سیدہ عالیہ افزاءبخاری‘ ٹوبہ ٹیک
سنگھ
نیک اولاد کسی بڑے خزانے سے کم نہیں ہوتی اور نیک اولاد ایسا صدقہ جاریہ ہے
جو مرنے کے بعد بھی والدین کی بخشش کا ذریعہ بنتی ہے اور زندہ والدین کی
دنیا ہی جنت بنادیتے ہیں۔
ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو اکثریت نوجوانوں کو بگڑے ہوئے پائیں گے‘
کوئی نشہ کا عادی ہے تو کوئی لڑکیوں کے چکروں میں پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے
والدین کی بدنامی ہورہی ہے اور ان کی زندگی جہنم بنی ہوئی ہے اگر چھوٹے
بچوں کو دیکھیں تو وہ بھی والدین کو بہت تنگ کررہے ہیں‘ کبھی شرارتوں کے
ذریعے کبھی پڑھائی سے عاری نظر آتے ہیں۔ والدین بہت پریشان نظر آتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ بڑوں کی لاپرواہی اور ناسمجھی کا
نتیجہ ہے کیونکہ بچوں کی ضرورت صرف تعلیم ہی نہیں ہے بلکہ اچھی تربیت‘ علم
پر عمل کروانے کا باعث بنتی ہے اور بچے اچھی تربیت ہی سے تعلیم یافتہ نظر
آتے ہیں اور اسی طرح والدین کی عزت و تکریم میں اضافہ ہوتا ہے۔ بچے کی
شخصیت پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے وہ اس کے والدین کی زندگی
گزارنے کا طریقہ کار ہے کہ وہ کس طرح بولتے ہیں کس طرح کھاتے ہیں‘ کس طرح
چلتے ہیں کس طرح سوتے جاگتے ہیں۔ بچے تھوڑی سی سمجھ بوجھ کے ساتھ ہی وہی
طریقہ اختیار کرلیتے ہیں اگر بچے تمیز کے ساتھ بولتے ہیں تو سمجھیے اُس کے
والدین دھیمی اور خاموشی والی زبان سے بات کرتے ہیں اگر وہ آہستہ اور اارام
سے کھانا کھاتے ہیں تو سمجھیے کہ اس کے والدین جلدی جلدی کھانا نہیں کھاتے‘
اسی طرح بچے کی دوسری نقل وحرکت بھی والدین سے مشابہت رکھتی ہیں اگر بچے
گالیاں نکالتے ہیں تو سمجھیے کہ بچہ گھر میں سے گالیاں سیکھ رہا ہے۔ والدین
اگر بات بات پر لڑنا‘ جھگڑنا اپناتے ہیں تو بچے بھی اپنے ہم عمر بچوں سے
لڑتے جھگڑتے ہیں‘ گھر میں بھی بڑوں سے لڑجھگڑ کر بات کریں گے اگر آپ جھوٹ
بولتے ہیں تو وہ بھی اپنا گناہ اور شرارتیں چھپانے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیں
گے اور یاد رکھیے کہ بچے کی ابتدائی عمر میں پڑنے والی خصلتیں یا بُری
عادتیں پختگی اختیار کرلیتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کی زندگی سنوارنے
کیلئے اور آپ اپنی زندگی جنت بنانے کیلئے پہلے اپنی عادات بدلیے اور معصوم
ناسمجھ بچوں کو اچھی عادات کا عادی بنائیے اگر باپ سگریٹ نوشی کرتا ہے تو
یا تو عادت ترک کردیجئے یا بچوں سے چھپ کر پیجئے کہ بچے میں یہ بُری لت نہ
پڑجائے آپ بھلے ہی بچوں کو اچھے سکول میں تعلیم دلوا رہے ہیں مگر آپ کا
بچوں کی نقل وحرکت پرنظر رکھنا‘ ہوم ورک دیکھنا اور ان کیلئے وقت نکالنا
بہت ضروری ہے‘ بچوں کی پیارو محبت سے پرورش کریں مگر کبھی کسی ایک بچے کو
زیادہ محبت نہ دیجئے‘ برابری کی سطح پر پیار دیجئے ورنہ زیادہ محبت والا
بگڑ سکتا ہے اور کم والا چڑچڑے پن کا شکار ہوکر بے ادب بن سکتا ہے۔ بچوں کے
سامنے کبھی دوسروں کی برائیاں مت کیجئے بلکہ اگر وہ آپ کو دوسروں کی باتیں
بتائے تو پیار سے ڈانٹیں اور سمجھائیں کہ چغلی کرنا مردہ بھائی کا گوشت
کھانے کے برابر ہے‘ گھر میں بڑے بچوں کو چھوٹوں سے پیار کرنا سکھائیے اور
چھوٹے بچوں کو بڑوں کا احترام کرنا سکھائیے۔ اس طرح آپ کا گھرانہ پیار‘
محبت‘ عزت و احترام کا گہوارہ بن جائے گا اور سب لوگ آپ کی تعریف کرے گا
اور بچے کی زندگی تو جنت بنے گی ہی وہ بچے آپ کی زندگی کو بھی جنت بنادیں
گے۔آخر ایک اہم بات کہ بچے کو معاشرے سکول یا دوسروں کے سپرد مت کیجئے بلکہ
اپنا فرض سمجھئے اور پھر حقوق کی ادائیگی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔
بچوں کی اچھی صحت کے گُر
ہر بچے کی پیدائش سے ظاہر ہوتا ہے کہ خالق کائنات ابھی انسان سے ناراض نہیں
ہوا ہے۔ انسانی نسل کا تسلسل ان کی آمد سے ہی برقرار رہتا ہے۔ بچہ رو کر
اگر اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے تو وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کے تحفظ اور
پرورش کی ذمے داریاں بھی معمولی نہیں ہوتیں۔ نسل انسانی کے تسلسل کے ذمے
دار اس محدود میں لا محدود بچہ انسان کو قدرت یوں ہی ہمارے حوالے نہیں
کردیتی۔ وہ اس کے جسم میں کم از کم چھ ماہ تک امراض سے لڑنے کی قدرتی
صلاحیت بھی رکھ دیتی ہے۔ وہ جب ماں کا دودھ پیتا ہے تو ابتدائی دنوں کا
دودھ اسے غذائیت کے ساتھ امراض سے اس کے تحفظ کا مزید اہتمام بھی کردیتا
ہے۔ ہر جان دار بچہ اپنی ماں سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔ انسان کے بچے کا
بھی یہ پیدائشی حق ہے کہ اس کی ماں اسے اپنا دودھ پلائے۔ ماں کا دودھ بچے
کی سب سے موزوں اور سب سے محفوظ غذا ہوتی ہے۔
ولادت سے پہلے اگر وہ آپ کے خون پر پل رہا تھا تو اب آپ کے خون سے چھن کر
آنے والے دودھ پر پلنے کا حق دار ہے‘ اسے اپنے دودھ اور اپنی قربت سے محروم
نہ کیجئے۔
بچوں کی صحت اور ان کی بڑھوتری کا یہ بنیادی اور اولین اصول سمجھ لینے اور
عمل کرنے سے آپ اس کی صحت کا درست سامان کرینگے۔ اب اسے پسینہ بھی آتا ہے
اب اس کے اعضائے ہضم بھی اپنا کام کررہے ہیں اس لیے بول و براز کی صفائی
بھی آپ کا فرض ہے۔ کم از کم چھ مہینوں تک اسے نل‘ کنویں‘ چشمے کے پانی کی
ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ اسے آپ کے دودھ سے ملتا رہے گا اس لیے ضروری ہے کہ ماں
صاف ستھرا پانی بھی پیے اور اچھی غذا بھی کھائے۔ آپ کا بچہ اپنا زیادہ وقت
سو کر گزارے گا اس کو پوری نیند لینے کا حق ہے۔ اس عمر میں اس کے جسمانی
ردعمل کا بھی مشاہدہ کرتے رہیے۔ وہ اگر آواز سے چونکتا ہے تو جان لیجئے کہ
اس کے سننے کی صلاحیت معمول کے مطابق ہے۔ تیز روشنی میں آنکھیں موند لیتا
ہے تو یقین کرنا چاہیے کہ اس کی بینائی درست ہے۔ بدمزہ شے کے چکھنے سے منہ
بناتا ہے تو گویا اس کی قوت ذائقہ درست ہے۔ آپ کی انگلی اپنی مٹھی میں
پکڑلیتا ہے تو جان لیں کہ اس کے اعصاب اور عضلات درست ہیں۔
یہ ردعمل درست نہ ہوں تو پھر اس سلسلے میں فکر و تدبیر کرنا ضروری ہوگا اور
اس سلسلے میں صحیح مشورہ صرف ماہر معالج ہی آپ کو فراہم کرے گا۔بچے کو
حفاظتی ٹیکے ضرور لگوائیں‘ معالجین کی اکثریت انہیں مختلف امراض سے بچائو
کیلئے ضروری سمجھتی ہے۔ بچوں کو مقررہ عمر کے اندر اندر یہ ٹیکے ضرور
لگوادینے چاہئیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ پوری دنیا کا ماحول
آلودگی کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم کا نظام مدافعت کمزور ہوتا
جارہا ہے۔ بچوں کیلئے ان ٹیکوں کی افادیت ناقابل تردید ہے۔بچہ ہر قوم کی
امانت اور اچھے مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے۔ اس کی پرورش تعلیم و تربیت میں
خیانت ہر اعتبار سے سب کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
بشکریہ ماہنامہ عبقری میگزین |