پاکستان میں عمومأ لیکن صوبہ پنجاب میں خصوصأ ایک جملہ
سننے میں آتا ہے کہ ہائے میں مر جاواں ، کچھ صاحبان ادراک کی ضد ہے کہ اس
جملے کو مستقلأ خواتین سے منسوب کر دیا جائے کیونکہ وہ اس جملے کا اپنے
شوہر کی آمدنی کی طرح بے دریغ استعمال کرتی ہیں اور ہر اچھے برے موقعے اور
خبر پر حیران ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہائے میں مر جاواں،
لیکن شوہر حضرات کا شکوہ ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی بیان ہوتا ہے اور آج تک
کسی خاتون نے یہ بات کرنے کے بعد اپنی اس معصوم خواہش پر عمل نہیں کیا۔
لیکن ہمارا یہ ماننا ہے کہ یہ جملہ صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بیشمار مرد
حضرات میں بھی مقبول ہے اور وہ بھی اس جملے کا استعمال کرتے ہیں خاص طور پر
جب انہیں اپنے کسی قریبی رشتے دار کی اسی نوے سال کی عمر میں بھی اچھی صحت
کی خبر ملتی ہے یا کسی دوست کی اچانک ترقی اور خوشحالی کا پتہ چلتا ہے تو
زیر لب گالی دے کر وہ بھی کسی ایسے ہی جملے کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس سے یہ
معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ اپنے اندر کئے پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور
مثبت یا منفی جذبات کا معاملہ ہو یا پھر حیرت اور پریشانی والی بات اس کے
اظہار کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنا ہی رنگ فق
کرتے ہوئے بیٹھی بیٹھی آواز میں انسان چلا اٹھے کہ ’’ ہائے میں مر جاواں‘‘
جہاں تک اچھی اور بری خبروں کا تعلق ہے تو صاحب جب تک اخبار سے رشتہ قائم
ہے تو خبر سے بھی ربط رہے گا اس لئے جہاں پچھلے دنوں عظیم لیڈر نیلسن
مینڈیلا کی وفات کی خبر سن کر دل بوجھل ہوا وہیں کچھ عجیب اور بے سروپا
خبریں بھی نظر سے گزریں جنہیں پڑھ کر ہم نے بھی دل پر تو ہاتھ رکھ لیا لیکن
رنگت کی مجبوری کہیے کہ رنگ فق نہ ہو سکا جس کا ہمیں بھی افسوس ہے۔ ان
خبروں میں پہلی خبر تو مینڈیلا کے انتقال کے دوسرے دن نظر سے گزری جس میں
محترمہ ثمینہ گھرکی صاحبہ نے اعلان کیا کہ آصف زرداری پاکستان کے نیلسن
مینڈیلا ہیں ، ایک تو یہ بیان ایسا ڈرا دینے والا تھا اور اوپر سے محترمہ
گھرکی کا نام ایسا ہے کہ لگتا ہے جیسے ڈانٹ پڑ رہی ہو اس لئے ہم تو یہ بیان
سن کر گویا سنٌ ہو کر رہ گئے کہ کہاں نیلسن مینڈیلا اور کہاں زرداری صاحب
دونوں میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں نے جیل کاٹی لیکن فرق اتنا ہے کہ
زرداری صاحب اگلے دو جنموں میں بھی یہ فرق ختم نہیں کر سکتے کہاں دس سال کی
پر آسائش جیل جو کرپشن کے الزمات کے تحت ہوئی اور کہا ستائیس سال کی قید
بامشقت جو اپنی قوم کی آزادی کی خاطر جھیلی، کہاں نیلسن مینڈیلا کہ ایک
دفعہ اقتدار میں آنے کے بعد اس سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی جس کے
ریگزار میں پوری عمر گنوا دی تھی اور کہا ں زرداری صاحب جو محض ایک جھوٹی
سچی وصیت پر نہ صرف پارٹی کے مالک بن بیٹھے بلکہ پانچ سال تک عوام کے سینے
پر بھی بھرپور انداز میں مونگ دلتے رہے ، اب اگر زرداری کا موازنہ مینڈیلا
کے ساتھ کر دیا جائے تو آپ ہی بتائیں کہ ’’ ہم بتلائیں کیا‘‘
جب سے یہ بیان پڑھا ہے سانس سینے میں رکتی ہوئی محسوس ہو تی ہے اور سوچ رہے
ہیں کہ مینڈیلا کی روح پر کیا کیا نہ گزری ہوگی کہ ساری عمر کی ریاضت کا یہ
ثمر، اس سے پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ صاحب
نے ترنگ میں آکر کہا تھا کہ نیلسن مینڈیلا بھی کھوسہ فیملی سے ہیں اور ان
کے رشتہ دار ہیں ، ہمارا گمان غالب ہے کہ مینڈیلا کی بیماری نے کھوسہ صاحب
کے اس بیان کے بعد زیادہ شدت اختیار کی تھی۔ بحرحال محترمہ ثمینہ گھرکی نے
جو بیان دیا ہے اس میں بھی ایک گہرائی ہے اور سوچنے والوں کے لئے بڑی
نشانیاں ہیں سو ہم نے بھی اس بیان پر سوچ بچار کی اور آخر اس نتیجے پر
پہنچے کہ شاید تنگ آمد بجنگ آمد کے مصادق وہ کھلے بندوں اظہار کرنے کی
بجائے اشاروں کنایوں میں زرداری صاحب سے منت کر رہی ہوں کہ حضور ہم بھی آپ
کو نیلسن مینڈیلا سمجھتے ہیں لہٰذا اب آپ بھی ۔۔۔۔کہ آسماں سے آگے جہاں اور
بھی ہیں۔
ابھی اس سحر انگیز بیان کی مضحکہ خیز تعبیر سے نکل کر ہم سنبھلنے بھی نہ
پائے تھے کہ دشمن نے ایک اور وار کیا جب ایک بھارتی تاجر اور دانشور روہت
بنسال نے یہ اعلان کیا کہ مریم نواز شریف بینظیر جیسی فہم و فراست رکھتی
ہیں ، یہ بیان پڑھ پر دل تو چاہا کہ ابھی جا کر اس روہت بنسال پر کذب کی حد
نافذ کر کے اس کو عین شرعی سزا دیں لیکن مجبوری ہے کہ ہمکو اذن گویائی تو
ہے اختیار قضا نہیں ، بندۂ خدا کہاں بینظیر کہاں مریم نواز، عربی لہجے میں
بات کروں تو کہاں بینظیر بنت ذوالفقار بن شاہنواز یعنی کہاں وزیر اعظم ولد
وزیر اعظم ولد وزیراعظم اور کہا ں مریم نواز ولد سیٹھ نواز، کہاں دختر مشرق
کہاں دختر شریف، ہے کوئی مقابلہ ؟ کہاں وہ کہ جس کی تعلیم آکسفورڈ جیسے
اداروں میں ہوئی اور کہاں یہ کہ جن کی تعلیم جیسز اینڈ میری سکول کے بعد
ختم ہو جاتی ہے۔کہاں وہ کہ عالمی اداروں میں جس کا ایک لیکچر سننے کے لئے
اعلیٰ پائے کے دانشوروں کے تانتے بندھ جاتے تھے کہا ں یہکہ جن کی جلوہ گری
محض اپنے والد کے جلسوں تک محدود، اگر ان دونوں کی ذات، صفات، عادات،
اطوار، تعلیم، تربیت ، دانش، فراست اور ہمت کا موازنہ کرنے بیٹھیں تو
بینظیر کی ذات کا احاطہ کرنے کے لئے دفتروں کے دفتر کھل جائیں گے اور مریم
نواز کے لئے شاید کسی کتاب کا ایک صفحہ بھی فی الحال نہ لکھا جاسکے، کہ جس
کہ واحد کوالیفیکشن یہ ہے کہ وہ ایک وزیر اعظم کی بیٹی ہے۔
روہت بنسال نے شاید نشے کی حالت میں یہ بیان تو داغ دیا ہے لیکن اسے معلوم
نہیں کہ بینظیر بننا ہر عورت کا مقدر نہیں ہوتا، اک عمر چاہئے ، اک ریاضت
درکار ہے، زندگی بھر کی محنت اور قربانیاں ہیں جو پنکی نام کی ایک لڑکی کو
محترمہ بینظیربھٹو کا درجہ دلواتی ہیں، ریاضت، محنت، کاوش، کوشش اور
صعوبتوں کے بغیر بڑے باپ کی بڑی بیٹی، یوتھ لون جیسی بڑے پروگرام کے چےئر
پرسن جیسے بڑے عہدے پر تو براجمان ہو سکتی ہے لیکن بینظیر جیسی عہد ساز
شخصیت نہیں بن سکتی (یہاں میں آصف زرداری کا ذکر جان بوجھ کر گول کر گیا
ہوں)
یہ خبریں جب نظر سے گزریں تو چند لمحے تک تو ہم سانس لینا بھول گئے کہ آخر
یہ ہو کیا رہا ہے اورہمارا ہاتھ بے اختیار اپنے دل پر پہنچ گیا کہ اچانک
ایک بہت عزیز دوست جناب اظہر شاہ صاحب جن کی دو عادتیں مجھے بہت پسند ہیں
ایک تو یہ کہ وہ کسی بھی گندے کپڑے سے اپنی عینک صاف کر لیتے ہیں اور دوسری
یہ کہ اخبار میں موجود سب سے بری خبر وہ مجھے سناتے ہیں وہ دھاڑیں مار مار
کر ہنستے ہوئے میرے پاس آئے اور آ کر بتایا کہ جناب صدر ممنون حسین صاحب نے
کہا ہے کہ وہ بھیس بدل کر شہر میں گھومنا چاہتے ہیں تا کہ عوام کے مسائل سے
آگاہی حاصل کر سکیں بس یہ سننا تھا کہ ہم نے بھی زاروقطار قہقہے لگانا شروع
کر دئے اور جب اس خبر پر ہنستے ہنستے ہم بے حال ہوئے اور آنکھوں میں پانی
بھر آیا تو خاموش ہونے کی کوشش میں ہمارے حلق سے نہایت باریک سی آواز نکلی
کہ ’’ ہائے میں مر جاواں‘‘- |