نیلسن منڈیلا ہو یا قائد اعظم

نیلسن منڈیلا جیسے بیٹے پیدا کرنے والی مائیں کتنی عظیم ہوتی ہیں۔یقین کریں آج جب نیلسن منڈیلا کو دفن کرنے کی آخری رسومات جاری ہیں تو دل میں ایسی قدامت پسند شخصیت کے بچھڑنے کے دکھ کے ساتھ ساتھ رشک والی حسن ضرور نمودار ہوتی ہے۔نیلسن روہیلا منڈیلا، (پیدائش: 18 جولائی 1918ء، جائے پیدائش و تدفین ترانسکی، جنوبی افریقہ) جنوبی افریقہ کے سابق اور پہلے جمہوری منتخب صدر ہیں جو 99-1994 تک منتخب رہے۔ صدر منتخب ہونے سے پہلے تک نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے کٹر مخالف اور افریقی نیشنل کانگریس کی فوجی ٹکڑی کے سربراہ بھی رہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں سے برتے جانے والے نسلی امتیاز کے خلاف انھوں نے تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور جنوبی افریقہ کی عدالتوں نے ان کو مختلف جرائم جیسے توڑ پھوڑ، سول نافرمانی، نقص امن اور دوسرے جرائم کی پاداش میں قید با مشقت کی سزا سنائی۔دوران قید نیلسن منڈیلا کوکئی دفعہ بہت بڑی ذہنی و جسمانی اذیتوں سے گزرنا پڑا لیکن نیلسن منڈیلا نے عوامی محبت کو سینے سے لگائے رکھا اور جہد مسلسل میں مصروف عمل رہے۔ نیلسن منڈیلا اسی تحریک کے دوران لگائے جانے والے الزامات کی پاداش میں تقریباً 27 سال پابند سلاسل رہے، انھیں جزیرہ رابن پر قید رکھا گیا۔ 11 فروری 1990ء کو جب وہ رہا ہوئے تو انھوں نے پر تشدد تحریک کو خیر باد کہہ کہ مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس کی بنیاد پر جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کو سمجھنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔

نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کے خاتمے کے بعد نیلسن منڈیلا کی تمام دنیا میں پذیرائی ہوئی جس میں ان کے مخالفین بھی شامل تھے۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کو ‘‘ماڈیبا‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو منڈیلا خاندان کے لیے اعزازی خطاب ہے۔جیل کا وہ کمرہ جہاں نیلسن منڈیلا 27 سال قید رہے،آج نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ اور تمام دنیا میں ایک تحریک کا نام ہے جو اپنے طور پر بہتری کی آواز اٹھانے میں مشہور ہے۔ نیلسن منڈیلا کو ان کی چار دہائیوں پر مشتمل تحریک و خدمات کی بنیاد پر 250 سے زائد انعامات سے نوازا گیا جن میں سب سے قابل ذکر 1993ء کا نوبل انعام برائے امن ہے۔ نومبر 2009ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 جولائی (نیلسن منڈیلا کا تاریخ پیدائش) کو نیلسن منڈیلا کی دنیا میں امن و آزادی کے پرچار کے صلے میں ‘‘یوم منڈیلا‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔جنوبی افریقہ میں اتنی بڑی تحریک کے بانی کے اس جہان فانی سے جانے کے بعد بھی ساری دنیا کو یقین محکم ہے کہ کوئی مائی کا لال اب ساؤتھ افریقہ میں نسلی امتیاز نہیں پھیلائے گا۔ 5 دسمبر 2013 کو وفات پائی ۔ان کی وفات پر پوری دنیا میں سوگ کا ماحول برپا ہوا ،علاوہ ازیں کئی صاحب عمل لوگ ان کی وفات سے پُرنم ہوئے۔

ضروری نہیں کہ ساری دنیا کے سارے انسان نیلسن میڈیلا بن جائیں مگر یہ بہت ضروری ہے کہ ساری دنیا کے سارے لوگوں میں سے کچھ لوگ نیلسن منڈیلا کی طرح عوامی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی عوام،اپنے ملک اور اپنی زمین کے لئے بے لوث جدو جہد کریں۔جنوبی افریقہ میں وسائل کی کمی نہیں،یہی وجہ سے کہ نیلسن منڈیلا کی کامیاب تحریک کے دورس نتائج نکلے اور آج جنوبی افریقہ کے عوام اور وہاں پر بسنے والے تمام افراد زندگی کی تمام رونقوں کو یکساں انجوائے کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک کے تما م حکومتی و اپوزیشن ارکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف نیلسن منڈیلا کی سیاسی و سماجی جدوجہدانہ زندگی سے سبق سیکھیں بلکہ پاکستانی عوام کے لئے اپنا تن من دھن تک لگانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔علاوہ ازیں عوام پر بھی یہ لاگو ہوتا ہے کہ وہ بھی نہ صرف ملک و قوم کے وفاداربن کر زندگی گزاریں بلکہ ملک و قوم دشمن عناصر کی سرکوبی کرنے میں اتفاق رائے کا مظاہرہ کریں۔ آج جب ہمیں دسمبر کے اس مہینے میں بنگلہ دیش کی طرف سے بھی نفرت کی ایک بہت بڑی جھلک دکھائی دی ہے کہ انہوں نے بنگلہ میں جماعت اسلامی کے ایک بزرگ ملا عبدالقادر کو محض پاکستان اور پاکستانی عوام سے وفاداری کی بنا پر پھانسی دے دی ہے۔علاوہ ازیں آج کی خبروں کے مطابق بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا میں سینکڑوں بنگالیوں نے پاکستانی سفارتخانے کے باہر مظاہرہ کیا، مظاہرین اور پولیس میں جھڑپوں سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔ بنگالی سیاستدانوں نے پاکستان سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔اب دیکھیں کل کا پاکستان کا بچہ آج اپنے باپ یعنی پاکستان کو ہی آنکھیں نکال رہا ہے۔سوچا جائے تو اگر ہمارے اس وقت کے حکمران دوراندیش ہوتے تو نہ بنگلہ دیش ٹوٹتا اور نہ آج ہمیں رسوائی کا سامنا ہوتا۔ایسا نہ ہوتا تو شاید پاکستان اوربنگلہ دیش کے سارے مسلمان مل کر اس ملک کی بنیادیں مضبوط کرتے بلکہ ہندوستان تک ہمارے جوتے کی نوک پر رہتا۔

ہم سب کے لئے بہت ضروری ہے کہ ہم ایک ملک یکجا ہو کر اس ملک کی خدمت کریں۔یقین کریں یا نہ کریں اگر خدانخواستہ ہم سب نے اس حکومت کو اس حکومت نے ملک کو سپورٹ نہ کیا تو ملک کے حالات قابل کنٹرول نہیں ہونگے۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مشرف کا دور حکومت ناکامی اور لوٹ مار کا زمانہ تھا۔اس کے بعد کی کسر پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں پوری کی گئی۔ہمیں موجودہ حکومت اور اس سے منسلک مخلصانہ قیادت جیسی بہترین قیادت ملنے کی ہر گز دور دور تک کوئی توقع نظر نہیں آتی۔اب بھی وقت ہے کہ ہمارے تمام ارکان اسمبلی،عوام،انتظامیہ،مقننہ اور جرنلسٹ ملکر ایک قومی یکجہتی والا بہترین ماحول پیدا کریں تاکہ ہمارے ملک کے کونے کونے میں خوشحالی کے دروازے کھلیں۔ہم سب کو دفاتر،گھروں اور گلی محلوں میں قوم و ملک کے لئے ایمانداری کا عملی مظاہرہ دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔

گیس کی شارٹیج سے ہر پاکستانی متاثر ہوا ہے ۔اس کے لئے ایران سے گیس لینے جیسے معاملات یا کوئی اور متبادل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ گیس نہ ہونے سے عوام کو مہنگی ٹرانسپورٹ اور گیس سے منسلک افراد کو بے روزگاری کا سامنا ہے۔موجودہ حکومت سے بہتری کی بہت زیادہ توقعات ہیں ورنہ تو ہمارے ملک میں میرا جیسے سٹار بھی ہیں جن کو اتنا ضرور پتہ ہے کہ قومی ترانہ علامہ اقبال نے لکھا اور سوچا تھا۔ہماری اپوزیشن ’’تماشہ ‘‘ کا لفظ سن کر اپنی بے عزتی محسوس کرتی ہے اور پھر بھی ’’تماشہ‘‘ لگانے سے باز نہیں آتی،حالانکہ ان کے بائیکاٹ سے عوام کو لاکھوں روپیہ ضائع ہوتا ہے۔سب ملک کر دعا کرو اور کوشش کرو کہ یہاں کئی قائداعظم اور کئی نیلسن منڈیلا جنم لیں تاکہ ہماری نئی نسل کامیاب ،خوشحال اور زور آور ہو۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 66263 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.