تھامس فلر! غلامی کی زنجیروں میں آزاد ذہن کا مالک
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ایک ایسا شخص جس کی ذہنی آزادی کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کر سکا، دنیا اسے "ورجینیا کالکولیٹر" کے نام سے جانتی ہے ۔ |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) تاریخ میں کچھ لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کی حدود و قیود، تعصبات اور غلامی جیسے انسانیت سوز نظام کے باوجود اپنی فطری ذہانت سے دنیا کو حیران کر دیا۔ انہی نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک نام تھامس فلر کا ہے، جسے دنیا "ورجینیا کیلکولیٹر" کے نام سے بھی جانتی ہے۔ تھامس فلر کا تعلق مغربی افریقہ سے تھا، جہاں وہ 1710 کے قریب پیدا ہوا۔ اُس وقت افریقی خطے میں غلاموں کی تجارت عروج پر تھی، اور 1724 میں صرف 14 سال کی عمر میں اُسے اغوا کر کے غلام بنا دیا گیا اور امریکا کی ریاست ورجینیا پہنچا دیا گیا۔ ایک بے زبان غلام کی حیثیت سے اُس کی زندگی سخت مشقت میں گزری، مگر اُس کا دماغ کسی حیرت انگیز کمپیوٹر سے کم نہ تھا۔ تھامس فلر کبھی اسکول نہیں گیا، نہ ہی اُس نے باضابطہ تعلیم حاصل کی، مگر اُس کے ذہن میں ریاضی کی ایسی قوت تھی کہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ افراد بھی اس پر رشک کرتے تھے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار اُس سے پوچھا گیا کہ ڈیڑھ سال میں کتنے سیکنڈ ہوتے ہیں؟ اس نے صرف دو منٹ میں درست جواب دیا: 47,304,000 سیکنڈ۔ پھر اس سے ایک اور پیچیدہ سوال کیا گیا "ایک انسان جس کی عمر 70 سال، 17 دن اور 12 گھنٹے ہو، وہ کتنے سیکنڈ جی چکا ہے؟" فلر نے تھوڑے ہی وقت میں جواب دیا: 2,210,500,800 سیکنڈ۔ جب شک ظاہر کیا گیا تو اس نے وضاحت دی کہ اس نے لیپ ایئر (Leap Year) کو بھی شامل کیا ہے اور حقیقتاً اس کا جواب درست تھا! فلر کی صلاحیتوں نے نہ صرف عام لوگوں کو متاثر کیا بلکہ سائنسدان، ریاضی دان اور غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے والے افراد بھی اُس کے مداح بن گئے۔ 1790 میں امریکی "کولمبین میگزین" میں اُن کے کارناموں پر ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ دو نمایاں افراد ولیم ہارٹشورن اور سیموئل کوٹس نے ان سے براہِ راست ملاقات کی اور ان کے جوابات کو جانچ کر مستند قرار دیا۔ فلر کی زندگی غلامی کے اندھیروں میں گزری، مگر اُس کا دماغ علم کی روشنی سے لبریز تھا۔ اُس کی زندگی اس سچائی کی علامت بن گئی کہ ذہانت اور قابلیت رنگ، نسل، یا تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس کی ذہانت نے غلامی کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو بھی تقویت دی اور یہ ثابت کیا کہ غلامی صرف جسموں کو جکڑ سکتی ہے، ذہنوں کو نہیں۔ تھامس فلر آج بھی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ علم، فہم اور عقل انسان کی فطری دولت ہیں، اور ان کی قدر کرنا معاشروں کی ترقی کی کنجی ہے۔ فلر نے نہ صرف غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کے باوجود تاریخ میں اپنا نام رقم کیا بلکہ دنیا کو یہ سبق بھی دیا کہ "ظرف چھوٹا ہو تو سمندر بھی سمانے سے انکار کر دیتا ہے، اور اگر ظرف وسیع ہو تو غلام بھی دماغی شہنشاہ بن جاتا ہے۔" تھامس فلر ایک غلام تھا، مگر اس کا ذہن آزاد تھا ایسا ذہن جو آج بھی انسانیت، تعلیم اور مساوات کے لیے ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ |
|