کشمیرسیکس سکینڈل کشمیریوں کی بے کسی کا رونا ہے

اپوزیشن بڑی ظالم ہوتی ہے۔ وہ اپنے مخالفین کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔ اور انہیں اچانک دبوچ لیتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک کٹ پتلی حکومت ہے۔ جس کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ ہیں۔ شیخ عبداللہ کے پوتے۔ شیخ عبداللہ کا خاندان کانگریس کے ساتھ ہے۔ اور کشمیر میں وہ ہندو نواز کہلاتے ہیں۔ منگل کے روز جموں کشمیر کی صوبائی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران حزب اختلاف نے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ دو ہزار چھ کے بدنام زمانہ سیکس سکینڈل میں ملوث ہیں۔ اس الزام کے بعد عمر عبداللہ اس قدر غصے میں آئے کہ اپنے کارکنوں کے روکنے کے باوجود وہ اپنے والد کے ہمراہ گورنر کے پاس پہنچے اور اپنا استعفیٰ سونپ دیا۔ جموں کشمیر قانون ساز اسمبلی میں حزب اختلاف پی ڈی پی کے رکن مظفر حسین بیگ نے اسپیکر کو ملک کے سب سے بڑے تفتیشی ادارہ سی بی آئی کی مرتب کردہ ایک فہرست تھما دی تھی۔ اس فہرست میں جموں کشمیر کے اس بدنام زمانہ سیکس سکینڈل میں ملوث ان ایک سو انتیس ملزموں کے نام شامل تھے۔ جن کی سی بی آئی تفتیش کررہی ہے۔ مسٹر بیگ، مفتی محمد سعید کی وزارت میں قانون کے وزیر تھے، انہوں نے اسپیکر سے کہا کہ ، 'اس فہرست میں ملزم نمبر 102 کو دیکھ لیجئے، وہ عمرعبداللہ ولد فاروق عبداللہ ہیں۔' اس کے بعد ایوان میں شورو غل مچ گیا۔ عبداللہ نے نہایت جذباتی انداز میں اعلان کیا کہ وہ صوبائی گورنر کو اپنا استعفیٰ سونپ دینگے۔ انہوں نے کہا : ' مجھ پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ملزم بے گناہ ثابت نہیں ہوتا وہ گناہ گار ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ میرے اوپر ایک کلنک ہے، ایک دھبہ ہے۔'اور عمر عبداللہ استعفی دینے پہنچ گئے۔

عمر عبداللہ پر یہ کلنگ کا ٹیکہ ہو نہ ہو لیکن بھارتی حکومت کے لئے یہ شرمناک باب ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم اور کشمیریوں پر جس طرح عرصہ حیات تنگ کر رہا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ کشمیر میں آئے دن فوجیوں کی جانب سے خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات ہوتے ہیں۔ کشمیر سیکس اسکینڈل بھارت کے اس نقاب کو اتار دیتا ہے جو وہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ۶۰۰۲ میں انڈین ایکپریس میں نوجوان کشمیری لڑکیوں کو نوکریوں کا جھانسہ دے کر ان کی برہنہ فلمیں بنانے ور ان کا جنسی استحصال کرنے سے متعلق یہ سنسنی خیز سکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔

۶۰۰۲ مئی میں انڈین ایکسپریس نے جموں کشمیر پولیس کے حوالے سے سیکس اسکینڈل کا انکشاف کیا تھا۔ جس میں بڑے بڑے سیاستدان، پولیس حکام، بااثر افراد، انٹیلیجنس کے حکام شامل تھے۔ پولیس نے ۲ سی ڈی بھی پکڑی تھی۔ جس میں ان سرگرمیوں کا ریکارڈ تھا۔ اس سی ڈی میں ایک ۵۱ سالہ بچی کی ویڈیو بھی تھی۔ جس سے زبردستی زیادتی کی جارہی تھی۔ بعد ازان اس بچی کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی۔ جس نے شناختی پریڈ میں کئی ملزمان کو شناخت کرلیا تھا۔ ان میں ٹرانسپورٹ منسٹر حکیم یاسین، ایم ایل اے غلام حسین، یوجیش سہنائے، ڈی جی پی رینک افسر راجندر ٹیکو، سنئیر آئی پی ایس آفیسر اشکور وانی، نیاز محمود ، شیخ محمود، جموں کشمیر بنک کے چیئرمین یوسف خان، براڈوے ہوٹل کے مالک انیل امید شامل تھے۔ اس بچی نے عدالت میں ایک گورے چٹا صاحب کا بھی ذکر کیا تھا۔ جنہوں نے ایک سرکاری ہٹ میں چشمہ شاہی پر ایک بچی کے ساتھ بدکاری کی تھی۔ یہ گورے چٹے صاحب بعد میں پرنسپل سیکر یٹری پلاننگ اقبال کنڈے نکلے۔ اس مقدمے کی جموں کشمیر ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ایک اہم گواہ کو ایک عمارت کی تیسری منزل سے گرا کر ہلاک کردیا گیا۔

اس واقعے کی ایک بار پھر یاد دہانی نے بھارت کے اصل روپ کو دنیا کے سامنے کردیا ہے کہ وہ نہ صرف ان واقعات کی پشت پناہی کررہا ہے۔ بلکہ انسانی حقوق کو بری طرح پامال کر رہا ہے۔ بھارت میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ گروپ سرگرم ہیں۔ اقلیتوں پر سکھوں، عیسائی، مسلمانوں، اور دلتوں پر اس کے ظلم پناہ ہیں۔ لوگ گجرات میں ہونے والے فسادات کو ابھی نہیں بھولے ہیں۔ بابری مسجد کا سانحہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہے۔ پاکستان پر بھارت مسلسل الزام تراشی کر رہا ہے۔ پاکستان کی دوستی کی خواہش کو اس کی کمزوری سمجھا جارہا ہے۔ بلوچستان اور سرحد کے واقعات میں جو غیر پختون طالبان کے لاشے ملے ہیں۔ وہ پاکستان کے معاملات میں بھارتی در اندازی کا ثبوت ہیں۔ ان حالات میں بھارت کو اپنے رویئے پر غور کرنا چاہئے اور کشمیر میں انسانی خون کی ہولی کھیلنے اور انسانی حقوق کی پامالی سے باز آجانا چاہئے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419808 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More