Livio De Marchi
اگر آپ کو کوئی شخص یہ بتائے کہ فلاں جگہ اس نے لکڑی کی گرم جیکٹ لکڑی کے
ہینگر پر لٹکی دیکھی یا پھر لکڑی کا ہیٹ ، اور کاریں دیکھیں ہیں تو شاید آپ
اس کی ذہنی حالت پر شبہ کریں یا اسے پرلے درجے کاشیخی خورہ خیال کریں گے
کیو ں کہ لکڑی کے مجسمے ، ظروف، شو پیس وغیرہ تو عام طور پر مارکیٹ میں
دستیاب ہیں لیکن لکڑی کی جیکٹیں اور کاریں وغیرہ وہ بھی ا پنی اصل جسامت
میں نہ کبھی دیکھیں اور نہ ہی سنیں ہیں لیکن جناب یہ شیخی خورہ غلط نہیں
کہہ رہا کیوں کہ اٹلی سے تعلق رکھنے والے ’’ لیویو ڈی مارچی‘‘کی ہنرمند
انگلیاں اور آنکھیں لکڑی سے اچھوتی قسم کی اشیاء تخلیق کرنے میں اپنا ثانی
نہیں رکھتیں اٹلی کے شمال مشرق میں واقع تاریخی شہر وینس میں جنم لینے والے
ساٹھ سالہ ’’ لیویو ڈی مارچی‘‘ لکڑی کو اس کی اصل ہیئت یا شکل میں رکھتے
ہوئے ایسے نادر ونایاب فن پارے تراشتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
وینس کی خوبصورت نہروں اور آبی راستوں میں بچپن گذارتے ہوئے ڈی مارچی نے
انیس سو ساٹھ کی دہائی میں مجسمہ سازی کا کام سیکھنا شروع کیا نوعمر فنکار
نے اپنا اولین سبق دم توڑتے زیبائش اور آرائش پر مبنی قدیم انداز کے مجسمے
بنانے کے ہنر سے کیا جس کے لئے انہوں نے مقامی ہنر مند’’ ویتوریو
بیاسٹو‘‘کی شاگردی اختیار کی کام سیکھنے کے ساتھ ساتھ ڈی مارچی نے اپنے
استاد کی ہدایت پر شام کے وقت اپنی فنی تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا جس کے
لئے انہوں نے وینس شہر کی قدیم فنی درسگاہ ’’اکیڈمی بیلا آرٹ ‘‘میں داخلہ
لیا چار سال کی مدت گذرنے کے بعد ا ستاد سے کام کی اجازت اور اکیڈمی سے
قابلیت کی سند حاصل کی اور اپنی عملی زندگی کا آغاز سب سے پہلے ماربل اور
پھر پیتل کے مجسمے بنانے سے شروع کیا ۔
تاہم ڈی مارچی کی فنکارانہ پیاس میں ٹہراؤ لکڑی کے کام کی صورت میں آیا جس
کا اظہار جلد ہی دیدہ زیب اور حقیقت سے قریب فن پاروں کی شکل میں دنیا کے
سامنے آیالکڑی سے کام کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ڈی مارچی کا کہنا ہے کہ
لکڑی ایک جیتی جاگتی شے ہے اور انسانی شخصیت پر اپنا بھر پور اثر ڈالنے کی
صلاحیت رکھتی ہے جب کہ لوہا یا دیگر دھاتیں بے جان ہوتی ہیں جو اپنا اثر
انسان کے اندر نہیں داخل کرپاتیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کے دوران
حتی الامکان حد تک نہ تو لکڑی پر رنگ و روغن کرتے ہیں اور نہ ہی دو مختلف
اقسام کی لکڑیوں کو آپس میں جوڑ کر فن پارہ بناتے ہیں حتی کہ وہ لکڑی میں
موجود گانٹھوں اور داغوں کو بھی ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی لکڑی
کے قدرتی تاروپودکو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں لکڑی جیسی قدرتی نعمت کو جیتے
جاگتے روپ دینے والے ہنر مند اور اختراع پسند فنکار’’ لیویو ڈی مارچی‘‘ کے
عام فن پاروں سے یکسر مختلف فن پاروں کے حوالے سے دلچسپ معلومات پیش خدمت
ہیں ۔
*لیویوڈی مارچی کے قابل دید فن پارے ۔ ایک نظر میں
لیویو ڈی مارچی کے ہم اگر چیدہ چیدہ فن پاروں پر نظر دوڑائیں تو اولین فن
پاروں میں انیس سو پچاسی میں لکڑی سے بنایا گیا سرپر پہننے والا ’’ہیٹ ‘‘
اہم ہے جس میں ڈی مارچی نے اس خوبصورتی سے سلوٹیں ڈالی ہیں کہ دیکھنے والا
دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور ہوجاتا ہے واضح رہے ڈی مارچی نے یہ ہیٹ
جاپان کے کاغذ سے اشکال بنانے کے مشہورتاریخی فن ’’ اوریگامی‘‘سے متاثر ہو
کر تخلیق کیا ہے اس تخلیق کے اگلے سال انہوں نے ایک بڑی کشتی کے سائز کا
زنانہ جوتا بنا یا اور اسے وینس شہر کی نہروں میں کشتی کی مانند خود چلا
کرسب کو حیران کردیاجب کہ سن انیس سو ستاسی میں ڈی مارچی نے انتہائی مشاقی
کے ساتھ امن کی فاختہ لکڑی سے بنائی جو اس وقت بھی جاپان کے شہر ’’ ہی
میجی‘‘کے مرکزی باغ میں لکڑی کے ہیٹ کے ساتھ بطور یادگار شائقین سے داد
وصول کررہی ہے اسی سال انہوں نے جرمنی کے شہر ایمڈن کے مرکزی عجائب گھر ’’
کنست حیا لی ‘‘ کے لئے ایک بڑا گلدان بنایا اس گلدان کو نہ صرف ڈی مارچی نے
لکڑی کے رنگ برنگے مصوری کے برشوں سے سجایا بل کہ کمال مہارت سے بنائے گئے
اس فن پارے میں موجودلکڑی کے برشوں کے بال بھی باریک طریقے سے تراشی ہوئی
لکڑی سے بنا کر دیکھنے والوں کے لئے دل بستگی کا سامان پیدا کیا قوس و قزح
کی مانندنظر آنے والے اس فن پارے کا نام’ ’فلاور آف دی آرٹسٹ ‘‘ ہے یہ فن
پارہ اس وقت امریکی ریاست مشی گن کے مرکزی عجائب گھر کی زینت بنا ہوا ہے۔
وینس دنیا کا واحد شہر ہے جس کی گلی کوچوں میں سڑکیں نہیں ہیں بل کہ پانی
سے لبا لب راستے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس منفرد شہر میں ہر سال ان راستوں پر
آبی پریڈ منعقد کی جاتی ہے انیس سو چارنوے میں وینس کے شہریوں نے ایک عجیب
منظر اس وقت دیکھا جب انہوں نے’’ لیویو ڈی مارچی‘’ کی بنائی ہوئی لکڑی سے
بنی بگھی شہر کی پانی سے بھری گلیوں میں چلتی (تیرتی) ہوئی دیکھی بگھی کے
ساتھ مکمل قد وقامت کے چار لکڑی کے گھوڑے بھی تھے جب کہ ڈی مارچی خود بگھی
کے کوچوان کے فرائض انجام دے رہے تھے دلچسپ بات یہ ہے کہ مسافروں کے بیٹھنے
کے لئے بگھی کی پچھلی جانب لکڑی سے تخلیق کردہ سبزی ’’کدو‘‘ کی شکل کی بڑی
سی نشست گاہ بھی موجود تھی جس میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی پانی
میں رواں دواں اس عجوبے کو ڈی مارچی نے’’ اے ڈریم ان وینسیا ‘‘ کا نام دیا
تھا لکڑی کا یہ دیو ہیکل عجوبہ اس وقت امریکہ میں’’ رپلی عجائب گھر‘‘ میں
موجود ہے شائقین کو حیرت کے سمندر میں غوطے لگانے پر مجبور کردینے والی اس
آبی بگھی کی منظر کشی کے بعد اگلے سال آبی پریڈ کے موقع پر ڈی مارچی کی
ہنرمند انگلیوں نے آٹھ میٹر بلند لکڑی کا ایک ایسا دلنشین گلدان تراشا جس
میں لکڑی ہی سے بنے ہوئے بارہ عدد پھول سجائے گئے تھے ہر دم تروتازہ نظر
آنے والے یہ گلاب، گل لالہ اور گل بہاری کے پھول قدیم شہر ’’ ڈوگانا‘‘کے
نزدیک واقع’’ عظیم نہر‘‘میں سترہ سال سے بہار کا منظر پیش کررہے ہیں ان
تخلیقات کے علاوہ ڈی مارچی نے لکڑی سے ایسے متعدد فن پارے تشکیل دیئے ہیں
جن پر ان کی نزاکت ، نفاست اور فنی محاسن کے باعث حقیقت کا گمان ہوتاہے ڈی
مارچی کی شہرت میں اضافہ بننے والے ان فن پاروں میں ایک ایسی ٹوکری بھی
شامل ہے جس کے اندر اور باہر سے بھالو( ٹیڈی بئیر) جھانک رہے ہیں اس کے
علاوہ لکڑی سے بنا واش بیسن جس کے کناروں سے تولیہ لٹک رہا ہے اور اسی طرح
گولف کھیلنے کی چھڑی اور اس کا تھیلا بھی قابل دید ہیں ۔
ڈی مارچی کی ایک اور غیر معمولی صناعی جس میں وہ فن کی بلندیوں پر نظر آتے
ہیں ’’ وڈن لیدر آویٹر جیکٹ‘‘ہے اس فن پارے میں گرم موسم میں پہنے والی
جیکٹ لکڑی سے اتنی عمدہ فنکارانہ مہارت سے تخلیق کی گئی ہے کہ نقل اور اصل
کا فرق مٹ گیا ہے ایک اور فن پارہ مر د اور خواتین کے لباس سے متعلق ہے اس
فن پارے کا عنوان’’ ہز اینڈ ہر سیٹنگ‘‘ہے کمال فن کو چھونے والے لکڑی سے
تراشے گئے ان لباسوں میں کپڑے کی تما تر جزئیات کو ڈی مارچی نے اس طرح اپنی
فنی گرفت میں لے کر پیش کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اسی طرح ان کا لکڑی
کا بنایا ہوا اصل قدوقامت پر مشتمل ویسپاموٹر سائیکل کا ماڈل اور ایک
خریداری کا تھیلہ’’ وینٹ شاپنگ‘‘ بھی قابل تحسین ہیں کاغذ کی مانند نظر آنے
والے اس لکڑی کے تھیلے کے اندر قمیض اور ساتھ میں چھتری اس خوبی سے بنائی
گئی ہے کہ ناظر کو یہ تمام اشیاء ناقابل یقین حد تک اصلی لگتی ہیں۔
ان گنت اخبارات، میگزین، رسائل اور ڈیزائننگ کی منتخب کتابوں میں ڈی مارچی
کے فن پارے جلوہ گر ہوچکے ہیں جب کہ دنیا کے سات سے زائد عجائب گھروں میں
ڈی مارچی کی ہنرمندانہ تخلیقات صف اول کے فن پاروں میں شمار کی جاتی ہیں اس
کے علاوہ جرمن، سوئس، ڈچ، جاپان اور دیگر ممالک کے میڈیا ہاؤسز نے ڈی مارچی
کے سحر زدہ کردینے والے فن کے حوالے سے ڈاکومینٹری بھی پیش کی ہیں جس میں
بل خصوص ہالینڈ کے ٹی وی ’’ ٹی، آر، او، ایس ‘‘سے ڈی مارچی کے فن پر پیش کی
جانے والی دستاویزی فلم میں ان کے فن پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے یاد
رہے ڈی مارچی کے فن پاروں کی نمائش دنیا کے متعدد شہروں میں ہوچکی ہیں جن
میں میلان، فلورینس، لندن، پیرس، ڈیسلڈورف، زیورخ، نیویارک، لاس اینجلس،
سان فرانسسکو اور ٹوکیو وغیرہ شامل ہیں اپنے اسٹوڈیو میں کام میں مگن ڈی
مارچی تخلیقی عمل کے دوران سو کے لگ بھگ مختلف سائزوں کی چھینیوں کو
استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ ایک لکڑی کی ہتھوڑی بھی ان کا اہم اوزار ہے
اس حوالے سے ڈی مارچی کا کہنا ہے کہ اگر ایک بھی چھینی کام کی میز پر کم
ہوتو ان سے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے حالیہ دنوں میں لکڑی اور شیشے کے ملاپ
سے انوکھی صورت گری کرنے والا یہ فنکار اور مجسمہ ساز اپنے آبائی شہر میں
قائم اپنی آرٹ گیلری میں نت نئے خیالات اور منصوبوں کی تکمیل میں مصروف ہے
۔
لیویو ڈی مارچی کی چند اہم تخلیقات
کتاب گھر
House of Books
یوں تو لکڑی سے گھر بنانا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے لیکن لیویو ڈی مارچی
نے سن انیس سو نوے میں لکڑی سے ایک ایسا گھر بنایا جس کی نہ صرف بیرونی
دیواریں ہزاروں کی تعداد میں لکڑی کی کتابوں سے بنائی گئی ہیں بل کہ گھر کے
اندر ہر شے لکڑی سے تخلیق کی گئی ہے ان اشیاء میں چھت پر لگے لیمپ ، کھانے
کی ٹیبل پر موجود برتن،چھری کانٹے، بوتلیں، شیلف میں سجی کتابیں، میز اور
اس پر موجود میزپوش ، صوفے ، صوفے کا فوم ، الماری میں ہینگر پر ٹنگا کوٹ
پتلون، ٹائی،ہیٹ حتی کہ چولہا بھی لکڑی کا ہے گھر کے اطراف میں حفاظتی باڑ
رنگ برنگی نوک دار پینسلوں سے بنائی گئی ہے گھر کی چھت کتاب کی شکل کی ہے
اور اس پر موجود چمنی ایک بڑے سے قلم کی طرح دکھائی دیتی ہے اسی طرح
کھڑکیوں کے پٹ بھی کتابوں سے بنائے گئے ہیں جب کہ گھر کے باہر باڑ کے ساتھ
مرکزی گیٹ عینک کی شکل کا ہے یہ عینک بھی لکڑی سے بنائی گئی ہے ا س تخلیق
کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ان کواشیاء بنانے میں کسی بھی قسم کا رنگ
استعمال نہیں کیا گیا ہے ’’ ہاؤس آف بکس‘‘ کے نام سے منسوب یہ فن پارہ وینس
شہر سے اکیاسی کلومیٹر شمال میں واقع قصبے ’’تمبر دی الپاگو‘‘میں موجود
شائقین فن سے داد و تحسین سمیٹ رہا ہے ڈی مارچی اس فن پارے سے ملتے جلتے
مزید دس لکڑی کے کتاب گھر دنیا کے دس مختلف مقامات پر بنانے کا ارادہ رکھتے
ہیں جن میں سے تین کتاب گھر اٹلی، جرمنی اور جاپان میں بن چکے ہیں۔
لکڑی سے بنی قدیم ماڈل کی کاریں
سن انیس سو اٹھاسی میں ڈی مارچی کے زہن رسا اور ان کی ہنرمند انگلیوں کے
تال میل سے ایک ایسا فن پارہ تخلیق ہوا جس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی یہ
مکمل طور پر لکڑی سے بنا فن پارہ سن انیس سو سینتیس کی ’’جیگوار‘‘ کار کا
ماڈل ہے جس کا سائز اور ڈیزائن اصل کار کی ہو بہو نقل ہے اس محیر العقول
تخلیق پر جرمنی کے شہر ڈسلڈورف کی مشہور زمانہ آرٹ گیلری’’ دی کارچ ہاؤس‘‘
نے لیویوڈی مارچی کے فن پاروں کے حوالے سے ان کی انفرادی نمائش کا اہتمام
کیا جس کے بعد سے دنیا بھر میں ڈی مارچی کے ہنر کو ایک فنی اسلوب کے طور پر
تسلیم کیا جانے لگا اگلے برس انہوں نے سن انیس سو پینتیس میں متعارف کرائے
جانے والی کار ’’ فیٹ ٹوپولینا‘‘کار کا لکڑی سے ماڈل بنا یا اور ماہرین فن
سمیت سب کو ایک مرتبہ پھر اپنی صلاحیتوں سے ششدر کردیا اس تخلیق کے اعتراف
میں سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقع قدیم ڈپارٹمینٹل اسٹور’’ جیل
مولی‘‘نے طویل عرصے تک اپنے شوروم میں کار کی نمائش کی واضح رہے یہ دونوں
کاریں اس وقت امریکہ کے مشہور ٹی وی پروگرام ’’رپلی بلیو اٹ اور ناٹ ‘‘کے
متعدد عجائب گھروں میں سے فلوریڈا میں قائم سب سے قدیم عجائب گھرمیں محفوظ
ہیں فروری انیس سو ستانوے میں ڈی مارچی کی بے چین انگلیوں نے ’’مرسڈیز ‘‘
کارکاسن انیس سو چھپن کا’’سیگل‘‘ماڈل مکمل لکڑی سے بنا کر ایک مرتبہ پھر
اپنا لوہا منوایااسی طرح ڈی مارچی نے انیس سو نناوے میں منفرد جرمن گاڑی’’
واکس ویگن بیٹل‘‘ کا انیس سو چونسٹھ کا لکڑی کا ماڈل بنا کر داد وتحسین
حاصل کی دلچسپ امر یہ ہے کہ اخروٹ اور پائن کی لکڑی سے بنی اس گاڑی میں دس
ہارس پاور کی موٹر بھی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ پندرہ سو پاؤنڈ کی یہ
گاڑی نہر میں پانچ میل فی گھنٹے کی رفتار سے چلتی (تیرتی) بھی ہے سن
دوہزارمیں انہوں نے اسپورٹس کاریں بنانے والے معروف اطالوی ادارے’’ فراری‘‘
کی پچاسویں سالگرہ پر ’’ فراری ایف پچاس‘‘کا ماڈل بنا کر کمپنی کو خراج
تحسین پیش کیااور دنیا بھر سے داد سمیٹی ۔ |