اسلامی خلافت کے بعد عالم اسلام
کو کم وبیش چھپن ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیاہے، ان کو اسلامی ریاستوں، مملکتوں
اور ممالک کے مختلف ناموں سے موسوم کئے جاتے ہیں، مگر چشم بینا سے دیکھیں
تو ان میں سے کسی بھی ملک میں اسلامی قوانین نافذ اور رائج العمل نہیں ہیں،
مگر ہاں ایک ہی ملک ایسا آپ کو ملے گا جہاں پر قرآن وحدیث کی تعلیمات
زندگی کی پاسداری اور اسلامی قوانین کی بالا دستی ملکی سطح پر ہوتی ہے،
اسکا منشور ودستور اسلام ہے میرا مقصد ’’ المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘ وہ
واحد اسلامی ملک ہے جہاں پر اسلامی نظام کو مغربی اور وضعی قوانین پر فوقیت
حاصل ہے اور حدود وتعازیر آرڈیننس کی اسلامی روشنی میں تنفیذ بھی کی جاتی
ہے، اس کی زندہ مثال قصاص کے حد کو قائم کرنا ہے، تمام ممالک کی نسبت سعودی
عربیہ کو بہت امتیازی درجے حاصل ہیں کیونکہ کتاب وسنت کی تبلیغ، صاف وشفاف
عقیدے کی اشاعتِ حرمین شریفین کی بیش بہا خدمات، حجاج و معتمرین ِ کرام کی
گرانقدر خدمتگزاری اور ضیافت کا اہتمام، اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کی
کاوشیں، دینی، انسانی اور فلاحی اداروں کا اکنافِ عالم میں انصرام،،، وغیرہ
جیسے خدماتِ جلیلہ اور جہودِ حمیدہ اس کی قسمت میں آئی ہوئی ہیں { ذلک فضل
اللہ یؤتیہ من یشاء } جسے اللہ دینا چاہے تو اسے چھپڑ پھاڑ کے دے کون اسے
روکے یا ٹوکے، جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے؟؟ ان سب سے بڑھ کر قبلہ اول،
حرمین شریفین اور محمد عربی ﷺ کامبارک روضہء پر انوار وتجلیات بھی اس مقدس
سرزمین ِ حجاز وبطحا پر استادہ ہیں۔
انہی خصوصیات اور دیگر ان گنت اوصاف کی بنا عالم اسلام میں سعودی عربیہ کو
امتیازی درجہ اور فوقیت حاصل ہے اور یہی منزلتِ صدارت اس کی شایانِ شان بھی
ہے، صرف لکھنے اور درجہ بندی کاغذوں پر کرنے میں یہ مقامِ اعلی وبرتر حاصل
ہے بلکہ اسلام کے لئے دھڑکنے والے مسلمانانِ عالم کے دلوں پر بھی اسکا نقشہ
کسی نا کسی سبب کندہ ہے، چھپائے یا اظہار کرے یہ اس پر ڈیپینڈ ہے، کیونکہ
جسے ارضِ مکہ ومدینہ سے عقیدت نا ہو بھلا وہ کیسا مسلمان ہو گا؟؟!! لہذا
سعودی عرب کی سالمیت واستحکام، بقا وتشخص کو بر قرار رکھنے اور اسمیں مزید
نکھار پیدا کرنے کیلئے فرزندانِ توحید کے لبوں سے ہمہ تن دعائے خیر نکلتی
ہے۔
پاکستان کو دیگر خصوصیات کیساتھ ایک نمایاں خاصیت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کی
تعمیر و بنیاد رکھنے والوں کا مقصد بہت ہی عظیم تھا اگرچہ بعض لیڈروں کی
نیت پر کچھ حضرات انگلی اٹھاتے ہیں لیکن نعرہ سب کا واحد تھا ’’پاکستان کا
مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ ‘‘ بعد میں کہاں تلک اس نعرے کو عملی جامہ
پہنانے میں پاکستانی حکمران اور عوام کامیاب ہوئے یہ ایک الگ طویل داستان
ہے اسپر کوئی فرصت ملی تو روشنی ڈالوں گا، پاکستان کو ہزار خامیوں کے
باوجود اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے ہاں ایک خاص مقام حاصل ہے کیونکہ اسکے
باسیوں کے دلوں میں اسلامی غیرت اور حمیت کے جذبات موجزن ہیں اور پاکستان
عالم اسلام کا واحد سپر پاور ہے جو مختلف عسکری اور جنگی مہارت کیساتھ
اسلحہ، میزائیلز اور ہتھیار بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اسلامی واحد
ایٹمی طاقت سے لیس ملک ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ممالک سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات بہت گہرے
اور مضبوط ہیں، زندگی کے نشیب وفراز میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہتا ہے
برے دنوں میں بھی مداوا کرنے کی عادت پرانی ہے، چونکہ سعودیہ کو رب کائنات
نے دولت اور سیم وزر کے حظِ اوفر سے نواز رکھا ہے، وہاں دولت کی ریل پیل ہے،
بلیک گولڈ ’’ تیل ‘‘ کی لا متناہی مقدار زیرِ زمین ہے، اور سعودی حکومت اس
دولت بے بہا سے بے سہارا مسلمانو ں ہی کی نہیں بلکہ بے آسرا انسان کی بھی
داد رسی کرتی ہے، جسکے وافر مقدار پاک حکومت اور قوم پر نچھاور کیا جاتا ہے،
یومِ استقلال سے تا حال سعودیہ نے ہمیشہ پاکستان کا مادی ومعنوی تعاون کرنے
میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، سختیوں کے زمانے میں سچی دوستی کا حق ادا کیا
ہے، گھمبیر مسائل کی دلدل میں پھنسنے پر تن، من، دھن کی بازی لگا کر اور
اپنی سالمیت کو داؤ پر لگا کر ارضِ پاک اور اس کے باشندوں کے ہاتھوں کو
تھام کے اس آشوب کے گرداب سے نکال کر برِ امان پر لا کھڑا کیا ہے، غربت
وافلاس، زلزلہ وسیلاب، قدرتی آفات اور حکمرانوں کے عذاب سے نمٹنے اور ان
سے خلاصی پانے میں پورا ساتھ دیا ہے، ان کے فیوض وبرکات سے بلا تفریق
وتمییز ہر مستحق ادارے اور غریب پاکستانی عوام مستفید ہوتے آئے ہیں، دینی،
سماجی، فلاحی، سیاسیِ معاشی اور سیاسی بحران کے وقت ہر میدان میں سعودی
عربیہ کا کردار بہت ہی عیاں، جاویداں اور مثالی رہا ہے جس سے کسی بھی منصف
فرد کو انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے اوربجز ہٹ دھرمی کے اسے کچھ حاصل نہیں،
اسی وجہ سے تمام پاکستانیوں کے قلوب واذہان کا مرکز بنا ہوا ہے۔
سعودی عرب وہ واحد ملک ہے جس نے ہر وقت پاکستان کا ساتھ دیا اور اسکے ساتھ
سرمدی تعاون وامداد کا ایک ہی نہیں دونوں ہاتھ بڑھا رکھے ہیں، ان دونوں کے
باہمی تعلقات دیرینہ ہیں اور روز افزوں ترقی کی منازل طے کرتے تقدم وتطور
کے زینے چڑھتے ثریا پر کمندیں باندھنے کو ہیں، مگر یہ سب کچھ ملک دشمن
عناصر کیلئے جچتا ہی نہیں ہے لہذا وہ ان کے تعلقات کی مضبوط عمارت کو ٹھیس
پہنچانا چاہ رہے ہیں، جسکے لئے نہایت ہی عیارانہ ہتھکنڈے زیرِ استعمال لا
رہے ہیں، ایک تو ان دونوں اسلامی سٹیٹس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے مغربی
مذموم عزائم ہیں جن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ دگرگوں شاطرانہ
چالبازیاں کرتے ہوئے ’’قلابازیاں‘‘ کھا رہے ہیں، مختلف قسم کے ڈرامائی سینز
ہمیں آئے روز سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں، کبھی سعودیہ کو دہشت گردی
پھیلانے کا الزام تو کبھی حقوقِ نسواں ہضم کرنے کا، کبھی جہادی تنظیموں کو
امداد پہنچانے کا تو کبھی ’’بے بس و بے آسرا مسلمانوں‘‘ کی مالی مدد کرنے
کا ،، ، وغیرہ تو دوسری طرف تصویر کے دوسرے رخ پر پاکستان کو دہشت گردوں کا
اڈہ ہونے، انکی عسکری تربیت کرنے کے یاوہ الزامات تراشے جاتے ہیں، اور انہی
یاوہ گوئی اور بے بنیاد و خود ساختہ الزامات کو سہارا اور بنیاد بنا کرغلام
حکمرانوں پر قابو کر کے اپنا طوطی بنا کر ہر روز حقوقِ انسان کے نام نہاد
جھوٹے علمبردار غریب اور بے گناہ شہریوں کو دن دیہاڑے مسلسل ڈرون حملوں سے
شہید کر رہے ہیں، اور قبائلی علاقے میں ہر گھر ماتم کناں ہے، اس سے عجوبہ
یہ کہ دارالحکومت اسلام آباد کے قریبی شہر ایبٹ آباد کے تھیٹر پر ڈرامہ
’’ اسامہ بن لادن ‘‘ کے سییریز کو ریلیز کر کے تضحیک آمیز اقدام اٹھایا
گیا جو اپنے آپ کو سپر پاؤر کہنے والے محترم ’’امریکہ‘‘ صاحب کی شایانِ
شان نہیں تھی، اس عظیم قومی اور حکومتی مسئلے کو ہمارے معزز ’’امریکن ‘‘
بزدل حکمرانوں نے سنی ان سنی کر کے رکھ دیا۔
ان باتوں سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دشمن عناصر پاک سعودی دوستانہ تعلقات
کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں جسمیں نا صرف یہودیت اور صہیونیت کے قدیم
وجدید مخابراتی ادارے کارفرما ہیںبلکہ ساتھ ہی کچھ اور دشمن اور دوست نما
دشمن بھی شاملِ حال ہیں اور وہ مختلف روپ اور بہروپ میں مصروفِ عمل ہیں،
سعودی سفارتکار حسن القحطانی کے بہیمانہ قتل بھی اسی کا شاخسانہ اور ایک نا
عاقبت اندیش امر کا سنگِ میل ہے۔، یہ بات سننے کو کئی بار ملی تھی کہ پاک
سعودی دوستی بہتوں کو جچتی نہیں ہے، اور اسے خراب کرنے میںبڑی طاقتیں مگن
ہیں
’’اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصرؔ
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے‘‘
جاری ہے |