امریکہ ایران ڈیل، کچھ حیرانیاں، کچھ پریشانیاں!

جنیوا میں ہونے والا ایران اور P5+1کا معاہدہ 9/11کے بعد دنیا کی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب کریگا۔ نہ صرف مشرق و سطیٰ بلکہ وسطی اشیاء ، برصغیر اور یورپی ممالک بھی اس کے زیر اثر ہونگے۔ سنسنی ، حیرت، تجسس ، غم وغصہ کے علاوہ پریشانی کے جذبات دنیا کے گوشے گوشے میں مترشح ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی بساط اور خواہشات کے مطابق اسکی تشریح میں مصروف ہے۔ اسکے مخالف افراد اسے ایران کے انقلاب پر حملہ تصور کررہے ہیں۔ گمان کیا جارہا ہے کہ تمام اسلامی ممالک کی طرح ایران بھی امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کر چکا ہے ۔ طرح طرح کے قیافے ہو رہے ہیں۔ جبکہ اس کے حامی افراد خوش فہمی کے سمندر میں خوب غوتے لگا رہے ہیں۔ یہ ایسے افراد ہیں جو ایران کی تعریف و توصیف کیساتھ ساتھ امریکہ کو تمام برائیوں کا مرکب ٹھہراتے، جھنڈے جلاتے ، امریکہ سے تعلق کو کفر کی پرچار سے تشبیح دیتے رہے ہیں۔ دونوں طرح کے افراد من پسند تجزیے گاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو پہلو اوجھل ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ ایران دشمنی اور دوستی کوئی عقیدہ اور مذہب نہیں۔ یہ دو ممالک کے درمیان مفادات کی کشمکش ہے۔

معمولات میں کشیدگی کی سب سے بڑی بنیادی وجہ یورنیم کی افزودگی کی حد ہے۔ ایران کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ وہ ایٹم بم نہیں بنا رہا بلکہ مستقبل میں انرجی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ٹیکنالوجی کا حصول اسکا حق ہے۔ اس معاہدے کی رو سے ایران ایک ہزار تک سنٹری فیوجز رکھ سکتا ہے ۔ چند دنوں کے اندر ایران کی آمدنی میں ۴۰ فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی آئے گی اور شدید دباو میں گری ہوئی عالمی معیشت کو استحکام ملے گا۔ تجارت و اقتصادکی نئی راہیں کھل جائیں گی۔ یہ امر بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں سٹریٹیجک توازن بگڑ سکتا ہے۔ تمام ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی کو ریوائیو کرنے کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان وہ ملک ہے جو اس موقعہ سے بھر پور فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ بد ترین انرجی کے مسائل سے دو چار ملک ایران سے گیس درآمد کرکے نہ صرف اپنے بند ہوتے کارخانوں میں جان ڈال سکتا ہے بلکہ بیرونی ممالک کی طرف منتقل سرمایہ کاری کو واپسی کا راستہ دیکھایا جا سکتا ہے۔پاکستان کو اس ضمن میں بھارت پر بھی گہری نظر رکھنی ھوگی جو اس بدلتی صورت حال سے فائدہ اٹھاکر ایران اور افغانستان کے قریب آسکتا ہے۔ یقینا وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے پرہوم ورک میں مگن ھوگا۔نواز حکومت پچھلے چھ پاہ میں سفارتی میدان میں مخمصے کا شکار نظر آتی ہے۔

اس معاہدے میں اسرائیل اور اکثر بیشتر عرب ممالک پریشانی اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ۔ ان کے خدشات یہ ہیں کہ ایران نہ صرف ایٹم بم بنا نے کے قابل ہو جائے گا بلکہ اس سے ایران کے خطے میں مفادات کو تقویت مل جائے گی۔ نتھن یاہو (اسرائیلی وزیر اعظم ) بھر پور انداز میں یہ واضح کہہ چکا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کا اسرائیل کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے خوابوں کو حقیقت میں بدل دے سکتا ہے۔ امریکہ بہر حال اپنے اتحادیوں کو یہ باور کرا چکا ہے کہ ا س معاہدے کی رو سے ایران کی معمولی غلطی اسے دنیا میں تنہا کر دے گی اور اس پر حملے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ابھی تک امریکہ اور ایران کے درمیان کوئی بڑا معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ امریکہ نے چند شرائط کے پیش نظر پابندیوں میں نرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر ایران ان شرائط پر مکمل عمل پیرا ہو کر امریکہ کے شکوک شبہات کو زائل کرتا ہے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا ہے تو اگلے چھ ماہ میں ایک بڑا معاہدہ کیا جائے گا اور تمام پابندیوں کا خاتمہ کردیا جائے گا۔امریکہ کا یہ موقف بھی اپنی جگہ پوری شدت سے موجود ہے کہ اگر ایران ان چھ ماہ میں شرائط پر پورا نہیں اترتا ہے تو اسے سنگین نتائج کا سامنا ہوگا۔حالات واقعات کا گہرا مشاہدہ یہ بات عیا ں کرتا ہے کہ بظاہر سادہ دکھائی دینے والا یہ ٹرکی معاہدہ ایران کو ٹریپ کرنے کی مکمل استعداد رکھتا ہے ۔ اسکے بر عکس اگر ایران کا جائزہ لیا جائے تو نئی حکومت، عوامی خواہشات کے پیش نظر ایران کے پاس ان شرائط کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ میدان اور گھوڑا سامنے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اگلے چھ ماہ میں حکمت، جرات اور دانشمندی سے بازی کس کے حق میں پلٹ جاتی ہے اور پس پائی کا بسیرا کہاں رہتا ہے۔
Sajjad Hussain
About the Author: Sajjad Hussain Read More Articles by Sajjad Hussain: 3 Articles with 1783 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.