عام عوام پارٹی اور افتخار چوہدری

میں آج بھارت میں ابھرتی" عام عوام پارٹی "کے بارے میں تفصیلات اپنے قارئین کے علم میں لانا چاہتا تھا کہ یہ پارٹی کن لوگوں پہ مشتمل ہے۔اس کا ایجنڈا کیا ہے اور بھارت کی سیاست میں اس کا کیا حصہ ہے اور مستقبل میں یہ کس پارٹی کے لئے خطرہ ثابت ہو گی۔بی جے پی کے لیڈر ز اور کانگریس کے راہول گاندھی کی اس پارٹی کے بارے میں کیا رائے ہے اور بھارتی عوام اس نوزائیدہ پارٹی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔یہ پارٹی دلی کے انتخابات جیتنے کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہے اور اس اقدام سے اس پارٹی کو ملکی سیاست میں کیا فائدہ ہو گا۔اس پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے کیا پاکستانی سیاست پہ کوئی اثرات ہوں گے۔کیا تحریک انصاف اور بھارت کی عام عوام پارٹی میں کوئی مماثلت ہے یا مستقبل میں اس ایجنڈے کے ساتھ کسی ملتے جلتے نام سے ایسی ہی کسی پارٹی کے پاکستان میں بننے کے امکانات ہیں۔

میں آج ایک نجی ٹیلی ویژن پہ چلنے والے بدیسی ڈراموں کے بارے میں بھی لکھنا چاہتا تھا۔سلطان سلیمان خلافت عثمانیہ کا ایک شاندار سپوت تھا۔تاریخ اس کے کارناموں ،رعایا سے محبت، قانون سازی اور بے تحاشا فتوحات سے بھری پڑی ہے۔اس کے دربار میں یورپ اور فرانس کے حکمرانوں کے ایلچی مہینوں باریابی کے منتظر رہا کرتے تھے۔وہ اور اس کا دور حکومت اس قدر شاندار تھا کہ یورپ آج بھی اسے سلطان ِ ذیشان کے نام سے جانتا ہے۔جب کہ ڈرامے میں اس عظیم مسلمان سلطان کو ایک زن مرید اور دل پھینک بادشاہ کے طور پہ دکھایا گیا ہے جو سارا دن فارغ بیٹھ کے اپنی کنیزوں کے لئے انگوٹھیاں بناتا رہتا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ سلطان سلیمان ذیشان کا زیادہ وقت میدانِ جنگ میں گذارا جب کہ ڈرامے کا جو شہنشاہ ہے اسے خرم سلطان کے پھیلائے بکھیڑے سمیٹنے کے علاوہ جیسے اور کوئی کام ہی نہیں۔جلال الدین محمد اکبر گو کوئی ایسا مثالی مسلمان نہ تھا لیکن ڈرامے میں اس کی جو گت بنائی گئی ہے اور جودھا بائی کے کردار کو جیسے آسمان کی رفعتوں سے آشنا کر کے مسلمان عورتوں کو جیسے گھٹیا اور کمینہ دکھایا گیا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کچھ عرصہ پہلے کسی امریکی نے ایک مقدمے کے دوران کہا تھا کہ پاکستانی پیسے کے لالچ میں اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں اور ہم نے اس پہ بہت شور مچایا تھا۔بہت برا منایا تھا لیکن میں حیران ہوں کہ ہم سچی بات برداشت کیوں نہیں کر پاتے۔

میں بین الاقوامی تعلقات اور سیاسیات کا طالبعلم ہوں۔مجھے اس حساب سے عالمی سیاست کی شطرنج پہ گہری نظر رکھنی چاہئیے لیکن میرا معاملہ اس گانے والا ہے کہ تیرے چہرے سے نظر نہیں ہٹتی نظارے ہم کیا دیکھیں۔وطن عزیز میں روز ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ کسی دوسری طرف دیکھنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی۔ہم کیا لوگ ہیں۔نہ ہماری کوئی روایات ہیں نہ کوئی مروت اور لحاظ۔کہتے ہیں جانے والا بہت برا بھی ہوتو بھی جاتے ہوئے اس کی نیکیوں کو یاد کرنا چاہیے ۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری شاید ویسے ہی ہوں جیسا ان کے مخالفین کہتے ہیں لیکن اس کے لئے آج کا دن چننا مروت کے خلاف ہے۔آج کے دن ہمیں ان کے کارناموں کا،ان کے ان اقدامات و مقدمات کا جو انہوں نے معاشرے اور ملک کو بہتر بنانے کے لئے انجام دئیے کا ذکر کرنا چاہیے تھا لیکن پیسے کمانے کی دوڑ میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور گلے کاٹتے میڈیا نے جاتے ہوئے سابق چیف جسٹس کے وہ لتے لئے جنہیں سن کے اور دیکھ کے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے شایداس جدید دنیا کا سب سے برا آدمی آخری بار ہمارے ہتھے چڑھا ہے۔

میرے قارئین برا نہ منائیں تو عرض کروں کہ یہ روٹین کا واویلا نہیں تھا۔یہ آنے والے دنوں کو جھلک تھی جس کا چیف جسٹس کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔میں نے کل بھی لکھا تھا کہ ارسلان کیس دوبارہ اٹھے گا لیکن آج کی کوریج دیکھ کے میری چھٹی حس کہتی ہے کہ معاملہ صرف ارسلان تک ہی نہیں رہے گا بلکہ اس فسانے میں ابھی اور بھی بہت سے رنگ بھرے جائیں گے۔بہت سے سٹے آرڈر اور بہت سارے سفر بھی ابھی لوگوں کی سماعتوں سے آشنا ہوں گے۔صرف ارسلان نہیں چوہدری صاحب کو باور کرایا جائے گا کہ فیصلے جیسے بھی ہوں انصاف کی فراہمی تنے ہوئے رسے پہ چلنے کے مترادف ہے اور اشرافیہ اپنے دشمنوں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔کاش ! افتخار چوہدری ارسلان کیس کا اپنے عہد افتخار ہی میں فیصلہ کر دیتے تو ان کی مشکلات شاید کچھ کم ہو جاتیں۔پاکستان کے سابق چیف جسٹس کے لئے آنے والے دن بہت کٹھن ہوں گے کہ اب ان کے ساتھ نہ کرسی ہو گی نہ جج ہوں گے اور نہ وکیل۔سختیوں کے یہ دن انہیں اکیلے ہی جھیلنے ہوں گے۔

آج یہ بات کوئی نہیں مانے گا لیکن سننے والے سن لیں کہ افتخار چوہدری قسمت کا دھنی ہے۔گھر جا کے اس ملک میں کبھی وزیر اعظم واپس نہیں آئے کچھ آج مقبروں میں اور کچھ تاریخ کے کچرادان میں۔کبھی کوئی ڈکٹیٹر لوٹ کے نہیں آیا حالانکہ بہت عرصہ تک تیری یاد آتی رہی تیرے جانے کے بعد۔نیب کے چیئرمین اور نجانے کون کون۔جو گیا کبھی لوٹ کے نہیں آیا۔یہ واحد شخص تھا جو اس ملک کی تاریخ میں اس شان کے ساتھ لوٹ کے آیا کہ زمانے کی گردشیں تھم گئیں۔اسے سکون سے رہنے دیا جائے تو شاید وہ تاریخ کا حصہ بن جائے لیکن یہ شخص لوہے کا چنا ہے چبانے والوں کے دانت ٹوٹیں گے۔اور یہ دانت ٹوٹیں گے ضرور۔ہمارے ہاں کمزور اور گرے ہوئے کو ٹھوکر مارنے کا رواج ہے ۔ٹھوکریں مارنے والے ٹھوکریں ضرور ماریں لیکن یاد رہے کہ کل کلاں ہمارے ہاں بھی "عام عوام پارٹی "بن سکتی ہے.
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269091 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More