پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کا
کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہر دور میں عدلیہ کو اپنے اقتدار کو طول دینے
اور اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا لیکن آخر
کار ایک حرف انکار نے اس عدلیہ کا وقار صیحح معانوں میں عوام میں بحال کیا
اور ساری دنیا کو دیکھا دیا کہ اگر جذبہ سچا ہو تو کوئی بھی کام مشکل نہیں
ان کا ہر فیصلہ عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتا نظر آتا تھا سپریم کورٹ کے
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری آٹھ سال پانچ ماہ اور بارہ دنوں تک فرائض
منصبی سر انجام دینے کے بعداپنے منصب سے سبکدوش ہو گئے چیف جسٹس محمد سلیم
کے بعد وہ دوسرے طویل ترین دورانیہ تک فرائض سر انجام دینے والے چیف جسٹس
ہیں افتخار محمد چوہدری کے دورمیں جہاں عدالت عظمٰی طاقتوراور مضبوط ہوئی
وہیں ماتحت عدالتیں اورادارے بھی با اختیارہوئے اسی دورمیں چیف جسٹس کودنیا
بھر میں اورملک میں تاریخی عزت ملی عدلیہ بحالی کی تحریک سے لے کرچیف جسٹس
کی ریٹائرمنٹ تک سپریم کورٹ نے گھن گرج کیساتھ بڑے بڑے لوگوں کو عدالت میں
بلایا اوران کا احتساب کیا چیف جسٹس ہی تھے جنہوں نے مردہ عدلیہ میں نئی
روح پھونکی،،خوشگوار روایتیں،قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالادستی قائم کی
9 مارچ2007 کو جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آرمی
ہاؤس بلا کر ان سے استعفے طلب کیا ان کے انکار کے بعد ان کے خلاف سپریم
جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج کر انہیں معطل کر دیاان پرکرپشن اقربا پروری
اور عدالتی قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کئے گئے چیف جسٹس نے مذکورہ
ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تیرہ رکنی فل بنچ نے اس ریفرنس کو
غیرقانونی قرار دے کر مسترد کر کے انہیں بحال کر دیا ان کی معزولی کے خلاف
ملک بھر میں وکلاء اور عوام کی تحریک کا آغاز ہوا3 نومبر2007 کو جنرل پرویز
مشرف نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے ساٹھ ججوں کو معزول کر دیا اور سپریم
کورٹ کے ایک جونیئر جج عبدالحمیدڈوگر کو چیف جسٹس مقرر کر دیا تمام ججوں کو
ان کے گھروں میں نظر بند کر دیاگیا وکلاء تحریک ایک سال سے زائد عرصہ تک
جاری رہی آخرکار تاریخی لانگ مارچ کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے16
مارچ2009 کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تمام ججوں کوبحال کر دیا چیف
جسٹس افتخار محمد چوہدری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے فوجی آمر کے
سامنے کھڑے ہو کر استعفے دینے کے حوالے سے اس کی خواہش کوٹھکرا دیا انہوں
نے عدلیہ کی قومی تاریخ میں آئین کی بالادستی کے حوالے سے غیر معمولی فیصلے
کئے این آر او فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی پاداش میں انہوں نے اس وقت کے
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت پر تابرخاست عدالت سزاسنائی جس کے
بعد وہ نااہل قرار پائے جبکہ ان کے بعد آنے والے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف
کے خلاف رینٹل پاور کیس میں انہیں ذمے دار قرار دیا چیف جسٹس افتخار محمد
چوہدری نے آئین کی بالادستی اور عوام کے مفاد میں بہت سے معاملات کا ازخود
نوٹس لیا عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ اعلی عدالت نے ازخود نوٹس
کے ذریعے عوام کے مفادات کو یقینی بنایا خلاف میرٹ تقرریوں کا کالعدم قرار
دیا آئین کے منافی حکومتی رویوں کی روک تھام کی اور بدعنوانی کے خلاف
کارروائی کی چیف جسٹس نے سپریم کورٹ میں انسانی حقوق سیل قائم کیا اور
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لئے موثر کردار اداکیا لاپتہ
افراد کی بازیابی کا معاملہ ہویا کراچی اور بلوچستان میں بدامنی کے واقعات
عدلیہ نے نہ صرف حکومت کو اس طرف متوجہ کیا بلکہ اسے آئین کے مطابق عوام کے
جان ومال کے تحفظ کے سلسلے میں کردار ادا کیااگر یہ کہاجائے تو بے جانہ
ہوگا کہ قوم نے جس آزاد عدلیہ کاخواب دیکھا اور وکلا ء برادری سمیت سول
سوسائٹی نے جس کے لئے جدوجہد کی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی
میں عدلیہ نے اس کی عملی تعبیر پیش کی۔ عوام چیف جسٹس کے اس موقف سے اتفاق
کرتے ہیں کہ عدلیہ کا یہ کردار جاری وساری رہے گااور ان کی ریٹائرمنٹ کے
بعد بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی اگر ادارے مضبوط ہوں توان کی کارکردگی
کبھی مایوس کن نہیں ہوتی بدقسمتی سے ہمارے ہاں پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ادارے
مضبوط نہیں ہوئے ملک میں زیادہ عرصہ فوجی آمریت کی حکمرانی رہی اور طاقت ور
افراد کے گرد گھومتی رہی پہلی بار ایک منتخب حکومت نے دوسری منتخب حکومت کو
اقتدار منتقل کیااور جمہوریت نے جڑیں پکڑنی شروع کیں جبکہ سپریم کورٹ کے
چیف جسٹس نے عدلیہ کے ادارے کو مضبوط اور مستحکم کی ہمیں اس بات کی امید
رکھنی ہے کہ عدلیہ آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے اور حکومتی من مانیوں
کو روکنے کے سلسلے میں آئندہ بھی اپنا کردار جاری رکھے گی بلا شبہ سابق چیف
جسٹس کا دور عدلیہ کی تاریخ کاسنہری دور رہاہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ اپنی اس آزادی کو ہمیشہ کیلئے برقرار رکھتے
ہوئے اسی طرح آزادی اورغیر جانبداری سے اپنے سفر کو جاری رکھے کیونکہ تاریخ
میں پہلی بار عوام کا عتماد عدلیہ پر اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ان کو انصاف
کی امید صرف اور صرف اسی ادارے سے ہے اور ان کے اس اعتماد کو قائم کرنے اور
عدلیہ کو آزاد اور غیر جاندار بنانے میں جس شخص کا سب سے زیادہ حصہ ہے وہ
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہی ہیں۔ |