بابری مسجد کی شہادت میں ملوث شر پسند وں کی آزادی کیا ملکی سلامتی کے لئے خطرناک نہیں؟

ہندوستانی تاریخ کا سیاہ باب 6 دسمبر 1992ء کا وہ اندہناک دن آج بھی امن پسند اور باہمی اتحاد و یکجہتی کے پیامبر مذہب اسلام کے ماننے والوں کے ذہن و فکر میں کچوکے لگاتا ہے ،ان کے ضمیر کو جھنجوڑ تا ہے انہیں عظمت رفتہ کی بازیابی کے لئے پر امن طریقہ کار اپنا نے کی دعوت دیتا ہے کہ مسلمان یہ عہد کرلیں کہ اپنے سجدوں سے اپنی مسجدوں کو آباد کریں گے اسے ویران اور برباد ہونے سے بچائیں گے اور حکومتی سطح پر اپنی حیثیت کو چار چاند لگا کر حکومت کے اعلیٰ عہدوں تک پہونچ نے کی سنجیدہ کوشش کریں گے ۔درحقیقت ضمیر کی یہ صدا اس محبان وطن قوم کی سماعتوں کی دہلیز پر دستک دینا چاہ رہی ہے جس کی اکثریت 15اگست 1947؍ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے مسلسل ’’افتاد زمانہ ‘‘کی مار جھیلتے ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کی شکار ہو ئی اوراپنی جان و مال کی تباہی و بربادی کے قصے تاریخ میں رقم کی۔ تعمیر شدہ سیکڑوں بلند و بالا مدارس ، مقابر اور بہت سی مساجد اور اوقاف کو اپنی نگاہوں کے سامنے حکومت ہند کی سر پرستی میں ’’شر پسندوں ‘‘ کے ناپاک ہاتھوں ویران اور برباد ہوتے ہوئے درد ناک منظر کا مشاہدہ کیا ۔ آج بھی ان کے ہاتھوں سے تعمیر ہوئیں سیکڑوں یاد گاریں ان کی بے توجہی اورغیروں کے ظلم و ستم کا مرثیہ خوانی کرتی ہوئیں اپنی ستم رسیدہ حالت زار پر ماتم کناں ہیں اور اس امت مرحومہ، قوم مسلم کی نگاہوں کی منتظر ہیں کہ ’’ شاید کبھی سویرا ہوجائے؟ ۔

ایسی ہی آشفتہ حال اور گردش لیل و نہار کی ستائی ہوئی ایک تاریخی مسجد ’’ بابری مسجد ‘‘ بھی تھی جسے ہندوستان کے فرمان رواں شہنشاہ بابر کے ہاتھوں 935ھ میں تعمیر کیا گیالیکن 500سو سالہ ہندو مسلم باہمی اتحاد و یکجہتی کی اس نشانی کو سیاسی پنڈتوں اور ہندوتوں کی’’ نظر بد‘‘لگ گئی اور 1949ء میں فتنہ فساد کے حامی ’’ہندوتوؤں کے علمبردار ‘‘ لوگوں کے ذریعے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر اس میں مورتیاں رکھ دی گئیں اور شر پسند عناصر کی جانب سے ایک انگریز تاریخ دان کی فرضی تاریخ کی روشنی میں ’’بابری مسجد ‘‘ کی جگہ رام جنم بھومی کا غلط پروپیگنڈہ کیا گیا اور مسلسل شر انگیزی کر کے بالاآخر 6؍دسمبر 1992 میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں وی ایچ پی اور بجرنگ دل وغیرہ کے ہزاروں سادھو سنتوں کے ناپاک ہاتھوں سے بابری مسجد شہید کر دی گئی۔

ابھی آر ایس ایس جیسی فر قہ پرست تنظیموں کے ذریعہ باہمی اتحاد و یگانگت کی نشانی بابری مسجد کی شہادت کا ہولناک منظر رو نما ہوا ہی تھا کہ گنگا جمنی تہذیب کے مالک ملک ہندوستان میں نفرت اور زہر کا وہ بیج بویا گیاکہ اس کے ’’زہر آلود ثمرات‘‘ سے انسانیت سسک کر رہ گئی ۔ ملک کی امن و سلامتی اور باہمی اتحادویکجہتی کو نقصان پہونچایا گیا۔ ہندوستان جیسے جمہوری ملک کو بین الاقومی سطح پر ذلیل و خوار کیا گیا۔کشت و خون کا بازار گرم ہوگیا ۔امن و شانتی کے بجائے ہندو مسلم کے مابین فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی ۔ہر جگہ افرا تفری کا ماحول قائم کیاگیا اور ملک میں امن و سلامتی کے قیام اور مسلمانوں کے مسلمہ عقائد ’’جس جگہ مسجد بن جاتی ہے وہ زمین صبح قیامت تک کے لئے مسجد ہوتی ہے ‘‘ کے پس منظر میں اس وقت ملک کے وزیر اعظم نر سمہا راؤ نے قوم سے اپنے وعدے میں کہا تھا کہ بابری مسجد کو اسی جگہ پر دوبارا تعمیر کرینگے اور مسجد شہید کر نے والے مجرمین کو کیفر کردار تک پہونچا ئیں گے۔لیکن جمہوریت اور سیکولر کا دم بھر نے والوں نے ہی ہندستانی جمہوریت کا گلاگھونٹ دیا کہ مسجد کی شہادت میں ملوث شر پسند عناصر نہ صرف ملک میں باعزت گھوم پھر رہے ہیں بلکہ اس سے فر قہ پر ست عناصر کے حوصلے مزید بڑھ گئے آر ایس ایس جیسی تنظیم کے شدت پسند اراکین پر قدغن لگانے اور مسجد کو حسب سابق اسی کی جگہ پر بنانے میں مر کزی حکومت ایوان میں بل پاس کرنے کے بجائے اب تک فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے لیکن ایں سلسلہ تا بہ کے ؟ اور بقول شخصے ’’خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے ۔

ارباب حکومت سمیت ہماری ہندوستانی عدلیہ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ ملک و ملت کا شیرازہ منتشر کرنے ، ملک میں فتنہ و فساد برپا کرنے اور امن و قانون کی صورت حال خراب کرنے اور لوگوں کو فرقوں اور گروہوں میں بانٹنے کے لئے فرقہ پرست طاقتوں نے رام جنم بھو می کی فرضی کہانی گڑھی اور باہمی اتحادو یکجہتی کی علامت ’’ بابری مسجد ‘‘ دن دہاڑے شہید کی جو ہندوستان کی پیشانی پر ایک ’’بدنما داغ ‘‘ہندوستانی عزت وقار کوداغ دار کررہا ہے ورنہ تو کوئی ہمیں بتائے کہ جب بابری مسجد کی شہادت کے 10دن بعدحکومت کی جانب سے جسٹس لبراہن کمیشن کو تین ماہ میں تحقیق حال (انکوائری ) کر کے رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیاتو آخر کیوں اس کمیشن نے 48مرتبہ اس میں توسیع کروائی؟ اور 17؍سال بعد جسٹس لبراہن نے 30؍جون 2009ء کو اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی؟ اور نومبر 2009میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی ؟جس پر بحث و مباحثہ کے بعد ’’ڈھاگ کے تین پات ‘‘ کے مصداق وہی ہوا جو فرقہ پرست طاقتیں چاہ رہی تھیں۔سوال یہ ہے کہ قریب ایکیس سال کا ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجودآج تک گھڑیال کی طرح ’’آٹھ آٹھ آنسو‘‘ بہانے اور ظاہراًمسلمانوں کے نام کی دہائی دینے کے سوا کسی بھی حکومت نے اس داغ کو دھونے کے لئے اس کی تعمیر نو کی صورت میں سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی؟ اور کیوں سی بی آئی نے الہ آ باد ہائی کورٹ میں 1993ء میں تکنیکی خامیوں سے پر ایسی رپورٹ پیش کی جس سے بابری مسجد کی شہادت میں اہم رول ادا کرنے والے بی جی پی کے سینیر لیڈر ایل کے ایڈوانی ،کلیان سنگھ سمیت 49افراد کے خلاف کارراوائی نہیں ہوئی ؟کیا حکومت ہند بابری مسجد کی شہادت میں ملوث فرقہ پرست، خطاکاروں کے خلاف کارراوائی اس لئے نہیں کررہی ہے تاکہ اس سے ملک میں موجود شر پسندوں کے حوصلے دن بد ن مزید بڑھتے جا ئیں ؟اور بابری مسجد کی طرح کاشی، متھرا اور گیان واپی جیسی مسجدیں بھی انسانیت دشمن عناصر کی نظر بد کی شکار ہوجائیں ؟ تا کہ وطن عزیز ہندوستان جیسے ملک کے امن و امان میں خلل اور خطرہ برقرار رہے ؟ ۔

یہ ہیں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ذہن و فکر میں کچو کے لگاتے سوال جو ہر سال 6؍ دسمبر کو انہیں حکومت کی مسلمانوں کے تئیں ’’افسوس کن ‘‘کردار و عمل پر مہمیز کرتے ہیں اور حکومت کی دوھری پالیسی سے ’’ احساس کمتری‘‘ کا شکار ہوتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیکولرزم کی زبانی طور سے دعوے دار ،مرکز میں بر سراقتدار حکومت ہند ہمارے ہندوستانی سماج کے تارو پود بکھیر نے والی شدت پسند آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد وغیر ہ فر قہ پر ست پارٹی پر پابندی عائد کرتی( کیوں کہ ان تنظیموں نے نہ صرف رام جنم بہومی کا بہانہ بنا کر اقلیتوں کے تیےں ٔ گندی سیاست سے دلچسپی برقرار رکھی ہے بلکہ جگہ جگہ انسانیت کا خون خرابہ کر نے میں بھی بڑی مہارت کی حامل ہے اور اب تو اس تنظیم سے وابستہ لوگ فرضی تنظیم ’’ انڈین مجاہدین ‘‘ کا نام اختیار کر کے مسلمانوں پر ان کی زمین کو تنگ کرنے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں)۔ بابری مسجد شہید کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے ان کی سرگرمیوں پر روک لگائی جاتی ۔ ان کے خلاف کارراوائی کر کے ان کے برے کرتوت کی انہیں سزا دی جاتی اور پارلیمنٹ میں بابری مسجد ایکٹ پاس کر کے اس کی سابقہ جگہ پر تعمیر یقینی بنائی جاتی لیکن مر کز میں مسلسل 10سال تک بر سر اقتدار کانگریس حکومت نے بھی یہ سب کیوں نہیں کیا ؟ اور معاملہ 2002ء میں ہائی کورٹ الہ آباد میں کیوں ڈال دیا گیا ڈالدیا گیاجہاں پر طویل بحث و مباحثہ اور ماہرین آثار قدیمہ کی روشنی میں 28ستمبر 2010ء میں فیصلہ کیا گیا اور زندگی کے ہر شعبے کی طرح ان کے ساتھ عدلیہ نے بھی ناروا سلوک کر تے ہوئے آستھا اور عقیدت کے نام پر مسجد کی جگہ غیروں کے سپر د کردی یہ ایسا فیصلہ تھا جسے سن کر ایک طرف عقلا کی جماعت حیرت زدہ تھیتو دوسری طرف ’’قوم مسلم ‘‘ ملک کی سب سے بڑی عدلیہ ’’سپریم کورٹ‘‘ کے درست فیصلے کی منتظر ہوگئی ؟ ’’شاید دیر آید درست آید ‘‘ کے لحاظ سے مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو ۔

لیکن سوال یہ ہے ملک کی عدلیہ میں اسی طرح معاملوں کو طول دینے کا سلسلہ جاری رہا تو شر پسندوں کی زجر و توبیخ کیاممکن ہو پائے گی ؟ فرقہ پرست طاقتوں کواسی طرح کی چھوٹ ملتی رہی تو ہمارے پیارے ملک میں فرقہ پرست طاقتیں فتنہ و فساد برپا کرنے سے گریز کریں گی؟ اور ملک میں امن و شانتی کی صورت حال تباہی و بربادی سے محفوظ رہے گی؟ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی ’’ فتنہ سامانیوں ‘‘ سے ملک کی سا لمیت کو لاحق خطرات سے نجات مل سکے گی ؟ اور اقلیتوں کے ساتھ ہورہے ظلم و زیادتی کا خاتمہ کیا ممکن ہو سکے گا ؟ ان کے جان و مال کا تحفظ کیسے ہوگا ؟ کیا ہر کوئی اس طرح ظلم و تعدی کا شکار قوم مسلم کو بنانے کی ناپاک سعی نہیں کرے گا ؟۔

اس لئے اخیر میں راقم ا لحروف محمد عارف حسین مصباحی ،مولانا قاسم علوی سرپرست تنظیم ابنائے اشرفیہ و ناظم اعلیٰ رضائے مصطفیٰ مٹیا برج اورجامعہ اشرفیہ مبا رکپور کے رکن مجلس شوریٰی الحاج شاکرعلی عزیزی و تمام اراکین و محبین کی جانب سے بابری مسجد کی شہادت کی ایکیسویں برسی کے مو قع پر ہم حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ’’تلافی مافات ‘‘ کے لئے ملک کی سب سے بڑی اقلیت ’’ قوم مسلم ‘‘ کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ دلچسپی لے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو مسلم مسائل پر جھوٹی ہمدردی پیش کرنے کا دعوی کرنا چھوڑ دے کیوں کہ مسلم امہ اگر کسی سیاسی پارٹی کو بر سر اقتدار لاتی ہے تو اس امید پر کہ وہ ان کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی پیدا کرے گی ورنہ ایسی پارٹی اور ایسے لیڈران سے مسلم قوم کو کیا فائد ہ ؟ ۔لہذ ملک ہندوستان کی پیشانی سے بابری مسجد کی شہادت کا ’’بد نما داغ‘‘ دھونے اور اقلیتوں کو فائدہ پہونچاتے ہوئے بابری مسجد کی شہادت میں ملوث آر ایس ایس اور اس کی تمام فر قہ پرست ذیلی تنظیموں پر حکومت ہندپابندی عائد کرے ، پارلیمنٹ میں’’ بابری مسجد ایکٹ ‘‘پاس کر کے بابری مسجد کو اس کی سابقہ جگہ پر تعمیر یقینی بنائے اور جلد از جلد پارلیمنٹ میں فرقہ وارانہ تشدد بل پاس کر کے تمام خاطئین اور مجرمین کو سخت سے سخت سزائیں دی جائے تا کہ ملک میں امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ ہو ۔

MD arif Hussain
About the Author: MD arif Hussain Read More Articles by MD arif Hussain: 32 Articles with 58317 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.