رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس (مرحوم)

از: میاں کریم اﷲ قریشی کرناہی

رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس ریاست جموں و کشمیر کے وہ مایہ ناز سپوت تھے جو انسانوں کے اس گھنے جنگل میں ان قد آور اشجار میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی مخصوص اور منفرد حیثیت کے باعث تاریخ کا رخ تبدیل کر کے حیات جاوداں حاصل کر لی۔ ماہرین سماجیات Sociologists کے مطابق بڑے سے بڑا اور معروف سے معروف آدمی بھی اپنی وفات کے بعد صرف ۵۰ برس تک کسی نہ کسی حوالے سے یاد کیا جاتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے پیچھے صالح نرینہ اولاد چھوڑ کر مرا ہو جب کہ پچاس برس کے بعد وہ دنیا والوں کے اذہان و قلوب سے اس طرح محو ہو جاتا ہے جیسے وہ دنیا میں آیا ہی نہ تھا۔ لیکن وہ انسان جو رب العزت کے تخلیق آدمؑ کے حقیقی فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے اس مختصر زندگی کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطائے خاص اور ایک معین مدت کی مہلت سمجھ کر احکامات الہٰی کے اتباع میں انسانیت کی فلاح اور خدمت میں گزارتے ہیں اﷲ تعالیٰ انھیں اس کے عوض حیات جاوداں سے نوازتا ہے اور وہ مر کر بھی نہیں مرتے۔ ایسے لوگوں کے لیئے اﷲ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دیتا ہے جو عشق حقیقی کا پرتو ہوتی ہے، جس میں عاشق کو کسی حریف کا خوف نہی ہوتا اور نہ ہی حقیقی عشق میں حریف کا تصور ہی ہے۔ اس حقیقت کو سہل اور سادہ الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کی دلجوئی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور اس احترام کو اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی پر محمول کرتے ہیں۔ اس طرح رب العزت جب کسی شخص پر اس کے نیک اعمال کی وجہ سے اپنی خصوصی عنایات کا دروازہ کھولتا ہے تو اس سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں بھی ایک دوسرے کے لیئے محبت اور ایثار و قربانی کے جذبات پیدا کر دیتا ہے۔ یہی کیفیات عشق حقیقی کا پرتو کہی جا سکتی ہیں جو چوہدری غلام عباس جیسی قد آور شخصیات کا حصہ و بخرہ ہوتی ہیں۔ ایسی شخصیات پر کسی فرد یا گروہ کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ اس کی اولاد کی اجارہ داری بھی نہیں ہوتی۔ اس قد کاٹھ کے لوگ ایک مکتب اور ایک فلاحی اور سماجی ادارے کی طرح ہوتے ہیں جن سے ہر خاص و عام کو برابر فائدہ ملتا ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے دوست کہا ہے۔ ایسی قدآور شخصیات گو بہت قلیل تعداد میں سہی لیکن ہر دور میں ہوتی ہیں جو اس دنیاوی کاروبار کی روانی کے لیئے ناگزیر ہوتی ہیں۔

اﷲ تعالیٰ اپنے جن خاص بندوں سے خدمت خلق کے فرائض انجام دلواتا ہے انھیں مخصوص خصائل اور اوصاف کے ساتھ پیدا کرتا ہے اور پھر انھیں زندگی میں ایسے حالات سے دوچار کرتا ہے جو ان کی اعلیٰ تربیت کا باعث بنتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جس کو جتنا بڑا بناتا ہے اسے اتنے ہی مصائب اور مشکلات میں ڈال کر اس کی تربیت کرتا ہے۔ چوہدری غلام عباس مرحوم کی زندگی کا ہر گوشہ اپنے اندر ایک دلدوز داستان رکھتا ہے۔ مرحوم پر متعدد رسائل اور کتب لکھی جا چکی ہیں اور متعدد کتب اور رسائل میں ان کی پیدائش، خاندانی تعلق، ہمہ گیر شخصیت اور سیاست و ریاضت پر گفتگو کی گئی ہے۔ جس سے ہر وہ کشمیری اور پاکستانی جسے کشمیر کی آزادی کی تاریخ سے ذرا سا بھی شغف ہے بخوبی آگاہ ہے۔ زیرِ نظر مختصر مضمون میں چوہدری صاحب (مرحوم) کی کثیر الجہت زندگی کا احاطہ مشکل ہے اور یہ بھی کہ راقم الحروف جیسے چھوٹے، غیر معروف اور سطحی علم رکھنے والے انسان کے لیئے ان کی زندگی پر سیر حاصل گفتگو کرنا سورج کو چراغ کی روشنی میں دیکھنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ تاہم قارئین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیئے صرف اتنی ہی گفتگو پر اکتفا کرنا کافی ہو گا کہ:

ریاست جموں و کشمیر کے یہ مایٔہ ناز سپوت جنوری ۱۹۰۴؁ء میں جموں کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام چوہدری نواب خان تھا اور ان کا خاندانی تعلق رانگڑ راجپوت خاندان سے تھا۔ چوہدری صاحب مرحوم نے ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول جموں میں حاصل کی جب کہ ۱۹۲۱؁ء میں گورنمنٹ ہائی سکول جموں سے میٹرک پاس کیا۔ اس کے ساتھ ہی ویلز کالج جموں میں داخلہ لیا اور ۱۹۲۵؁ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔اے کیا۔ ۱۹۳۱؁ء میں لا کالج لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی جس میں کامیابی کی خبر انھوں ے نے جیل میں سنی۔ جس طرح کہ بعض انسانوں پر اﷲ تعالیٰ کی خصوصی عنائت ہوتی ہے چوہدری غلام عباس مرحوم کی Mental age ان کی Chronological age سے کہیں زیادہ تھی جس کے باعث شباب کو پہنچنے کے ساتھ ہی ان کا ملی اور سیاسی شعور پوری طرح بیدار ہو چکا تھا اور انھوں نے ڈوگرہ مہاراجہ کے ظلم میں پسنے والے مظلوم مسلمانوں کی زبوں حالی پر دل و جان سے سوچنا شروع کر دیا تھا۔ یہ ان کے ملی اور سیاسی شعور کے باعث یہی ممکن ہوا کہ انھوں نے ۱۹۰۴؁ء میں قائم ہونے والی ’’مسلم ینگ مینز ایسوسی ایشی‘‘ جس کا مہاراجہ کی حکومت کے خوف سے صرف نام ہی موجود رہ گیا تھا اس کی سرگرمیاں ختم ہو گئی تھیں کا ۱۹۲۲؁ء میں احیائے نو کیا اور اپنی حیرت انگیز صلاحیت کے باعث ۱۹۲۴؁ء میں اس کے صدر منتخب ہوئے۔

چوہدری صاحب مرحوم جنھوں نے فتح کدل سرینگر میں قائم شیخ محمد عبداﷲ کی تنظیم ’’ریڈنگ روم‘‘ کے مسلم ینگ مینز ایسوسی ایشن میں ادغام اور اتحاد کے بعد ۲۴؍اپریل ۱۹۳۱؁ء کو جموں میں بندش خطبہ عہد اور اسی دوران پولریس لائن جموں میں توہین قرآن کے ردعمل میں دونوں خطوں (جموں اور وادی کشمیر) کے مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے اور مہاراجہ ہری سنگھ سے مسلمانوں کے حقوق حاصل کرنے کے لیئے ہمہ گیر تحریک چلائی اور ۱۳؍جولائی ۱۹۳۱؁ء کے دلدوز سانحہ کے وقوع پذیر ہونے کی پاداش میں بغاوت کے الزام میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے، ۱۹۳۲؁ء میں مسلم کانفرنس کے قیام، گلینسی کمیشن کے قیام، فرنچائز کمیٹی کے قیام، اسمبلی کے انتخابات ۱۹۳۴؁ء میں سول نافرمانی، ۱۹۳۸؁ء میں نیشنل کانفرنس سے استعفیٰ، ۱۹۴۲؁ء میں مسلم کانفرنس کے احیاء نو، ۲۴؍اکتوبر ۱۹۴۶؁ء میں گرفتاری اور ۱۹۴۸؁ء کو رہائی اور پاکستان پہنچنے پر قائد اعظمؒ کی طرف سے استقبال تک کے طویل سیاسی سفر کی ان کی داستانِ زندگی انتہائی طویل اور کہانی در کہانی ہے۔

ان کی زندگی کی پہلی ملی اور سیاسی بیداری کی کہانی جموں میں ایک فرقہ پرست ہندو لیڈر سوامی شر دھانند کی مسلم مخالف ’’شدھی‘‘ تحریک کے ردعمل میں شروع ہوئی جس کے زیرِ اہتمام ہندو دیہاتوں کے سیدھے سادھے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا رہے تھے۔ چوہدری صاحب نے ہندوؤں کی اس ’’شدھی‘‘ تحریک کے خلاف آواز اٹھائی اور مسلمانوں کے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے عمل کو روکا۔ ’’شدھی‘‘ ہندی لفظ ہے جس کے معنی پاک و صاف کے ہیں۔ اس تحریک سے ہندوؤں کا یہ مقصد تھا کہ ہندو اکثریت میں مسلمان نجس اور اچھوت ہیں۔ انھیں ہندو بنا کر ’’شدھ‘‘ یعنی پاک کیا جائے۔ اس سلسلہ میں ۱۶۔۱۷ فروری ۱۹۲۴؁ء کو جموں میں ایک عظیم الشان تبلیغی کانفرنس منعقد کی جس میں جمعیت العلمائے ہند کے نامور مبلغین نے شرکت کی اور مسلم ینگ مینز ایسوسی ایشن کے صدر جناب چوہدری صاحب کے ہمراہ رہتے ہوئے جموں کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا اور مسلمانوں کو ’’شدھی‘‘ فتنہ سے دور رکھنے میں انتھک محنت کی۔ اﷲ کے فضل و احسان سے چوہدری صاحب نے اپنے ملی جذبے اور قوت ایمانی کی بدولت اسلام مخالف اس فتنے کو جڑ سے اکھیڑنے میں مکمل کامیابی حاصل کی۔ یہ اسی کوشش کا نتیجہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد جموں کے تمام مسلمانوں نے دائرہ اسلام سے اخراج پر موت کو ترجیح دی اور تین لاکھ کے قریب مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ چوہدری غلام عباسؒ نے جیل سے رہا ہو کر پاکستان پہنچنے پر آزادحکومت میں کسی عہدے پر رہنا قبول نہ کیا بلکہ حکومت سے باہر رہ کر عوامی خدمت کو ترجیح دی اور مسلم کانفرنس کو منظم کرنے پر تمام صلاحتیں بروئے کار لائیں۔ چوہدری غلام عباسؒ نے حکومت آزادکشمیر کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت میں جو کردار ادا کیا وہ اس وقت بھی مسلم کانفرنس کے عہدیداروں اور اراکین کے لیئے رہنما اصول سمجھا جاتا ہے۔ اپنے بعد مجاہد اول جناب سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب کو مسلم کانفرنس کا سربراہ نامزد کرنے کا چوہدری صاحب مرحوم کا اقدام ان کی سیاسی بالیدگی، دور اندیشی اور دانشمندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جناب مجاہد اول جنھیں اﷲ رب العزت نے ان گنت صفات اور سلوک و معرفت کے رموز سے نوازا ہے تو چوہدری صاحب مرحوم کی کافی عرصہ (۱۹۴۸؁ء ۔ ۱۹۶۷؁ء) تک رفاقت میسر رہی۔ جسے جناب مجاہد اول انتہائی عقیدت سے مختلف محفلوں بالخصوص مسلم کانفرنس کے عہدیداروں اور اراکین سے گفتگو کے دوران ان کی اصلاح کے لیئے دہراتے رہتے ہیں۔

راقم الحروف کو بھی جناب مجاہد اول کی زبانی چوہدری صاحب مرحوم سے متعلق بعض ایسے حقائق کا علم ہوا جو شاید عام لوگوں کو معلوم نہ ہوں۔ جناب مجاہد اول کے مطابق چوہدری غلام عباس مرحوم سیاست کے ساتھ ساتھ سلوک و معرفت کے میدان کے بھی شہسوار تھے۔ ان کی اس جہت سے ان کے خاص ساتھی ہی واقف تھے۔ مجاہد اول فرماتے ہیں کہ ’’چوہدری صاحب مرحوم ہر رات ایک سو رکعت نوافل پڑھتے تھے اور ان کے زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ وہ رزق حلال کی سوکھی روٹی کو آمیزش کے احتمال کے ڈر سے اعلیٰ ضیافتوں پر ترجیح دیتے تھے جو کہ سلوک و معرفت کے میدان میں قدم رکھنے والوں کے لیئے پہلی شرط ہے‘‘۔ مجاہد اول نے ایک مرتبہ چوہدری صاحب مرحوم کے ذکر کے دوران فرمایا کہ ’’ایک مرتبہ چوہدری صاحب کے بھائی کے گھر سے چو چیف انجنیئر تھے ان کے لیئے پر تکلف ضیافت آئی مگر چوہدری صاحب نے اس میں سے ذرا بھی تناول نہ فرمایا اور خشک روٹی کو ترجیح دی‘‘۔ جب مجاہد اول نے اس کی حقیقت جاننا چاہی تو چوہدری صاحب نے فرمایا ’’میرے بھائی انجینئر ہیں اس لیئے اس کھانے میں کسی آمیزش کے احتمال کے پیش نظر میں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا‘‘۔

رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس نے موذی مرض کے لاحق ہونے کے باوجود ۱۹؍مارچ ۱۹۶۶؁ء کو میرپور میں مسلم کانفرنس کے ۳۵ویں سالانہ اجلاس کا افتتاح کیا اور اپنی زندگی کی آخری سیاسی تقریر کی۔ اسی اجلاس میں جناب مجاہد اول کو مسلم کانفرنس کا صدر منتخب کیا گیا۔ چوہدری صاحب نے اپنے خطاب کے اختتام پر اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’آپ وعدہ کریں کہ مسلم کانفرنس کو منظم اور فعال جماعت بنانے اور تحریک آزادی کشمیر کو زندہ رکھنے کے لیئے صدر جماعت (مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان) کا ساتھ دیں گے۔ یہ آپ کی اور میری آخری ملاقات ہے۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو‘‘۔

اجلاس کے شرکاء قائد ملت کے یہ پردرد الفاظ سن کر آبدیدہ ہو گئے اور کچھ جانثار پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جو بھی اس امتحان گاہ میں آیا اسے اپنا امتحانی پرچہ حل کر کے دار بقا کو جانا ہی ہے بقول شاعر:
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

لیکن چوہدری صاحب نے رب العزت کے فلسفہ تخلیق آدمؑ کے عین مطابق اپنا امتحانی پرچہ حل کر کے جو مثال قائم کی ہے اس کے پیشِ نظر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جنت الفدوس میں اعلیٰ مقام ان کا نصیبا ہو گا۔ جہاں تک مسلم کانفرنس اور مجاہد اول کی قائدانہ صلاحیتوں کا تعلق ہے انھیں دیکھ کر قائد ملت چوہدری غلام عباس مرحوم کی روح کو ضرور تسکین ہو رہی ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ مجاہد اول کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے جن کی عظمت کو ان کے سیاسی حریف بھی سلام پیش کرتے ہیں۔ عزت سے ان کا نام لیتے ہیں اور ان سے شرف ملاقات کی حسرت رکھتے ہیں۔

مسلم کانفرنس صرف ایک سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ یہ اسلامیان ریاست جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک ہے جس کی بنیاد قائد ملت چوہدری غلام عباس جیسی قد آور شخصیت نے رکھی تھی اور دور شباب سے بڑھاپے تک اس کی آبیاری کے لیئے انھوں نے ان گنت مشکلات برداشت کیں۔ مسلم کانفرنس ایک نظریے کا نام ہے جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اس جماعت سے وابستگی کو اہل نظر و دانش ایک اعزاز تصور کرتے ہیں۔

ہم اس بات کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ قائد ملت کی ۴۶ویں برسی کے موقع پر آج اُن حضرات کے پچھتاوے اور افسوس کی آگ اپنی جولانی پہ ہو گی اور اُن کے اذہان و قلوب کو بھسم کیئے جا رہی ہو گی جنھوں نے اپنے نفوس کے اتباع میں مسلم کانفرنس کے آفاقی نظریئے کے ساتھ بدعہدی کر کے نہ صرف یہ کہ انتہائی گھاٹے کا سودا کیا بلکہ اپنے معروف وجود کو بھی معدوم کر دیا اور اب اس کی تلاش کی لاحاصل مشق میں مصروف ہیں۔ خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بھی اپنے ان معزز و محترم حضرات کے ماحصلِ زندگی کے لٹ جانے پر بڑا دکھ ہے۔

مسلم کانفرنس کی ۱۹؍جولائی ۱۹۴۷؁ء کی تاریخی قرارداد ’’قرارداد الحاق پاکستان‘‘ کی صورت میں مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا حق حاصل کرنے کے لیئے کشمیری عوام اور پاکستان کے پاس بھارت کی نام نہاد دستاویز الحاق کے توڑ اور جواب کے لیئے ایک واضح اور مکمل دستاویز موجود ہے۔ اسی دستاویز کی روشنی میں اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں میں کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دیا تھا جس پر بھارتی مکاری کے باعث چھ دھائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران عملدرآمد نہیں ہوا۔ کشمیری اپنے اسی حق کے لیئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس (مرحوم) کی برسی پر ہر سال کشمیری اپنے اس مرحوم رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں کہ اس وقت تک آزادی کی تحریک جاری رکھی جائے گی جب تک مقبوضہ ریاست بھارت سے آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتی۔
پاکستان زندہ باد
آزاد کشمیر پائندہ باد

S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 105791 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More