پانی کی گزرگاہوں کو خالی کرنا ہوگا

بزرگوں کا ماننا ہے کہ پانی 100 سال بعد بھی اپنی گزرگاہ پر واپس آتا ہے جس کا زندہ ثبوت ہم پچھلے کئی سالوں سے دریاؤں کی تباہ کاریوں کی صورت دیکھ رہے ہیں، سوچنا پڑے گا!
فضل خالق خان (مینگورہ سوات)
ماحولیاتی تبدیلی کے تحت گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج اب کوئی مفروضہ نہیں رہا، یہ انسانیت کے وجود پر منڈلاتا ایک حقیقی اور سنگین خطرہ ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، اب یہ زمین کی ہر سانس میں، موسم کی ہر کروٹ میں، اور فطرت کے ہر انتقام میں جھلک رہا ہے۔ کہیں برف وقت سے پہلے پگھل رہی ہے، کہیں بارش وقت سے زیادہ ہو رہی ہے، اور کہیں پانی وقت پر دستیاب نہیں ہوتا اور جب دستیاب ہوجائے تو پھر سانحہ سوات اور پنجاب جیسے واقعات جنم لیتے ہیں ۔
یہ ماحولیاتی تبدیلیاں محض سائنسدانوں کے مقالوں یا عالمی سربراہی اجلاسوں کا موضوع نہیں رہیں، بلکہ اب یہ ہمارے گھروں، کھیتوں، فصلوں، سڑکوں اور شہروں کو براہ راست متاثر کر رہی ہیں۔
ہم نے قدرت سے جو بے اعتنائی برتی، اس کی قیمت اب چکانی پڑ رہی ہے۔ ندی نالوں پر، دریاؤں کی گزرگاہوں پر، برساتی پانی کے فطری راستوں پر ہم نے بے دھڑک قبضے کیے۔ سرکاری ریکارڈز میں شاملات کے نام پر زمینیں ہتھیائیں، ان پر کمرشل پلازے بنائے، ہاؤسنگ سوسائٹیز کھڑی کیں، فیکٹریاں لگائیں اور سمجھا کہ ہم نے فطرت کو شکست دے دی ہے۔
لیکن یہ ہماری بھول تھی۔
ہم بھول گئے کہ پانی نہ کمزور ہے، نہ خاموش۔
پانی طاقتور بھی ہے، صابر بھی، اور ناقابلِ فراموش بھی۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پانی اپنی زمین کبھی نہیں بھولتا۔
جب پانی واپس آتا ہے تو کسی نوٹس یا وارننگ کے بغیر آتا ہے۔ وہ ہمارے بنائے گئے قانون، تجاوزات، ناجائز تعمیرات، اور حفاظتی بندوں کو روندتا ہوا آتا ہے۔ وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بہا لے جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی جگہ، اپنا حق اور اپنا راستہ واپس لینے آتا ہے، فطرت جب اپنا حق مانگتی ہے تو وہ معافی کا کوئی موقع نہیں دیتی۔
یہ المیہ صرف جغرافیائی یا انتظامی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی سوچ کا دیوالیہ پن بھی ہے۔ ہم سال کے آدھے مہینے پانی سے لڑتے ہیں۔ سیلاب آ جائے تو شور مچاتے ہیں، نالے صاف کرتے ہیں، امدادی فنڈز بانٹتے ہیں، اور بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں۔ پھر وہی نالے بند ہو جاتے ہیں، وہی تعمیرات دوبارہ ہو جاتی ہیں، اور پھر جب خشک سالی آتی ہے تو پانی کی ایک بوند کو ترس جاتے ہیں۔
ہماری بدانتظامی، بدنیتی، اور بے حسی نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اب ہم صرف ردعمل دکھاتے ہیں، پیشگی منصوبہ بندی کرنا جیسے ہمیں زیب ہی نہیں دیتا۔ اگر ہماری وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں کسی نئے بجٹ، کسی نئے فنڈ یا کسی نئی پالیسی کی ضرورت نہیں۔
انہیں صرف انگریز کے بنائے ہوئے پرانے ریوینیو ریکارڈز کو نکال کر دیکھنا ہوگا ۔ وہ ریکارڈ صاف بتاتے ہیں کہ کون سی زمین پانی کے راستے میں آتی ہے، کہاں برساتی نالے تھے، اور کہاں پرانی گزرگاہیں تھیں۔ ان ریکارڈز کو سامنے لا کر اگر آج ہم فیصلے کر لیں، تو آنے والے کئی سانحات سے بچا جا سکتا ہے۔
قوم کے پاس اب صرف ایک ہی آپشن ہے:
پانی کے فطری راستے فوری خالی کیے جائیں۔ ان راستوں پر کی گئی ہر تعمیر، ہر قبضہ، ہر تجاوز، خواہ وہ کسی وزیر کا ہو یا کسی بااثر صنعتکار کا، فوری ختم کیا جائے۔
جہاں ممکن ہو وہاں چھوٹے اور درمیانے ڈیمز بنائے جائیں۔ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بارانی ذخائر، واٹر ریچارج پوائنٹس، اور جدید واٹر مینجمنٹ سسٹمز پر فوری کام شروع کیا جائے کیونکہ یہ صرف ماحولیاتی معاملہ نہیں یہ ہماری بقا، معیشت، زراعت، خوراک اور زندگی کا مسئلہ ہے۔
اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، اگر ہم نے فطرت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے مزید ضربیں لگائیں، تو وہ دن دور نہیں جب نہ زمین ہمارے کام آئے گی، نہ آسمان اور پانی؟
وہ ہمیں ہماری ہی زمین پر ایک بوند کے لیے ترسائے گا، اور ہم صرف ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
اب بھی وقت ہے۔
آئیے قدرت کے ساتھ تصادم کے بجائے تعاون کا راستہ اپنائیں۔
پانی کو اس کا حق واپس دیں کیونکہ اگر ہم نے پانی کو عزت نہ دی، تو وہ ہمیں زندگی کی عزت کرنا بھلا دے گا۔

 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 141 Articles with 85150 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.