تحریر ؛ وسیم اشرف لون
ایک مسلسل اور عظیم جدوجہد کے نتیجے میں ہمیں اﷲ تعالی نے ( جنت نظیر )
مملکت خداداد پاکستان عطا کیا جو عالم اسلام کیلئے کسی نعمت سے کم نہ تھا
جس پر ہم اﷲ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں تو کم ہوگا ۔جب تحریک آزادی کے
پروانوں نے نیک جذبات اور پر خلوص جدوجہد کا آغاز کیا اور اا نکا نعرہ صرف
ایک رہا وہ یہ کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا ‘‘ ’’لا الہ الا اﷲ ‘‘ اور اسی کو
اپنا نصب العین بناتے ہوئے ان لوگوں نے قربانیوں میں سب سے اول رہنے کی
عادت بنا لی اس نصب العین کو حاصل کرنے کیلئے انکو ہر قسم کی قربانیاں دینی
پڑیں وہ قربانی کبھی اہل و عیال کی صورت میں سامنے آئی ،تو کبھی مال و دولت
کی صورت میں رونما ہوئی یا کبھی اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دینی پڑیں پھر
بھی ان لوگوں نے دوسروں کی آنے والی نسلوں کیلئے اپنی نسلیں قربان کردیں
انہوں نے کسی بھی موقع پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا تبھی اﷲ تعالی
کے فضل و کرم سے تمام مشکلات اور مسائل ایک بوسیدہ دیوار کی طرح مسمار ہوتے
گئے ۔انہی قربانیوں کی وجہ سے انکے راہوں کے کانٹے پھولوں کی پتیوں میں
تبدیل ہوگئیں یو ں تحریک آزادی اپنی منزل کی قریب سے قریب تر ہوتی گئی ،قائد
اعظم اور انکے وفادار رفقاء کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانان ہند نے اپنا
مقصد اور اپنا نصب العین حاصل کیا ،یوں 14 اگست 1947 ء کو مملکت خدادا
پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی مملکت کی حیثیت سے ابھرا جب
پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو اکثر لوگ اس کو قدرت کا ایک کرشمہ کہہ رہے
تھے اگر دیکھا جائے تو واقعی یہ ایک کرشمہ ہی تھا کہ ایک اسلامی ریاست کا
وجو دجو کہ بظاہر ناممکن دکھائی دے رہا تھا ستائیس رمضان المبارک کو وجود
میں آیا ،اور وہ بھی جمعتہ الوداع کے دن اسکے علاوہ اگر دیکھا جائے تو اس
دن کو تاریخ اسلام میں ایک نمایا ں حیثیت حاصل ہے ۔مسلمانان ہند نے قائد
اعظم کی قیادت میں ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔مگر افسوس صد افسوس آج میرے
ملک میں وہ کچھ بھی نظر نہیں آرہا جسکے نام پر یہ ملک وجود میں آیا تھا جس
کے لئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نظرانے دئیے تھے ،جس کے حصول
کیلئے لاکھوں بچوں کو یتیم ہونا پڑا ،جس کو قائم کرنے کیلئے لاکھوں عورتیں
بیوہ ہو گئیں ،جس کی آزادی کیلئے سینکڑوں بہنیں اپنے بھائیوں سے الگ ہو
گئیں اور جسکے لئے لاکھوں ماؤں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی قربانی دی اور
لاکھوں عورتوں نے اپنی عصمتوں کو قربان کر دیں ۔
آج اس ملک کی اقتدار ہی ایک وراثت بن گئی ہے جب باپ اقتدار سے ہٹتا ہے تو
اسکا بیٹا اسکی جگہ اقتدار میں آجاتا ہے اگر بیٹا نہ ہو تو بیٹی ہی اقتدار
میں آجاتی ہے مگر آتی ضرور ہے یہاں پر ایک بات واضح کرتا چلوں کہ پاکستان
کے آئین کے مطابق کوئی عورت صدر یا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہیں ہو سکتی
یا کوئی غیر مسلم ان عہدوں پر فائز نہیں ہو سکتا اب آپ خود ہی اس بات کو
سمجھ چکے ہونگے کہ اس ملک کے آئین اور خود اس ملک کے ساتھ کتنی بڑی نا
انصافی ہو رہی ہے موقع کی مناسبت سے مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے جو میں
قارئین کی نظر کرتا چلوں ایک دفعہ جنگل میں شیر کی صدارت کی مدت پوری ہونے
پر نئے صدر کے انتخاب کیلئے تمام جانوروں نے ایک اجلاس منعقد کیا جس میں
شیر،لومڑی ،بندر اور گدھا قابل ذکر ہیں جب اجلاس شروع ہوا تو سب نئے صدر
کیلئے اپنی اپنی رائے دے رہے تھے تو اچانک گدھا کھڑا ہو ا اور کہنے لگا کہ
جناب والا اس بار صدارت کا عہدہ مجھے دیا جائے کیونکہ ہر بار ہمیں نظرانداز
کیا جاتا ہے اور اگر کام کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سب سے ذیادہ کام بھی تو
ہم ہی کرتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ ہمیں صدارت نہ ملنے پرتمام گدھا برادری
میں مایوسی پھیل گئی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس بار مجھے صدارت کیلئے منتخب
کیا جائے تا کہ انکی مایوسی کو ختم کر سکوں جب گدھا اپنی تقریر ختم کر کے
بیٹھا تو لومڑی اٹھی اور کہنے لگی گدھا بھائی یہ جنگل ہے کوئی پاکستان نہیں
جو ہر ایرا غیرہ آکر یہاں ہم عوام پر مسلط ہو جائے تو دوستو جنگلی جانوروں
میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنا لیڈر کا
اتخاب کرتے ہیں ۔مگر پاکستانی قوم میں یہ خوبی پیدہ کب ہوگی ایک وزیر اعظم
کو تین تین بار منتخب کرتے ہیں کاش کب یہ شعور پاکستانی قوم میں پیدا ہو
جائے کہ وہ اپنی لیڈر شپ کا انتخاب وقت کے تقاضوں کے مطابق کرتے ہیں مگر
مسلمانوں کا آج یہ حال ہے کہ تین تینبار جس کو آزمایا گیا ہو پھر بھی
انتخاب اسی لیڈر کا کرتے ہیں جو پچھلے دور اقتدار میں ان کے لئے نشان عبرت
بن گیا ہو ہمیں چاہیے کہاپنے لیڈر کا انتخاب اسلامی اصولوں کے مطابق کریں
تا کہ ان کی آنے والی نسل حقیقی مسلمان ہونے کا کردار ادا کریں آج ہم دیکھ
رہے ہیں کہ پاکستان جو دنیا میں ساتواں اور اسلامی ممالک میں پہلا ایٹمی
ملک ہونے کے باوجود اپنا دفاع نہیں کر سکتا اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے
بننے کے بعد قائد اعظم کے بعد کوئی بھی لیڈر مخلص اور دیانتدار اقتدار میں
نہیں آیا کسی نے اقتدار میں آکر اپنے ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا تو کسی
نے اقتدار میں آتے ہی مسجدوں کو گرانے اور مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء کو
دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے یا امریکہ سے چند ڈالرز کے عوض مسجدوں اور
مدرسوں پر ڈرون گرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں دہشت گرد نے پناہ
لیا ہوا تھا ،کوئی اقتدار میں آتا ہے تو ملک میں مارشل لاء لگا کر جمہوریت
کو تارتار کر دیتے ہیں تو کوئی اقتدار میں آتے ہی غریب عوام پر مہنگائی کا
ڈرون گراتا ہے اور کہتا ہے کہ عوام قربانی دے کیونکہ ان کا ملک آج قرضوں
میں ڈوبا ہوا ہے جو عوام کی قربانی سے اتارا جائے گا مگر یہ حکمران جو عوام
سے قربانی مانگتے ہیں انکے اپنے ہاتھ میں گھڑی پچاس کروڑ کی ہوتی ہے قربانی
صرف عوام کو ہی دینا ہے حکمران تو صرف قرضے لینے میں مصروف ہوتے ہیں تو
کوئی اقتدار میں آتے ہیں چند ڈالرز کے عوض قوم کی عظیم بیٹی عافیہ کو دودھ
پیتے بچے سے جدا کر کے امریکہ کے حوالے کردیتا ہے اور اس پر الزام یہ لگایا
جاتا ہے کہ وہ دہشت گرد تھی مگر اس بے گناہ قوم کی بیٹی جس پر جو بندوق
اٹھا کے فائرنگ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے وہ تو اس بندوق کو اٹھا ہی
نہیں سکتی تو فائرنگ کیسے کریگی؟ تو کوئی اقتدار میں آتے ہی ملک کے آئین کی
دھجیاں اڑا دیتا ہے اور اپنا الگ آئین بنا کر اور اپنی مرضی کا آئین بنا کر
اس پہ عمل کرتا ہے ایسے ہی نا اہل حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان آزادی کے
پچیس سال بعد دو لخت ہو گیا اور نوے ہزار پاکستانی فوجیوں نے بھارت کے آگے
ہتھیار ڈال دیئے آج ہم دیکھتے ہیں کہ فحاشی و عریانی کے ذریعے مسلمان
نوجوانوں کے راستے سے ہٹایا جا رہا اور مستقبل میں اپنا آلہ کار بنانے
کیلئے انکی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں شرم و حیا نام کی کوئی چیز
نہیں ہوتی یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ماں بہن کو ہاف لباس میں دیکھ کر فخر
کرتے ہیں اور انکی مزید حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انکو یہ معلوم نہیں ہوتا
کہ انکی بیٹی یا بیٹا دن بھر کیا کچھ کرتا رہتا ہے انکو کبھی اس بات کی
پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کی اولاد کا دن بھر کا شیڈول کیا ہوتا ہے وہ کہاں
جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اسی طرح
طرح انہی حکمران کی نا اہلی کی وجہ سے ملک کے ہر محکمے میں معمولی چپڑاسی
سے لے کر افسر تک سارے کرپٹ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جو چھوٹے سے چھوٹے کام کی
رشوت لینے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں اس ملک کی ایک بہت بڑی بد نصیبی یہ
بھی رہی ہے کہ شروع سے لے کر آج تک اس ملک میں اقتدار کے بھوکوں کی فہرست
میں فوج بھی شامل رہی ہے پاکستا ن کے چیف آف آرمی بھی سیاست میں پیش پیش
رہے جسکی وجہ سے وطن عزیز میں تین مار شل لا ء نافذ ہوئے جو کہ اپنے ہی
آئین کی خلاف ورزی ہے جن کا کام ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے وہ بھی اقتدار کے
بھوکے ہونگے تو آپ خود سوچیے کہ یہ ملک پھر بھی باقی ہے اور دیکھا جائے تو
ہم سب کہتے ہیں اور ملک عزیز کے آئین کے مطابق یہ ایک اسلامی مملکت ہونے کی
وجہ سے یہاں قرآن و سنت کے احکام کو دستور بنایا گیا ہے مگر آپ خود سوچیں
کہ آزادی سے لے کر آج تک یہاں ایسا کونسا کام ہے جو قرآن و سنت کے احکامات
کی روشنی میں ہو ئے ہیں ۔قرآن و سنت کی بات کرنے والے جب ڈالرز سامنے آتے
ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ وہ خود کون ہیں اگر ان کا بس چلے تو ملک کو ہی بیچ
ڈالیں۔ یقین جانیے صور ت حال اگر یہی رہی تو آنے وقت میں سیکولر اور لبرل
لابی مسلمانوں کو اپنے رنگ میں رنگنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے پھر سے
مسلمان غلامی کے د لدل میں پھنس جائیں گے اس وقت حق بات کرنے والوں کو
زندان میں ڈالا جائے گا اور اسلامی اصولوں کی بات کرنے والوں کو طرح طرح کی
عزیتیں دیں گے مسلمانوں کی مسجدوں کو گرایا جائے گا اور انکی عزت پامال کی
جائے گی اس وقت ہمارے پاس صرف دیکھنے کے سوا اور کوئی چارا نہیں ہوگا
مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا اور مسلمانوں کی ماں ،بہن اور
بیٹیوں کی عزتیں تارتار کیا جائے گا مگر ہم چپ سادھ لیں گے اس کے علاوہ
ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوگا ۔ |