نظام بدلنے کی روایت

ضلعی حکومتوں کے نئے نظام پر گفتگو ہورہی تھی۔ لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ تنویر نقوی جو اس نظام کے خالق تھے۔ سوالات کے جواب دے رہے تھے کہ ایک سوال ہوا یہ نظام کب تک قائم رہے گا۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ اب یہ نظام مستقل رہے گا۔ کیوں کہ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بہت بڑی دعوت ہو۔ اور اس کا تمام گند صاف کیا جائے۔ اور پھر سیاست دانوں کو اس بات کا موقع دیا جائے کہ وہ آکر پھر سے وہی کچھ کریں۔۸ برس بعد پھر وہی ہورہا ہے۔

حکومت نے بلدیاتی اداروں کے حوالے سے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے موجودہ نظام کو صوبوں کے ماتحت لایا جائے گا۔ اختیارات کی کشمکش اور موجودہ نظام کو لپٹنے سے قبل ہی ان معاملات میں تیزی آگئی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال اور پانچ ٹاؤن ناظمین نے سٹی ناظم کے اختیارات پر قدغن سے متعلق صوبائی حکومت کے دو خطوط کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا۔ صوبائی محکمہ بلدیات، بورڈ آف ریوینیو اور چیف منسٹر کے پرنسپل سیکرٹری کی طرف جاری کئے گئے خطوط میں کہا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے ضلعی ناظمین پر سرکاری املاک فروخت کرنے، ٹرانسفر یا نیلام کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل140 اے کے تحت صوبائی حکومتیں ضلعی حکومتیں قائم کرنے اور ان کو اختیارات کی منتقلی کی پابند ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات پر مبنی یہ دو خطوط قانونی تقاضوں کو پورے کئے بغیر اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جاری کئے گئے ہیں اس لئے انہیں منسوخ کیا جائے۔

چند دن قبل اسلام آباد میں چاروں صوبوں کے وزراء اور اعلیٰ حکام کا جو اجلاس ہوا تھا اس میں بتایا گیا تھاکہ موجودہ بلدیاتی نظام کو صوبوں کے ماتحت کیا جائے گا۔ اس بارے بلدیاتی اداروں کے قانون میں ترامیم کی سمری جلد ہی صدر آصف زرداری کو بھجوا دی جائے گی۔ اس سے قبل ناظمین نے صدر کو ایک خط لکھا تھا جس میں بلدیاتی اداروں کو تحلیل نہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ جبکہ سپریم کورٹ میں بھی اس بارے میں ایک درخواست جمع کرائی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگست میں بلدیاتی اداروں میں ناظمین کی جگہ ایڈمنسٹریٹرز تعینات کردئیے جائیں گے۔ حکومت کی دلیل ہے کہ امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے فی الحال بلدیاتی انتخابات کروانا ممکن نہیں ۔ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکمراں جماعتوں کی مقبولیت کا گراف منفی میں جاچکا ہے اوران کے بقول حکمرانوں کو خدشہ ہے کہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات ان کی مقبولیت کا پول کھول دیں گے۔ بعض اسے افسر شاہی یعنی بیورو کریسی کی سازش کہتے ہیں جن کو بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات ہضم نہیں ہورہے ہیں۔

سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی و بلدیاتی سالہ تاریخ میں اب تک سات بلدیاتی الیکشن فوجی حکمرانوں کے دور میں ہوئے سیاسی حکومتوں نے اس حوالے سے ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہیں۔ تمام ایسے آمر حکمرانوں نے سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لگایا اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے بلدیاتی نظام کا سہارا لیا۔ ایوب خان نے اس مقصد کیلئے بنیادی جمہوری کے تحت بی ڈی الیکشن کرائے۔ ضیاءالحق نے اقتدار میں عوام کی حقیقی شرکت کےلئے مجلس شوریٰ اور مئیر سسٹم ایجاد کیا اور پرویز مشرف نے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے ضلعی حکومتوں کی داغ بیل ڈالی۔ پھر ان آمر کے انجام کے ساتھ ہی ان کے بنائے ہوئے نظام بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے۔ آمروں نے اپنے لئے تالیاں بجوانے، نعرے لگوانے اور اپنے جلسوں میں زیادہ سے زیادہ لوگ اکٹھا کرنے کے لئے ان اداروں کا سہارا لئے رکھا۔ ایسے ایک جلسے میں اسلام آباد میں پرویز مشرف نے عوام کو مکے دکھا کر عوام کی قوت کا اظہار کیا تھا۔ اب نہ وہ مکے ہیں اور نہ ہی وہ عوام کی طاقت۔ کراچی میں مئیر عبدالستار افغانی نے جب عوامی حقوق مانگے، تو ان کی بساط لپیٹ دی گئی۔ فاروق ستار عرصے تک عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔ نعمت اللہ خان کو شاندار خدمات کے باوجود دوسری مدت نہیں دی گئی۔ اور اب مصطفیٰ کمال ہیں آگے جانے کیا ہو۔ کراچی پر پہلے عوامی دور میں بھی ایڈمنسٹریٹرز بیٹھے رہے۔ اب بھی اسی کی تیاریاں ہیں۔ موجودہ ضلعی نظام میں ممکن ہے کچھ خامیاں ہوں مگر درحقیقت یہ خامیاں عوام کیلئے سود مند، حکمران طبقہ اور منتخب نمائندوں کیلئے نقصان دہ ہیں۔ کراچی، حیدرآباد میں جو ترقیاتی کام اس نظام کے تحت ہوئے وہ ایک مثال ہیں۔ اس وقت بھی یہی مسئلہ درپیش ہے کہ صوبائی حکومت کس طرح اپنے صوبے کے ضلع میں ایک نئی حکومت کا وجود تسلیم کرے، منتخب ارکان کیوں اتنی بھاری مالیت کے ترقیاتی منصوبوں سے دور رہیں۔ یہ بات طے ہے کہ کوئی نظام اپنی حیثیت میں برا نہیں ہوتا۔ اصل خرابی نظام چلانے والوں میں ہوتی ہے نظام چلانے والے دیانت دار مخلص نیک نیت ہوں تو بدترین استحصالی نظام میں رہتے ہوئے بھی ملک و قوم کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ انصاف اور جمہوریت کا تقاضا ہے موجودہ نظام کو برقرار رکھا جائے۔ صرف حکمرانوں کی خواہش اور ارکان اسمبلی کے مطالبہ پر اس نظام کا خاتمہ قوم سے سنگین نوعیت کا مذاق ہو گا، نظام بدلنے کی یہ روایت جاری رہی تو ہم صرف تجربات کرتے رہ جائیں
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419818 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More