خان صاحب اور نیٹو سپلائی

مجھے یاد ہے کہ تحریک انصاف کے شروع کے دنوں میں ایک بار اپنے تئیں کچھ بڑے سیاسی لیڈروں سمیت پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ یہ لیڈر وہ تھے جو سونامی کی لہروں پہ سوار ہو کے تحریک انصاف میں چلے آئے تھے۔ دو دو تین تین بار انہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن جیت رکھے تھے اور وہ بجا طور پہ اپنے آپ کو سیاست کا محور و مرکز سمجھتے تھے۔وہ جب بھی عمران کا ذکر کرتے تو ایسے جیسے کوئی بزرگ کسی بچے کا ذکر کرتا ہے۔اس پارٹی اجلاس میں بظاہر ایک انتہائی معزز کارکن اٹھااور اجلاس کے صدر سے مخاطب ہو کے کہنے لگا کہ جناب صدر اس اجلاس میں شریک کچھ لوگ چیئرمین کا نام لیتے وقت آداب کو ملحوظ نہیں رکھتے،ہم تمام کارکنوں کی طرف سے انہیں بتا دیں کہ آئیندہ کوئی بھی عمران خان صاحب کو صرف عمران نہیں کہے گابلکہ انہیں عمران خان صاحب کے نام سے پکارا جائے گا۔بد تمیزی کرنے والے کو آئندہ ہم اجلاس سے اٹھا کے باہر پھینک دیں گے۔یو نہی ایک بابا جی جو اسمبلی میں عمران کے کولیک رہے تھے نے عمران خان کی کچھ باتوں سے اختلاف کیا تو انہیں بھرے جلسے میں عوام کے سامنے کارکنوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

اس لئے تحریک انصاف کا ایک کمال تو بہر حال ماننا پڑے گا کہ یہ عمران خان کے دیوانوں کی جماعت ہے۔گو کہ چڑھتا سونامی اپنے ساتھ بڑے بڑے نام بہا کے اس پارٹی میں لے آیا تھا اور اب اسے لیڈروں کی کمی نہیں جیسا کہ کسی زمانے میں اسے تانگہ پارٹی کا طعنہ دیا تھا لیکن عمران آج بھی نمک کی کان ہے کہ جو اس کے ساتھ چلا آتا ہے اس کی اپنی کمپوزیشن بھلے جو بھی ہوختم ہو کے رہ جاتی ہے۔ جاوید ہاشمی پاکستان کی سیاست میں تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں ملکی سیاست کے وہ چند بڑے ناموں میں سے ہیں۔ان کی قربانیاں اور سیاست میں ان کا مقام ڈھکا چھپا نہیں ۔لوگ بجا طور پہ انہیں باغی کہتے ہیں۔تحریک انصاف میں بھی باغی باغی کے نعرے لگتے ہیں لیکن یہ ان نعروں کے مقابل کچھ بھی نہیں جو عمران کے لئے لگتے ہیں۔جاوید ہاشمی اپنی تمام تر مقبولیت اور نیک نامی کے نمک کی اس کان میں نمک ہو چکے کہ اب کہیں ان کے منہ سے کوئی فقرہ پھسل جائے تو انہیں معافی مانگنا پڑتی ہے۔اس سے کم پہ کارکن راضی نہیں ہوتے۔

رہے شاہ محمود ،جہانگیر ترین اور اسی طرح کے دوسرے بڑے نام تو حال ان کا بھی یہی ہے۔سیاسی لیڈر کسی بھی پارٹی میں ہو،جوں جوں اس کا سیاسی قد دراز ہوتا ہے توں توں وہ پارٹی کے اندر اپنا دھڑا تشکیل دیتا ہے ۔تحریک انصاف شاید دوسری بڑی پارٹی ہے جہاں دھڑے تو موجود ہیں لیکن ان کی کوئی حیثیت یوں نہیں کہ کارکن ان لیڈروں کے گرد صرف اس لئے رہتے ہیں کہ ان کے توسط سے عمران کی خبر اور اس سے ملاقات کے مواقع زیادہ میسر آتے ہیں اور بس۔آج اگر ان بڑے لیڈروں میں سے کوئی کسی بات پہ ایڈونچر پہ آمادہ ہو تواسے اکیلے ہی اپنے حلقے کی بس پکڑنا ہو گی ۔یہ بھی ممکن ہے کہ گھر پہنچ کے اس کے گھر والے بھی اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیں۔یہ ایک مثبت تبدیلی ہے کہ اس سے پہلے دو تہائی اکثریت لے کے آنے والے اصحاب کو جب پکڑ کے اٹک قلعے میں بند کر دیا جاتا تھا تو خدا جانے وہ دو تہائی اکثریت کہاں تحلیل ہو جاتی تھی اور لوگ لاہور کی سڑکوں پہ بھی مٹھائی بانٹتے نظر آتے تھے۔عمران جس سونامی کا تذکرہ کرتا ہے وہ کم از کم کہیں نظر ضرور آتی ہے۔کارکن اپنے قائد کو ریسپانس ضرور کرتے ہیں۔بعض اوقات ایسا کہ مخالف کی جان لینے پہ تل جاتے ہیں۔گالیاں تو شاید عمران کو بھی پڑیں اگر وہ عمران کی مخالفت میں کہیں ایک لفظ بول دے۔جیسا کہ پہلے ذکر آیا کہ پاکستان کی سیاست میں یہ ایک انتہائی مثبت رحجان ہے کہ لیڈر کو اپنی طاقت کا صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اختیار اپنے جلو میں بد عنوانی لاتا ہے اور کلی اختیار کلی بد عنوانی۔یہ بدعنوانی صرف پیسے ہی کے باب میں نہیں ہوتی بلکہ خیالات سوچ اور طرزِ عمل بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔انسان متوازن نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو خود ہی بقراطوں کی صف میں شامل کر لیتاہے اور پھر اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ صرف مایوسی پھیلاتا ہے اور کچھ نہیں۔ عمران خان کے طالبان کے بلند بانگ و آہنگ بیانات سے قطع نظر ملک کو امریکی غلامی سے آزاد کرانے کے نعرے کو نہ صرف اس کی اپنی پارٹی کے کارکنوں نے خوش آمدید کہا بلکہ ان لوگوں نے بھی جو عمران کے کٹر مخالفین کی پارٹیوں کا حصہ تھے۔ نیٹو سپلائی روکنے اور آٹھ دن تک اسے جاری رکھنے کے عمل نے ان سیاسی لیڈروں کو قوم کے سامنے ننگا کر دیا ہے جن کی سیاست ہی امریکہ مخالف نعروں پہ چلا کرتی تھی۔جو صبح شام اٹھتے بیٹھتے امریکہ کو گالی دے کے اور اس کے خلاف نعرے لگا کے عوام کے دلوں پہ راج کیا کرتے تھے۔عمران نے انہیں راہِ عمل کی دعوت دے کے ان کے اپنے کارکنوں کی نثر میں بھی سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ سیاست کی حد تک تو یہ ایک شاندار لائن تھی لیکن اس کے بعد کیا ہو گا اس کی اب عمران کے چاہنے والوں کو بھی کچھ خبر نہیں۔

کیا یہ دھرنے جاری رہیں گے۔ پشاور میں ایک نیٹو ٹرک روک کے کھڑے ایک کارکن نے ایک ٹی وی رپورٹر سے کہا کہ عمران خان چاہے گا تو یہ دھرنا ایک صدی تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔اس کی بات میں خلوص بھی تھا اور صداقت بھی لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ عملی طور پہ یہ ممکن نہیں۔اسلام آباد میں دھرنا دیئے طاہر القادری کے دیوانے باوجود بارش اور اپنے لیڈر کے ایک کنٹینر کے اندر اپنی فیملی کے ساتھ پسینہ لیتے ذرا بھی کمزور نہیں پڑے لیکن نتیجہ کیا نکلا ۔اس طرح کے اقدامات سے مایوسی پھیلتی ہے اور مایوسی عمل کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہوتی ہے۔ہفتہ کافی ہے آپ نے کارکنوں کی عزم دیکھ لیا۔وہ دن کو سپلائی روکتے ہیں رات کو آپ کی حکومت انہی ٹرکوں کو بحفاظت طور خم پار کرا دیتی ہے۔ کارکن خوار ہو رہے ہیں اور نیٹو والے مطمئن ہیں کہ ان کے پیمپرز انہیں پہنچ رہے ہیں۔ ایسے میں اس دھرنے کے نتیجہ خیز ہونے پہ بہت سارے سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔

خان صاحب ! آپ کے خلوص میں کوئی شک نہیں لیکن پشاور میں یہ دھرنے بہت ہو گئے ۔وہاں شغل تو ہو سکتا ہے لیکن سپلائی نہیں رک سکتی۔یہ سپلائی روکنے کے لئے آپ کو اپنے کراچی کے کارکنوں کو آواز دینا ہو گی اور پنجاب میں بھی۔ پختونخواہ میں آپ کہیں اور ہیں آپ کی حکومت کہیں اور اور کارکن کہیں اور۔ایسا آخر کب تک چلے گا۔خان صاحب ! لیڈر کا اعتبار ہی تو ہوتا ہے۔ایک بار ٹوٹ جائے تو پھر لوگ نمک کی کان کا حصہ بن جاتے ہیں اور نمک ۔۔۔نمک تو پہلے ہی ہمارے ملک میں بہت ہے ۔کھیوڑہ کا نہیں خالص امریکی نمک۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269147 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More