چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا ناقابل فراموش دور

اکتوبر 1954میں پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد نے اُس وقت کی قومی اسمبلی کوتحلیل کرنے کا شاہی فرمان جاری کیا اس اقدام کے خلاف اُس اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ چیف کورٹ میں رٹ دائر کی۔ سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو خلاف آئین قرار دیکر اُسے معطل کردیا۔گورنر جنرل ، سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) پہنچ گئے ۔وہاں جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو تکنیکی بنیادوں پر کالعدم قرار دے دیا ۔جس کے نتیجہ میں گورنر جنرل کا اقدام خود بخود درست قرار پا گیا۔

جسٹس منیر کے اس فیصلے کے نتیجہ میں پاکستان میں ایک ایسے آئینی اور عدالتی بحران نے جنم لیا کہ جوہر گذرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد سے عدلیہ کا کام محض یہی ہوکر رہ گیا کہ ریاست کے اقتدار پر جو بالادستی قائم کرے اس کے اقتدار کی توثیق کردی جائے۔ملک میں آئین منسوخ اور معطل کئے جاتے رہے اور عدلیہ ان اقدامات کو درست قراردیتی رہی۔عوامی حکومتوں کو ختم کرکے مارشل لاء لگائے جاتے رہے اور عدلیہ اپنے حلف سے روگر دانی کرکے پی سی او کے تحت حلف لیتی رہی۔یہاں تک کہ 9مارچ 2007کا وہ دن آگیا کہ جب اپنے اقتدار کے نشے میں چور مطلق العنان حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ریاست کے سب سے معتبر ادارے اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ،جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آرمی ہاؤس طلب کرکے ان سے استعفیٰ کی خواہش کا اظہار کیا۔

ان کی جانب سے استعفیٰ حاصل نہ ہونے کی صورت میں، انہیں خوف زدہ کیا گیا اور کئی گھنٹے محصور رکھا گیا تاکہ جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے منصب سے مستعفی ہوجائیں لیکن انہوں نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر انکار کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ۔اگرچہ کہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں ان کے منصب سے معزول کرکے ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا لیکن ان کے اس ایک انکار نے مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کے شرمناک فیصلہ سے لیکر جنرل پرویز مشرف کے غیر قانونی اور غیر آئینی بغاوت کی توثیق اور پی سی او تک پوری قوم کی شدید مایوسی کا نہ صرف خاتمہ کردیا بلکہ اس کا کفارہ اس شان سے ادا کیا گیا کہ چیف جسٹس کی بحالی اور اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کی تحریک ،قومی تحریک میں تبدیل ہوگئی۔میاں محمد نواز شریف اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت تمام قومی رہنماء اس تحریک کا حصّہ بن گئے۔

جنرل پرویز مشرف کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ۔جسٹس رمدے کی سربراہی میں اعلیٰ عدلیہ کے ایک بینچ نے اپنے تاریخی فیصلے میں جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اُسے کالعدم قرار دیدیا اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 20جولائی 2007 کو ان کے منصب پر بحال کردیا ۔جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے حلف کی ہر صورت مکمل پاسداری کا عہد کیا اور اس پر سینہ سپر ہوگئے ۔اس کے بعدتمام فیصلے آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہونے لگے ۔اعلیٰ عدلیہ کا یہ رویہ حکمراں جنرل پرویز مشرف کے لئے ناقابل برداشت ہوتا گیا یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کو3نومبر 2007کو ایک بار پھر غیر آئینی اقدام اٹھانا پڑا اور انہوں نے آئین کو ایک بار پھر معطل کرکے بطور چیف آف آرمی اسٹاف ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ اس مرحلہ پر اعلیٰ عدلیہ نے اپنے روایتی کردار کے برخلاف چیف آف آرمی اسٹاف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا۔چیف آف آرمی اسٹاف نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے نئے پی سی او پر حلف نہ لینے والے تمام ججز کو ان کے منصب سے معزول کردیا۔جس کے نتیجہ میں ایک ایسی تحریک چلی کہ مطلق العنان پرویز مشرف کے اقتدار کے دن کم ہوتے گئے۔یہاں تک کہ 2008میں پرویز مشرف کو اپنے اقتدار سے معزول ہونا پڑا اور اس کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری قوم کی ایک عظیم الشان تحریک کے نتیجہ میں 6مارچ2009کو ایک بار پھر اپنے منصب جلیلہ پر بحال کردیئے گئے۔ان کی بحالی پاکستان کے غریب اوربے یارو مددگار زندگی بسر کرنے والے عوام کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ اس تبدیلی نے، معاشرے کے کمزور اور ناتواں افراد اور ریاست کے طاقتور ترین افراد کوقانون کی نظر میں برابر بنادیا اور ماضی کے اس تصّور کو زائل کردیا کہ قانون صرف غریبوں کے لئے ہوتا ہے۔اس کے بعد ریاست کے اہم ترین منصب پر فائز طاقتور شخصیات اعلیٰ عدلیہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا گیا۔آزاد عدلیہ کے وجود میں آنے کے بعد کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عدلیہ ،فوج سمیت سینئر بیورو کریٹس اور دولت مند افراد کے خلاف مقدمات سے صرف نظر کرے گی جبکہ عدلیہ کا سارازور پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کی قیادت تک محدود رہے گا۔ لیکن وقت آنے پر ان کے تمام خیالات غلط ثابت ہوئے۔ اعلیٰ عدلیہ نے لاپتہ افراد کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے جس قدر سخت رویہ اختیار کیا اور لاپتہ افراد کو پیش نہ کئے جانے پر وفاقی وزیر دفاع اور ایف سی کے آئی جی سے جس انداز میں جواب طلبی کی۔ ماضی میں اس کا تصّور بھی محال تھا۔عدلیہ نے اپنی آزادی کے بعد نہ صرف اعلیٰ ترین فوجی افسران ،سینئر بیورو کریٹس بلکہ بڑی بڑی کاروباری شخصیات اور حد تو یہ کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو بھی سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی پاسداری نہ کرنے اور سپریم کورٹ کی توہین کرنے کی پاداش میں توہین عدالت کے مقدمہ میں سزا سنائی اور انہیں منصب سے نااہل قراردے دیا۔

میمو گیٹ کیس میں اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا سے بیان حلفی طلب کئے گئے ۔اس کے علاوہ اصغر خان کیس کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ تھی کہ عدلیہ خواہ کتنی ہی طاقتور ہوجائے لیکن اس مقدمہ کی شنوائی نہیں ہوسکے گی لیکن یہ توقع بھی غلط ثابت ہوئی ۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ سپریم کورٹ نے نہ صرف اس مقدمہ کو سنا بلکہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف وفاقی حکومت کو فوجداری مقدمات کی کاروائی کی سفارش بھی ایک ناقابل یقین واقعہ ہے۔

یہ کہنا یقینا درست نہیں ہوگا کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی لیکن ہمیں اس بات پر مطمئن رہنا چاہیے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد بطور چیف جسٹس آف پاکستان ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ جن کی بدولت اعلیٰ عدلیہ کا معاشرے میں وقار بحال ہوا۔انہوں نے پاکستان کی عدلیہ پر گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔انہوں نے کسی دباؤ میں آئے بغیر مقدمات کو نمٹایا اور فیصلے کئے ۔عدلیہ بحالی تحریک میں ان کے کچھ رفقاء ان کے چند اقدامات پر معترض ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ماتحت عدالت کی اس حد تک بہتری کے اقدامات نہیں کئے گئے جو کئے جاسکتے تھے ۔بہر حال جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پاکستان کی بے سمت عدلیہ کو ایک سمت عطا کردی ہے۔ اب ان کے بعد آنے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عدلیہ کے وقار میں اضافہ کے عمل کو جاری رکھیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں، ماتحت عدلیہ کو بدعنوانی سے پاک کریں اور انصاف کی فراہمی کو ممکن بنائیں۔

Nasiruddin Mahmood
About the Author: Nasiruddin Mahmood Read More Articles by Nasiruddin Mahmood: 4 Articles with 4088 views Assistant at Habib Bank Limited
Senior Deputy Secretary General at Habib Bank Workers front of Pakistan.(CBA)
.. View More