3مارچ 2007ء سے شروع ہونے
والی وکلاء تحریک کو بے مثال اور بے لوث قربانیوں کی وجہ سے پاکستانی عوام
تو کیا پوری دنیا نے نہ صرف مانا ہے بلکہ ان کی ستائش بھی کی ہے۔ اس میں
کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ اگر وکلاء تحریک شروع نہ کرتے، میڈیا اور عوام ان
کا ساتھ نہ دیتے تو شائد آج بھی پرویز مشرف اس ملک کی رگ جاں سے چمٹا خون
پی رہا ہوتا۔ وکلاء نے جس انداز میں قربانیاں دے کر تحریک کی اپنے خون جگر
سے آبیاری کی بلا شبہ پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ابھی چند دن
پہلے ہی راقم جب کراچی میں تھا تو ایک وکیل مجاہد، نعیم قریشی سے ملنے بلکہ
ان کا مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا، انہوں نے کمال محبت سے راقم کو دوپہر کا
پرتکلف کھانا بھی کھلایا اور راقم نے ”طاہر پلازہ“ میں بہیمانہ انداز میں
لگائی جانیوالی آگ کا احوال بھی معلوم کیا۔ بنیادی طور پر وہ آگ نعیم قریشی
کو ”سبق“ سکھانے کے لئے لگائی گئی تھی لیکن مجھے یقین ہے کہ اللہ کے اس
مجاہد نے اس آگ سے ہرگز کوئی ”سبق“ نہیں سیکھا، بلکہ اس کے اندر جو آگ اس
ملک کے دشمنوں اور آستین کے سانپوں کے لئے موجود ہے اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
بہرحال وکلاء تحریک کی بدولت جہاں وکلاء کی عزت و آبرو میں بے پناہ اضافہ
ہوا وہیں اس ملک کو ایک ڈکٹیٹر سے بھی چھٹکارا حاصل ہوگیا۔ ہم اکثر دیکھتے
ہیں کہ جب کوئی فرد، قوم یا خاص مکتبہ فکر کسی بھی حوالے سے کوئی کامیابی
حاصل کرتا ہے تو وہ ”جشن فتح“ میں بعض اوقات ایسی حرکتیں بھی کر جاتا ہے جو
اس کو قطعی زیب نہیں دیتیں۔
بار اور بنچ کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ وکلاء کا کام عدالتوں میں پیش
ہونا، ججوں کو کیس پیش کرنا، صحیح فیصلہ تک پہنچنے میں ان کی راہنمائی اور
مدد کرنا اور ججوں کا کام ان کو سننا اور انصاف و قانون کے مطابق فیصلہ
کرنا ہوتا ہے۔ جب تک دونوں فریق اپنا اپنا کام بخیر و خوبی انجام دیتے رہتے
ہیں مسائل جنم نہیں لیتے لیکن جب ایک دوسرے کے اختیارات میں دخل اندازی
شروع ہوجائے تو معاملات لا محالہ خرابی کی جانب ہی جاتے ہیں۔ وکلاء تحریک
کی کامیابی کے بعد وکلاء کی ہر حرکت پر عوام اور میڈیا کی نظریں ہوتی ہیں۔
جب بھی کوئی معاملہ خراب ہوتا ہے تو وکلاء تحریک کے مخالفین اور اس ملک میں
آئین و قانون کی حکمرانی کے دشمن بہت زیادہ اچھالتے ہیں اور وکلاء کو بدنام
کرنے کا کوئی موقع ہرگز ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ لاہور ہائی کورٹ بار
ایسوسی ایشن کا وکلاء کا آپس کا مسئلہ ہو، فیصل آباد میں محکمہ مال کے
اہلکاران سے جھگڑا ہو، چند دن پہلے لاہور میں ایک خاتون جج کی کچھ خواتین
وکلاء سے تلخ کلامی ہو یا حالیہ معاملہ جس میں کچھ وکلاء کی طرف سے مبینہ
طور پر ایک سول جج کو اس کے آفس میں یرغمال بنائے جانے کی خبریں ہوں، سب
میں وکلاء کو بدنامی کے علاوہ کچھ اور حاصل نہیں ہوا! جس طرح وکلاء دوسرے
مکاتب فکر کے متعلق یہ سوچتے ہیں کہ ان کا احتساب ہونا چاہئے اور کسی بھی
شخص یا ادارہ کو احتساب سے بالاتر نہیں ہونا چاہئے اسی طرح وکلاء کو بھی
خود احتسابی کا کوئی نظام وضع کرنا پڑے گا، کیونکہ جتنی عزت انہیں تحریک
چلا کر حاصل ہوئی ہے یہ بھی ایک ریکارڈ ہے اور ایسے واقعات سے جس طرح ان کی
بدنامی ہوتی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں! وکلاء اس قوم کا سب سے
باشعور طبقہ ہیں اور وہ یقیناً سمجھتے ہیں کہ عزت حاصل کرنا بہت مشکل ہے
اور اسے قائم رکھنا اس سے بھی دشوار تر، جبکہ صدیوں کی بنی ہوئی عزت بعض
اوقات لمحوں میں ختم ہوجاتی ہے، دوسری بات یہ کہ جب کسی قسم کے احتساب کا
ڈر اور خوف موجود نہ ہو تو انسان پر کبھی کبھار ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ
ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے اور قانون کو بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی
کوشش کرتا ہے۔ کچھ ایسے معاملات بھی دیکھے گئے ہیں کہ جب کسی وکیل صاحب کا
ذاتی معاملہ ہو تو پوری بار اس کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے، بلا شبہ ایکا، اتحاد
اور اتفاق بہت اچھی چیزیں ہیں لیکن اس ایکے، اتحاد اور اتفاق میں کبھی ایسا
بھی ہوتا ہے کہ فریق مخالف کو اپنی شنوائی کے لئے وکیل ہی دستیاب نہیں ہو
پاتا، ظاہر ہے جب پوری بار ایک جانب کھڑی ہوگی، قطع نظر اس کے کہ مخالف
فریق غلط ہو لیکن اسے اپنی صفائی کا موقع بھی ملنا چاہئے اور وکیل بھی
دستیاب ہونا چاہئے، اسی عدم توازن کی وجہ سے اکثر اوقات معاملات اتنے زیادہ
خراب ہوجاتے ہیں کہ بات قتل و غارت تک پہنچ جاتی ہے۔ میری اپنے وکلاء
بھائیوں سے گزارش ہے کہ کسی بھی معاملہ میں ضبط و تحمل کا دامن ہاتھ سے مت
چھوڑیں۔ آپ نے جو اتنی بڑی تحریک کامیابی سے چلائی ہے پوری قوم آپکو ستائشی
نظروں سے دیکھتی ہے، قوم نے کالے کوٹوں سے بہت سی امیدیں وابستہ کی ہوئی
ہیں، خدارا !خود احتسابی کے ذریعہ اپنے معاملات کو درست کر لیا کریں تاکہ
کسی ”شرپسند“ کو کالے کوٹ کی حرمت پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے کیونکہ
اسی کالے کوٹ کو پہننے والے نے تحریک پاکستان کی کامیاب قیادت کی تھی اور
اسی کو پہننے والے ”ابابیلوں“ نے وطن عزیز کو آمریت کے سیاہ بادلوں سے نجات
دلائی ہے....! |