائی بندوں کے
لئے بہتری کی راہ تلاش کرتا ہے تو وہ مایوسیوں کے گھپ اندھیرے میں روشنی کی
کرن محسوس ہوتا ہے۔جنوبی افریقہ بھی ایک مدت تک نسلی جبر کا شکار رہا۔مٹھی
بھر گوری اقلیت نے رنگ کی بنیاد پہ کالوں پہ وہ وہ مظالم ڈھائے گئے کہ جان
کے حیرت ہوتی ہے۔آپ کی کوئی رائے نہیں۔آپ کے لئے تعلیم کی کوئی سہولت
نہیں۔آپ گوروں کے ریسٹورنٹس میں کھانا نہیں کھا سکتے۔ان کے ساتھ بس میں سفر
نہیں کر سکتے۔کالم تفصیلات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔بد نام زمانہ اپارتھی
قوانین کے بارے میں جان کے حیرت ہوتی تھی کہ جدید دنیا میں بھی کمزوروں کے
ساتھ اس طرح کا سلوک ہو سکتا ہے۔ان بدنام زمانہ قوانین کے خلاف ایک عام اور
نہتے دیہاتی نے آواز اٹھائی اور ایسی طاقتور آواز کہ بالآخر اس کی آواز میں
ساری دنیا کو اپنی آواز ملانا پڑی۔یہ آواز جنوبی افریقہ کے مرد حر نیلسن
منڈیلا کی تھی۔
ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے نسل و رنگ و مذہب کے
تعصب کے بغیر محبت کرنے والے اس شخص کا اپنے قارئین کے سامنے ذکر کروں۔لیکن
بس ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔یوں تو نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے ایک
شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کی پیدائش کے وقت یہ شاہی ماضی کا
قصہ بن چکی تھی۔ملک میں گوری اقلیت حکمران تھی۔انہوں نے ایسے قوانین
بنارکھے تھے کہ جس میں ملک کی اکثریت سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا
تھا۔انہیں حقیقی معنوں میں غلام بنا لیا گیا تھا۔غلامی کسی بھی شکل میں ہو
وہ انسان کی بنیادی صلاحیتوں پہ حملہ آور ہو کے انہیں کمزور کرتا ہے۔
اکثریت اس جبر کو قبول کر لیتی اور راضی برضا ہو جاتی ہے لیکن کچھ چنیدہ
لوگ بہر حال ان حالات میں بھی انسان کے اندر چھپے جذبہ حریت کو بیدار کرنے
کی ہمو وقت کوشش کرتے رہتے ہیں۔وہ اپنے علم و عمل اور قول و فعل سے عوام کو
باور کراتے ہیں کہ اﷲ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے تو اسے آزاد ہی رہنا
چاہئیے۔نیلسن منڈیلا کو بھی قدرت نے انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد
کروانے کے لئے چن رکھا تھا۔منڈیلا نے قانون پڑھا تو فیصلہ کیا کہ قانون کے
دائرے میں رہتے ہوئے ہی اپنی جدو جہد کو جاری رکھیں گے لیکن پھر ایک وقت ان
کی تحریک میں ایسا بھی آیا کہ جب انہیں عدم تشدد کی راہ ترک کرنا پڑی۔
زندگی میں واقعی چند ایسے مقامات آتے ہیں جب انسان اپنی طبع پہ جبر کر کے
کچھ ایسے اقدامات کرتا ہے جن سے اسے خود بھی اتفاق نہیں ہوتا۔جبر کا جواب
جبر ہی ہوتا ہے۔وہ زمانہ گیا جب ایک گال پہ تھپڑ کھا کے دوسرا پیش کرنے کا
حکم تھا۔نیلسن منڈیلا بھی اپنے انہی اقدامات کی بنیاد پہ گرفتار کر لئے
گئے۔غداری کا مقدمہ چلا اور انہیں عمر قید کی سزا ہو گئی۔نیلسن منڈیلا نے
پورے ستائیس سال جیل میں گذارے۔ان کی تعلیمات اور ان کی قربانی نے گوروں کی
طاقت میں دراڑ ڈالنا شروع کی ۔عوام بالآخر خوابِ غفلت سے بیدار ہونے
لگے۔بین الاقوامی تنظیمیں پہلے اس تحریک کی حمایت میں متحرک ہوئیں۔ان کی
کوششوں کے نتیجے میں دنیا کے دوسرے ممالک نے بھی جنوبی افریقہ کی حکومت پہ
اپنا دباؤ بڑھایا۔اس کا بائیکاٹ کیا گیا۔اس پہ پابندیاں لگائی گئیں اور آخر
کار حکومت نے اندرونی اور بیرونی دباؤ سے مجبور ہو کے ہتھیار ڈال
دئیے۔نیلسن منڈیلا کو ستائیس سال بعد آزادی کا سانس لینا نصیب ہوا۔۱۹۹۴ ء
میں ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا اوراس میں نیلسن منڈیلا کی پارٹی نے
تاریخ ساز فتح حاصل کی۔نیلسن منڈیلا ملک کے پہلے کالے صدر بن گئے۔
اصل کام اس کے بعد شروع ہوا۔خیال تھا کہ دورغلامی کی تلخی شاید جنوبی
افریقہ کی نئی حکومت کو گوری اقلیت کے خلاف ظلم و جبر سے نہیں روک پائے
گی۔نیلسن منڈیلا نے لیکن کمال کر دیا۔ انہوں نے وہی اعلان کیا جو اس سے
پہلے ہمارے نبی مکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر کیا تھا کہ آج سب کے لئے عام
معافی ہے اور کسی پر کوئی پکڑ نہیں۔ان کے اس اقدام سے آج جنوبی افریقہ ترقی
یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے اور وہاں اب کوئی کسی سے کوئی پرخاش نہیں
رکھتا۔یہ ایک ایسا سبق تھا جو نیلسن نے نہ صرف اپنی قوم کو دیا بلکہ ساری
دنیا کو بھی کہ پرانے جھگڑے ختم کر کے اور پرانی تلخیاں مٹا کے ہی آپ آگے
بڑھ سکتے ہیں۔ اتحاد و اتفاق ہی کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی کا ضامن
ہوتا ہے اور بدلہ لینے والا بدلہ لے کے بھی کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔معافی ایک
ایسی نعمت ہے جو معاشرے میں امن سکون اور آشتی لاتی ہے۔
نیلسن آج اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ان کی دی گئی قربانیاں ان کا طرز عمل اور ان
کی قئدانہ صلاحیتوں کو دنیا یاد رکھے گی۔ہمارے لیڈر اور حکمران بھی ان کی
وفات پہ بڑے بڑے بیانات جاری کریں گے لیکن ہمارے ہاں ان کے فلسفے کے بارے
میں کسی کو سوچنے اور اس پہ غور کرنے کی فرصت کسی کو نہ ہو گی۔جن لوگوں نے
کبھی اپنے نبی ﷺ کی سیرت کو اپنانے کا نہیں سوچا وہ نیلسن منڈیلا کو کیا
گھاس ڈالیں گے۔یہ سب نیلسن منڈیلا سے بڑے لیڈر ہیں ۔یہ reconcile بھی صرف
ایک دوسرے کی کرپشن چھپانے کے لئے کرتے ہیں مخلوق کی حالت بہتر بنانے کے
لئے نہیں۔کاش ایک این آر او اس ملک میں عوام کے لئے بھی کیا جا سکتا۔ |