بھکاری راج

تاریخ شاہد ہے ہمارے حکمران بھیک مانگنے میں زرہ برابر ہتک محسوس نہیں کرتے،جو بھی آیا بیوروکریسی اور مشیروں نے اسکو ایسی گیڈر سنگھی سُنگھائی کہ سب سے پہلی فرصت میں اس  حکمران نے کشکول تھامااور در در جا کے صدا بلند کی،نہ اپنا خیال نہ مُلک کا خیال ،نہ بیچاری عوام کا ،جہاں سے بھیک ملنے کی بو محسوس ہوئی ہوے پورے لاو لشکر کے ساتھ بڑے فخر سے بھیک مانگنے چل نکلے،تاریخ کے صفحات کھنگال کھنگال کے مر گیا ہوں مگر کوئی ایسی قوم نہیں ملی جس نے بھیک مانگ کے ترقی کا زینہ چڑھا ہو، الیکشن سے پہلے کشکول توڑنے کے نام پے ووٹ مانگنے والوں نے پہلے دن کشکول کو اپنے گلے میں ڈال لیا، قرضے کے پہاڑ بنانے والے یہ حکمران گاہے بگاہے قرض لیکر ایسی قرضہ سکیمیں شروع کرتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ،پچھلے پانچ سال بنیظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر اربوں کھربوں کے چن چڑھانے والہ حکمران ٹولہ قوم کو ایک ہزار روپے نقد کا چوغہ ڈالتا رہا ،اسکا اور کوئی فائدہ ہوا یا نہیں ، غریب لوگوں کی عزت نفس یقینا مجروح ہوئی پورے پانچ سال لوگ ایک ایک ہزار روپے نقد کے لیے کبھی ڈاکیے سے بے عزتی کرواتے کبھی سیاسی لوگوں سے ،میاں صاحب نے اس سے زرا آگے کی سوچی اور نوجوان نسل کوٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کیا،اور اس کام کا زمہ اپنی سب سے بڑی صاحبزادی کو سونپا، حکمران جماعت کے ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کے کارے خاص اپنے اپنے علاقہ میں لسٹیں بنانے میں مصروف ہیں، اور لوگوں کو یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ جو انکی لسٹ میں ہو گا قرضہ اسی کو ملے گا، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے اپنے اپنے ادوار میں مختلف سکیموں کا اجرا کیا، انکا انجام تاریخ کے کوڑے دان میں ہمھیں منہ چڑھا رہا ہے ، مگر مجال ہے جو یہ حکمران کبھی ماضی سے کچھ سکھیں ،پیلی ٹیکسی کا انجام سب کے سامنے ہے مگر پھر بھی بڑی ڈھٹائی سے پنجاب حکومت نے پچھلے دور میں پھر ٹیکسی سکیم کا کھیل کھیلا، مگر اس بار گرایجویٹ نوجوان اس کے لیے منتخب کیے گے، میٹرک والا ایم این اے اور بی اے والا ڈرائیور ، ایسی سوچ کو 70 توپوں کی سلامی دینے کو دل کرتا ہے، مجھے تو محسوس ہوتا ہے قوم میں کوئی شخص خودار نا کہلانے پاے،والی سوچ رکھنے والے حکمران قرضہ سکیموں کو نت نئے ناموں سے جاری رکھیں گے ،90 کی دہائی میں میاں صاحب ماضی کامشہور شعر پڑھتے تھے
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی ،
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تا ہی ،

90 کی دہائی میں اس شعر نے ایسا جادو کیا کہ میاں صاحب نے مشہور معروف قرض اُتارو مُلک سنوارو سکیم شروع کی،اور 2012 کے الیکشن مہم میں ایک بار پھر وہی شعر پڑھا کرتے تھے اس بار اسکا جادو اُلٹ ہو گیا اور میاں صاحب نے قوم کے نوجوانوں کو گوڈے گوڈے قرض کی لت میں ڈبونے کا فیصلہ کر لیا،اگر تو یہ قرض بغیر سودکے ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ حکومت وقت اپنے شہریوں کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنا چاہتی ہے مگر 8 فیصد سود جو بنک کل کو 12 سے 15 فیصد تک کھینچ کر لے جائیں گے ،تب بیچارے نوجوان آگے آگے اور بنک پیچھے پیچھے والا معمالہ ہو گا،قرضہ سکیم کی شرائط پڑھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ غریب نوجوانوں کے نام پر کیا کھیل کھیلا جانے والا ہے-

بعض شرائظ نہایت مضحکہ خیز ہیں غریب کے نام پے ایک بار پھر لوٹ مار ہو گی،اگر وزیر اعلی کی ناک کے عین نیچے آشیانہ ہاوسنگ میں گھپلا ہو سکتا ہے تو مریم بی بی بیچاری کس کھیت کی مولی ہے، ؓٓؓ؁ افرادکو قوم سانچے میں ڈاھلنے کے لیے سچے او ایماندار لیڈر کی ضرورت ہے ،جو نہ خود ونمبری کرے نہ کرنے دے ، اگرقوم کو یہ ہی حکمران میسر آتے رہے تو قرضے قرضے والا کھیل جاری رہے گا، پاکستانیوں کو اب فیصلہ کرنا ہو گا ، اگر سر بلند کر کے جیناہے اگرکچھ عزت و وقار قائم کرنا ہے تو گرگھٹ کی طرح رنگ بدلتے ان لیڈروں سے چھٹکارا پانا ہوگا، اور اپنی ترجیحات میں محنت ایمانداری عزت نفس کا تحفظ کرنے والے فیصلے کرنے ہوں گے ، نہیں تو حکمران اگلی بار قرضہ سکیم کا نام بدل کر من و سلوی سکیم رکھ دیں ، صرف اور صرف اپنی اپنی لوٹ مار کے لیے !
Naveed Rasheed
About the Author: Naveed Rasheed Read More Articles by Naveed Rasheed: 25 Articles with 24560 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.