خاص 18 دسمبر
رئیس الاحرار چودھری غلام عباس:۔۔۔!
سپریم ہیڈ آزاد کشمیر
حرمــت لفظ٭ سید بشیر حسین جعفری
18 دسمبر کو راولپنڈی فیض آباد میں کشمیری راہنما رئیس الاحرار چودھری غلام
عباسؒ کی چھیالیسویں برسی منائی جا رہی ہے۔ برسی کے انتظامات حکومت آزاد
ریاست جموں وکشمیر نے سنبھالے ہیں ہر سال 18 دسمبر کو برسی کا اہتمام کیا
جاتا ہے۔ صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان سابق وزیر
اعظم نے عمومی انتظامات سنبھال رکھے ہیں۔
1947 ء میں قیام پاکستان کے موقعہ پر ریاست جموں وکشمیر میں دو بڑے اعلی
تعلیم یافتہ مسلمان لیڈر تھے۔ شیخ محمد عبداﷲ اور چوہدری غلام عباسؒ ۔ اول
الذکر کا تعلق وادیٔ کشمیر سے تھا جب کہ ثانی الذکر کا تعلق صوبہ جموں سے
اور یہ دونوں شخصیات 1931 ء کی تحریک آزادی کشمیر کے دور میں اکھٹی اُبھری
تھیں۔ ان کے علاوہ روحانی ، سیاسی حوالے سے میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہؒ
کو بھی بڑا مقام حاصل تھا ۔ جب 1932 میں آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس کا
قیام عمل میں لایا گیا تا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت جو مسلمانوں پر
مظالم ڈھا رہی تھی اُس کے آگے دیوار بن کر مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑی
جائے۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر شیخ محمد عبداﷲ کھڑے اور سیکرٹری
جنرل کا عہدہ چودھری غلام عباس کو دیا گیا جو جموں کے ایک معزز خاندان کے
اعلی تعلیم یافتہ فرزند اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔
1937-38 ء میں شیخ محمد عبدا ﷲ کا رجحان آل انڈیا کانگرس اور اس کے لیڈر
پنڈت جواہر لعل نہرو کی طرف ہوا۔ ’’مسلم‘‘کے بجائے نیشنلزم کا نعرہ شیخ
صاحب کو پسندٹھہرا چنانچہ 1938 ء میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا نام
بدل کرــــ’’ نیشنل کانفرنس‘‘ کر دیا گیا، با امر مجبوری یا رواداری چودھری
غلام عباسؒ اور ان کے خاص ساتھی بھی چپ رہے۔ البتہ اس سے قبل بڑی اہم بات
یہ ہوئی کہ 1934 ء میں انتخابات اسمبلی کے دوران میں مسلم کانفرنس نے
جماعتی طور پر حصہ لیا ور 21 میں سے 19 نشستیں (Seats) حاصل کر کے ریاست
میں ناموری پائی۔ تاریخ کے اگلے موڑ پر 23 مارچ 1940 کو جب لاہور میں آل
انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا تو مسلم کانفرنس کا وجود نہ تھا مگر ریاست
جموں و کشمیر کے کچھ سیاستدان اپنے طور پر اس اجلاس میں شامل ہوئے تھے۔
1942 ء میں پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ وطن کے مطالبات سامنے آگئے اور
1944ء کے تقریباً پہلے نصف میں قائد اعظم ؒ کو شیخ محمد عبداﷲ اور چودھری
غلام عباسؒ دونوں نے ریاست جموں وکشمیر کے دورہ کی دعوت دی ، جموں و کشمیر
میں قائد اعظم ؒ کا استقبال ہوا ، سری نگر میں بہت بڑا جلوس نکالا گیا ،جلسہ
ہوا اور قائد اعظم نے شیخ محمد عبداﷲ کی نسبت کہیں زیادہ چودھری غلام عباس
کو اپنے قریب پایا اور فرمایا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ، انڈیا میں جو تحریک
آزادی چلا رہی ہے ریاست جموں وکشمیر میں یہ کام آل جموں و کشمیر مسلم
کانفرنس کر رہی ہے۔
یہی وہ مرحلہ تھا کہ شیخ محمد عبداﷲ نے قیام پاکستان کی تحریک کی مخالفت
میں پنڈت جواہر لعل نہرو سے اپنے مستقبل کو وابستہ کر لیا جس کا بڑا نقصان
1947 ، 1948ء ہمارے جنگ آزادی کشمیر یا کشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے کی
تحریک( Cause) کو ہوا۔ ان معاملات پر آج کل ’’قوم پرست‘‘تبصرے کر رہے ہیں
مگر اُس دور کے حالات میں جو کچھ کیا گیا عین ضروری تھا۔
وسط 1946 میں چوہدری غلام عباسؒ کو ایک معمولی سی سیاسی جدوجہد کے سلسلہ
میں جیل بھیج دیا گیا حالانکہ قیام پاکستان کے اس مرحلے پر آپ جیل سے باہر
ہوتے تو حالات ہمارے لئے سازگار ہوتے۔
مارچ 1948 ء میں جب جنگ آزادیٔ کشمیر زوروں پر تھی ، مجاہدین آزادی نے بے
سروسامانی کی باوجود ریاست جموں و کشمیر کے خاصے حصہ پر قبضہ کر لیا تھا(
جو بعد میں انڈین آرمی نے چھین لیا) تو جموں جیل سے چودھری غلام عباسؒ کو
آزاد کیا گیا ، کشمیر میں شیخ محمد عبداﷲ کی حکمرانی کا یہ دور تھا ۔ رئیس
الاحرار نے سیالکوٹ میں پاکستانی زمین کو چوما شکرانے کے نوافل ادا کئے اور
قائد اعظم ؒ سے ملاقات کرنے کراچی جا پہنچے ! جیسا کہ ہم جانتے ہیں قائد
اعظم ؒ گورنر جنرل پاکستان اور خان لیاقت علی خان تب وزیر اعظم تھے۔
قائداعظمؒ با اصول اورDisciplined شخصیت تھے مگر رئیس الاحرار چودھری غلام
عباس جب گورنر جنرل ہاؤس کراچی پہنچے قائد اعظم ؒ کو اطلاع دی گئی... تو فر
جذبات اور کشمیر سے اپنی محبت اور تعلق کی خاطر آپ نے اپنی نشست چھوڑ کر
ذرا آگے بڑھ کر چودھری غلام عباسؒ کو گلے لگایا، پکڑ کر ساتھ لے گئے ، اپنی
نشست کے قریب بٹھایا باتیں کیں اور آرڈر کیا کہ چودھری غلام عباس ریاست
آزاد جموں و کشمیر کے حوالے سے سپریم ہیڈ ہیں۔ آپ یہاں حکومتیں بنانے یا
ہٹانے کے پورے اختیارات رکھیں گے۔ تب وزیر امور کشمیر جناب مُشتاق احمد
گورمانی تھے۔
ادھر آزاد کشمیر میں 24 اکتوبر 1947 ء سے غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان
کی حکومت تھی سردار صاحب کی حکومت 1947-50 ء کے درمیان ختم ہوئی تو چودھری
صاحب نے اسی حکومت میں وزیر دفاع کیپٹن جنرل سید علی احمد شاہ کو صدر حکومت
بنا دیا ، سردار محمد ابراہیم خان اس پر ناراض ہوئے اسی طرح بعد میں مسلم
کانفرنس کے سپریم ہیڈ نے 1955 ء میں پلندری کے کرنل شیر احمد خان (سابق
تھرڈ سدھن بریگیڈ کے کمانڈر) کو صدر آزاد کشمیر بنایا تو بھی خاصی شورش بپا
ہوئی ،ادھر سردار محمد ابراہیم خان نے آزاد مسلم کانفرنس متوازی سطح پر
بنائی ! چوہدری غلام عباسؒ کا جھکاؤ ، تعاون سردار محمد عبدالقیوم خان کی
طر ف تھا جو 1947 ء کی جنگ آزادی کے دوران میں باگ سے دو بریگیڈ فوج (اب اے
کے رجمنٹ) تیار کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جنگ آزادی کشمیر کے خاتمہ کے بعد
مظفرآباد کا ’’تخت‘‘ حاصل کرنا رہ گیا۔ 1970 میں پاکستان اور آزاد کشمیر
میں جنرل آغا محمد یحیٰ خان صدر پاکستان کے دور میں قومی، صوبائی اسمبلیوں
کے لئے انتخابات ہوئے تھے۔ آزاد کشمیر میں جماعتی بنیاد پر مسلم کانفرنس کے
سردار محمد عبدالقیوم خان ، جموں و کشمیر لبریشن لیگ کے مسٹر کے ایچ خورشید
اور آزاد کشمیر سے آزاد مسلم کانفرنس کے سردار محمد ابراہیم خان میدان میں
اترے مگر چودھری غلام عباس کی وفات (18 دسمبر1967 ) کے بعد بھی اس جماعت کا
پلڑا بھار رہا۔ سردار صاحب نے 12 نومبر 1970ء کو صدر آزاد کشمیر کا حلف
اُٹھایا تھا۔
اس محدود کالم میں تنی گنجائش کہاں کہ میں رئیس الاحرار چودھری غلام عباس
کی زندگی تاریخ اور مسلم کانفرنس کو سمیٹ سکوں ، اس موضوع پر کم از کم درجن
کتب آزاد کشمیر میں شائع ہو چکیں ان سب میں مستند کتاب جو ڈاکٹر محمد سرور
عباسی کے پی ایچ ڈی تھیسس Thesis اور نام ’’کشمیر ی مسلمانون کی جدوجہد
آزادی‘‘ یہ قابل مطالعہ ہے۔آزاد کشمیر یونیورسٹی مظفرآباد کے انسٹی ٹیوٹ آف
کشمیر سٹڈی میں چودھری غلام عباسی چیئرChair موجود ہے جس کے ایڈوائزر کی
حیثیت میں راقم نے 07 ستمبر 2007 ء سے لیکر 30 مئی 2011 ء تک چار سال آن
کنٹریکٹ خدمات انجام دی ہیں۔
چودھری غلام عباسؒ ذاتی طور پر ایک متقی ، نیک ، خاموش طبع، عبادت گزار
انسان تھے۔ ’’نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو‘‘ کے مصداق ، جب آپ گرمیوں میں
دھیرکوٹ کے ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام کرتے تو لوگ ان سے ملتے تھے ، راقم کو
بھی 1962 کے لگ بھگ یہ موقعہ ملا تھا اور بہت بعد میں 2010 ء میں بھی اس
گیسٹ ہاؤس میں کچھ دن قیام رہا۔ میں نے یہ درو دیوار چودھری صاحب مرحوم کے
خوابوں سے دیکھے!
راولپنڈی کے اب بے نظیر ہسپتال میں دسمبر 1967 میں آپ بیمار تھے ، راقم اُن
دنوں یہاں اپنے مکان کی تعمیر کر رہا تھا شام 4، 5 بجے ہسپتال پہنچتا ان کی
عیادت کرتا۔ کشمیری زعماء یہاں باہر گارڈن میں بنچوں پر بیٹھے دیکھے جاتے۔
ملاحظہ ہو کہ چودھری غلام عباس کو قبر کی جگہ پاکستان اور کشمیر کے حوالے
سے فیض آباد میں نصیب ہوئی اس کے لئے انجمن فیض الاسلام کے بانی جناب حیات
بخش مرحوم کو اﷲ اجر دے ! چودھری غلام عباس بڑے دلیر سیاستدان تھے۔ پاکستان
سے اگر اصولوں پر جنگ کرنا پڑی ہتھیار نہیں ڈالتے تھے۔ افسوس کہ غازی ملت
سردار محمد ابراہیم خان اور چودھری غلام عباس جیسے عظیم لیڈر بوجوہ مل کر
کشمیر کے حوالہ سے کوئی بڑا کام سر انجام دینے سے محروم رہے مگر میدان
سیاست ، تاریخ اسلام میں کوئی اچھی روایت نہ چھوڑ سکا۔ |