ارض پاک میں امن و امان کی صورت حال بد سے بدترین ہوتی جا
رہی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران مشرقی و مغربی سرحدوں کی خلاف ورزی کے
نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ فوجیوں اور عام شہریوں کا خون بہایا گیا۔ یہاں
کبھی ڈرون حملوں اور بم دھماکوں میں شہید ہونے والوں کو شدت پسند اور متعصب
کہہ کر دشمن کے مضموم مقاصد کا تحفظ کر نے کی سعی کی جاتی ہے تو کبھی ٹارگٹ
کلنگ میں مارے جانے والوں کو خاندانی دشمنی کا شاخسانہ قرار دے کر
’’دہشتگرد جماعتوں‘‘ کے مکروہ فعل کا دفاع کرنے کی کوشش ۔غرضیکہ ’’عوام‘‘
کا خون اس قدر عام ہو گیا ہے کہ گویا کسی انسان کی جان لیناکوئی جرم یا
گناہ نہ رہا ہو۔
پانی سستا ہے تو پھر اس کا تحفظ کیسا
خون مہنگا ہے تو ہر شہر میں بہتا کیوں ہے
اس ملک میں عوام کی جان تو محفوظ نہیں، تاہم حکمرانوں اور ملک کی نامور
شخصیات نے اپنے لئے بلٹ پروف گاڑیوں اور سرکاری و ذاتی محافظوں کا خاطر
خواہ انتظام کیا ہوتا ہے۔اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ان نام نہاد
راہنماؤں نے قوم کے خزانے سے اپنی محل نما کوٹھیوں کی دیواریں بھی بم پروف
بنوانا شروع کر دی ہیں جس سے اس غریب قوم کا اربوں روپیہ ان اللے تللوں پر
ضائع ہو جاتا ہے۔ جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی اراکین اسمبلی کے لئے بلٹ پروف
گاڑیاں منگوانے کی بازگشت بھی سنی گئی تھی۔
مجھے یہ کالم لکھنے کا خیال اس وقت آیا جب پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ، سپریم
کورٹ آف پاکستان کے سابق سربراہ افتخار محمد چوہدری کو ریٹائرمنٹ کے
بعدشاہانہ سکیورٹی پروٹوکول دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے وزارت داخلہ
کو لکھے گئے ایک خط میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جنہیں بعض ناقدین
نے ’’میڈیا کاچیف جسٹس‘‘ بھی کہا، کو دھمکیاں موصول ہونے کا انکشاف کیا اور
انہیں سکیورٹی اور بلٹ پروف گاڑی فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ حکمرانوں
کی دریا دلی دیکھیئے کہ فوراً ان کی درخواست پر فول پروف سکیورٹی فراہم کر
دی گئی۔ اس نظر کرم کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ افتخار چوہدری پاکستان کی
طاقتور ترین شخصیات میں سے ہیں ۔ بتاتا چلوں کہ وہ دوران ملازمت اپنی
سرکاری رہائش گا ہ پر چالیس سے پچاس اہلکاروں کے دستے اور سات گاڑیوں کے
’’عظیم الشان‘‘ پروٹوکول کا لطف اٹھا چکے ہیں۔
اگرچہ سابق جج صاحبان وی وی آئی پیز کے زمرے میں آتے ہیں مگر وہ ریٹائرمنٹ
کے بعد پولیس سکارٹس، اپنی رہائش گاہ کے محافظوں اور سکیورٹی کے لئے ایک سے
زیادہ گن مین نہیں رکھ سکتے ۔ بعـض ذرائع کے مطابق اب بھی افتخار چوہدری کے
ساتھ بارہ اہلکار اور دو گاڑیاں ہیں۔ اس کے باوجود مزید اہلکاروں اور
سکیورٹی کی طلب بلاجواز اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔
چند روز قبل میانوالی میں خطاب کے دوران چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے
کہا تھا کہ ملک میں انصاف صرف پیسے والوں کے لئے ہے۔ اگر انصاف تک صرف
امراء کی پہنچ ہے تو شاید جان و مال کا تحفظ بھی صرف امیروں کا مقدر ہے۔
یہاں جس کے پاس پیسہ ہے اس کے لئے سب جائز ہے۔اس کے اربوں کی کرپشن کسی کو
نظر نہیں آتی، وہ جسے چاہے قتل کر کے خون بہا دے کر اپنا خون آلود دامن صاف
کر سکتا ہے۔غریب شاید صرف پانی کے بحران سے پیاسا مرنے، چینی اور آٹے کے
لئے گھنٹوں قطار میں دھکے کھانے، سی این جی کے لئے پہروں فلنگ اسٹیشن پر
ذلیل ہونے ، ڈینگی و پولیو کا شکار ہونے، بھتہ خوری ، چوری و ڈکیتی کا عذاب
سہنے کے لئے ہے۔
باقی معاملات کو اگر اک لمحے کے لئے چھوڑ دیا جائے تو کیا چوہدری نثارصرف
یہ بتانا پسند کریں گے کہ وزیروںء، مشیروں ، اراکین اسمبلی اورسابق چیف
جسٹس کو سکیورٹی فراہم کرنے کے بعد اب عوام کی جان و مال کا تحفظ کب یقینی
بنایا جائے گا؟؟؟؟؟ |