کس کو دھوکہ دے رہے ہیں پاکستان
کی آزاد عدلیہ کے علمبردار۔ پاکستان کی عدلیہ بھی ویسی ہی ٹیڑھی اور لچھے
دار ہے جس طرح ہمارے ملک کی فیوڈل زدہ جمہوریت جس میں عام آدمی کا کام صرف
ووٹ دینا، جلسوں میں جھنڈے پکڑ کر چلچلاتی دھوپ میں ڈنڈے انڈے کھانا اور
شام کو تھکے ہارے اپنے اپنے گھروں کو روانا ہوجانا جس کے عوض دن بھر کی
دھاڑی کبھی نقدی اور کبھی راشن کی صورت میں مہیا کردی جاتے ہے اور ظاہر ہے
ٹرانسپورٹیشن، لاجنگ، بورڈنگ اور فیڈنگ مفتے کی ہوتی ہے
پاکستان دنیا کی وہ واحد ریاست ہے جہاں کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم
کورٹ آف پاکستان کی عمارت پر حملہ کیا گیا ایک برسر اقتدار سیاسی جماعت کے
سینکڑوں کارکنوں اور رہنماؤں نے۔ بے چارے ججز اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ
کھڑے ہوئے اور فوج سے درخواست کی گئی معاملہ کے حل کے لیے جسے فوج نے مسترد
کر دیا۔
اس تمام تر ڈرامے کے پیچھے نام نہاد جمہوریت کے اعلیٰ ترین رتبے کے حامل
کوئی اور نہیں مملکت پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف ملوث تھے جن کو
کبھی اس جرم کی سزا نہیں مل سکی۔ پھر وہ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے ایک
ایسے طیارے کو ہائی جیکنگ کروانے کے واقعے میں ملوث پائے گئے جس میں ملک کی
افواج کے اعلیٰ ترین عہدے دار یعنی چیف آف آرمی سفر سینکڑوں افراد کے ساتھ
سفر کرہے تھے۔ اور جس واقعے کے بعد ان پر نا صرف سیاست کے راستے اور دروازے
بند ہوگئے بلکہ ایک تحریری معاہدے کے تحت جسے معافی نامہ بھی کہا جاتا ہے
وہ جیل اور قید کی صعوبتوں سے بچ نکلنے اور سب سے بڑھ کر اپنی قیمتی جان
بچا کر اور ملک چھوڑ کر نکلنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہوئے تشریف لے گئے،
وہی نواز شریف صاحب جو آج عدلیہ کے رکھوالے اور عدلیہ بحالی کے چیمپئین
سمجھے جا رہے ہیں۔
ایک دلچسپ پہلو اس عدلیہ بحالی کا یہ ہے کہ ١٤ (چودہ) ججز جو سابقہ صدر
مملکت پاکستان کے ہاتھوں پریشانی کا شکار ہوئے ہر حال میں سابقہ صدر مملکت
کو سزا دلانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا نظام ایک واقعتاً بو دیتا اور بوسیدہ نظام ہے جسے صحیح کرنے کی
ضرورت ہے۔ اور دعوے کرنے والوں کا یہ دعویٰ کہ انصاف دیتی عدالتیں اگر آزاد
ہوں تو ملک کا نظام بدل سکتا ہے مگر انصاف کے نام پر سارے کرپٹ کو چھوڑ کر
ایک شخص کے پیچھے پڑجانا اور اس کو کسی بھی صورت سزا دلانے میں تگو دو کرنا
کیا سسٹم کو صحیح کرنے کے دعوے داروں کا اصل مقصد نہیں ہے پاکستان کی
جمہوریت کے پہلوان اور عدلیہ بحالی کے پہلوان کہاں ہیں کیاں سب کو حصہ پہنچ
چکا ہے اپنے اپنے کام انجام دینے کا۔
ایک خاتون نیوز اینکرویمن بڑے معصومانہ انداز سے سابقہ صدر ( جنہیں ان کے
صدارت کے زمانے میں بڑے ہنس کر اور اپنا سمجھھ کر باتیں کرتیں تھیں اب
پینترہ بدلتے ہوئے ) کے عمل کے بارے میں دریافت کرتی پائیں گئیں کہ کیا
دنیا میں کہیں ٦٠ (ساٹھھ) ججز برطرف کیے گئے چلیں جی مانتے ہیں ان کی اس
بات کو کہ کہیں دنیا میں ٦٠ ججز اسطرح برطرف نہیں کیے گئے مگر ان سے اور
دوسرے روشن دل و دماغ کے حامل لوگوں سے بھی کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات
اگر مل جائیں تو سینے میں مانو ٹھنڈ سی پڑجائے اور تسلی ہوجائے
١۔ کیا دنیا میں کوئی اور ملک ایسا ہے جہاں وکیلوں کو فیسیں دینے کی کیا
ضرورت ہے جب آپ ججز کو خرید سکتے ہیں۔
٢۔ کیا دنیا میں کوئی اور ملک ایسا ہے جہاں کے چیف جسٹس کے خلاف سنگین
الزامات اس ملک کے سربراہ مملکت کی طرف سے لگائے جائیں اور کیس کو بھیجا
جائے ایک ایسی باڈی کی طرف جس کا آئینی کام ایسے کیس کو سننا اور اس پر
میرٹ پر فیصلہ کرنا ہو مگر اس چیف جسٹس کے ساتھی ججز فیصلہ کرلیں کہ اپنے
چیف جسٹس کے لگائے گئے الزامات کو سننا ہی نہیں تاکہ اپنے چیف جسٹس کو
بچایا جاسکے۔
٣۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا ہے جہاں کے ججز اپنی تشریحات پر یقین کریں
کیونکہ وہ سربراہ مملکت سے بدلہ لینا چاہتے ہوں ایک بنچ بنا کر بیٹھ جائیں
اور اسی صدر کو نوٹس بھیجیں جانتے ہوئے بھی کہ ایسا کرنا انصاف کے تقاضوں
کو پورا نہیں کرتا۔
٤۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا ہے جہاں ایک جج اپنے حلیف ججز کو ملا کر ایک
بنچ بنام سعیدالزماں صدیقی بنچ ترتیب دے جو اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان
یعنی “ سجاد علی شاہ “ کو برطرف کرنے کے احکامات صادر فرما دے ایک ایسے چیف
جسٹس آف پاکستان کے خلاف جس کے خلاف کوئی ریفرنس بھی نہیں داخل ہوا تھا،
بھلا کیوں اسلیے کہ اس وقت کے وزیراعظم ایسا چاہتے تھے۔
٥۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا ہے جہاں کی سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملہ کیا
جائے اور جہاں کے ججز فوج سے مدد طلب کریں جس کا فوج کی طرف سے انکار کر
دیا جائے۔ جس نے ایسا کیا وہ تو بن گیا ایک قومی ہیرو اور جمہوری چیمپئین۔
٦۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا ہے جہاں وہی ایک لیڈر مشعل راہ بن جائے اپنے
منظور نظر چیف جسٹس اور دوسرے ججز کے خلاف حکومتی اقدامات کے مقابلے میں
جبکہ انکے منظور نظر چیف جسٹس صاحب کے خلاف ایک آئینی ریفرنس بھی سربراہ
مملکت کی طرف سے داخل دفتر تھا مگر جسے میرٹ پر نہیں دیکھا گیا۔
٧۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں بند ہوئے کیسز اسلیے کھولے اور
بہت سے کیسز ڈھونڈے جائیں یا بنائیں جائیں جن کے زریعے کسی فرد واحد کے گرد
گھیرا تنگ کیا جائے اور گزشتہ فیصلوں کو بالکل تبدیل کر دیا جائے۔ کیا
نظیریں اسطرح بدل سکتیں ہیں اور کیا یہ اخلاق کے بھی دائرہ کار میں آتا ہے۔
٨۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں کی عدلیہ مشہور زمانہ ملزمان
مولانا عزیز اور صوفی محمد نامی دہشت پھیلانے والے افراد اور ملزمان کو صرف
اسلیے چھوڑ دے کہ ان کو مخالف صدر مشرف نے گرفتار کیا تھا۔
٩۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں لال مسجد جیسے ادارے ببانگ دہل
حکومتی رٹ یا حکومتی اختیارات کو چیلنج کرے اور عدلیہ سیاست دان اور دوسرے
مصلحتاً خاموش رہیں اور کھلم کھلا اسلحہ اور طاقت کی بنا پر حکومتی سیکورٹی
اداروں کے لوگوں کا ناصرف نشانہ بنائیں بلکہ باقاعدہ سیکورٹی نافذ کرنے
والے اداروں سے جنگ لڑیں۔
١٠۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں کے عوام اپنے ملک کی عدلیہ سے
اس قدر مایوس اور بے زار ہوں کہ وہ بغیر کسی مسلمہ اسلامی عدلیہ کے ادارے
کی فعالیت دیکھے ہوئے آخری حل کے طور پر اسلامی شریعہ کا نفاذ مانگنے لگیں
جیسا کہ سوات میں ہوا اور جسے اچانک چند ہی گھنٹوں میں پارلیمنٹ میں بغیر
کسی بحث و مباحثہ کے ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں منظور کرلیں اور اس کے حق
میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگیں۔ اور چند ہی ہفتوں میں اس نام نہاد
صوفی محمد کے نام نہاد نفاذ شریعت کے نتیجے میں جو ٢٥ تیس لاکھھ لوگ اپنے
گھروں سے بے گھر کردیے جائیں کیا دنیا میں اسی کا نام اور کام شریعت سمجھا
گیا ؟
١١۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں نام نہاد سول سوسائٹی کے دعوے
دار فارغ بیٹھے بیٹھے بور ہونے کے بعد حکومتی کاموں میں اصلاح کرنے کے
بجائے سڑکوں اور راستوں میں ہڑتالیں اور مظاہرے کریں تاکہ مملکت کا نظام
درہم برہم کر دیا جائے اور وہ بھی ان شاطر سیاستدانوں کے کہنے پر جن کے
بارے میں ان نام نہاد سول سوسائٹی کےعلمبرداروں کو بھی اچھی طرح علم ہو کہ
یہ شاطر سیاستدان اسی ملک کے اربوں ڈالر باہر کے بینکوں اور ملکوں میں رکھے
بیٹھے ہیں۔ کیا اسی کو کہتے ہیں سول سوسائٹی کی بے داری؟
١٢۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں انصاف فراہم کرنے والے اداروں
یعنی عدلیہ اور وکلا سے لوگ اسلیے ڈریں اور نفرت کریں کیونکہ انصاف فراہم
کرنے والے خود انصاف کے نام پر ناانصافی کو فروغ دینے میں مشہور و معروف
ہوں۔
١٣۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں قومی مفاہمت جیسے آرڈیننس
اسلیے جاری ہوں کیونکہ عدلیہ میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ دس دس سال اور
تیس تیس سالوں سے عوام اور بالخصوص خواص لوگوں کے کیسز حل کراسکے۔
١٤۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں جرم کرنے والا تو بے سزا رہے
اور اگر پکڑا بھی جائے تو اپنی جائیداد اور اپنا کالا دھن واپس لے سکے آرام
سے اور بن بیٹھے ایماندار عزت دار اور قوم کا ہمدرد اور نام نہاد جمہوریت
کے نام پر اپنی سیاسی پارٹیوں کے زریعے تھمبنگ یعنی واضع برتری بھی حاصل کر
بیٹھے اور غریب ایک بھینس کے چرانے کے جھوٹے مقدمات میں بھی ایسا زبردست
گھیر لیا جائے کہ دس دس سال قید کاٹنے پر مجبور رہے۔
١٥۔ کیا دنیا میں کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ عدلیہ کے فعال اور انصاف فراہم
کرنے کے دعوے دار این آر او جیسے کاموں کو مقدس پتھر کی طرح ہاتھ بھی نا
لگائیں مگر ججز کی برطرفی کے خلاف اس ایک فرد کے خلاف اکھٹے ہوجائیں جس نے
ان کو برطرف کیا تھا جبکہ وہ شخص اب آفس ہولڈر بھی نہیں رہا۔
١٦۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں جسٹس منیر جیسا بھی ایک جج رہا
ہو جو پیدا اور دوبارہ پیدا ہی اسلیے ہوا تھا کہ قانون کے اصول اس طرح توڑے
موڑے جائیں جن سے طاقت ور کو فائدہ پہنچے۔
١٧۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے وکیل ٹی وی اینکر مین بننے اور
اینکر مینز کے دوست بننے لگیں تاکہ اپنا نقطہ نظر ٹی وی اینکرز کی زاتی
پرخاش ہونے کے سبب زیادہ اچھے طریقے سے مخالفین پر نکال سکیں۔
١٨۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں تعطل میں پڑے لاکھوں کیسسز کو تو
چلنے دیا جائے مگر اپنے چہیتوں کے کیسسز کو دنوں میں حل کر کے اپنے چہیتوں
کی مہربانیوں اور احسانات کا بدلہ چکایا جائے۔
١٩۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں ایک غیر قانونی کام کرنے والا (پی
سی او کے تحت حلف اٹھانے والا) اسی غیر قانونی کام کے دوسرے کرنے والوں کے
خلاف مقدمات اور گروپنگ کرے تاکہ جن دوسروں نے وہ غیر قانونی غیر آئینی کام
کیا ان کے خلاف ایکشن لیا جائے اور انہیں فارغ کیا جائے۔
٢٠۔ کیا دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں کے سابق فوجی (چلے ہوئے
کارتوس) سیاسی پارٹیوں کی دولت کے آگے سجدہ کرتے ہوئے ایک مخصوص کردار ادا
کرنے اپنے گھروں سے نکلیں اور پھر دوبارہ پھس ہو کر بیٹھ جائیں کیونکہ جیب
میں دوبارہ اچھے پیسے آگئے تو بڑھاپا اور اچھا گزرے گا اور رہی عوام تو وہ
تو ان چلے ہوئے کارتوسوں کے لیے کیا کہتے ہیں “بلڈی سولینز“ ہیں “ہٹا ساون
کی گھٹا۔“
یہ آرٹیکل ایک سبق ہے ملک کے مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے لوگوں کے لیے جو
کسی نا کسی طرح تعلیم یافتہ بھی ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور جن کلاسز کے
مقدمات اگر عدالتوں میں چلے جائیں تو ان کی کئی نسلیں جوان ہوجاتیں ہیں مگر
ان کے چھوٹے چھوٹے مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے چاہے اس کے لیے وہ وکیلوں کو
زیادہ فیسیں دیں یا ججز کو اللہ سے ڈرنے کے دہائیاں۔ شکریہ ملک کے نام نہاد
آزاد اور قابل قدر وکیلوں اور ججز۔ |