میں اکثر لکھتا ہوں کہ
پاکستان میرے ایمان کا حصہ ہے۔جب میں یہ لفظ لکھ رہا ہوتا ہوں تو میں ایک
ناقابلِ بیان جذبے سے سر شار ہوتا ہوں۔میں پہلے بھی لکھتا رہا ہوں کہ
پاکستان مجھے ریاستِ مدینہ کا تسلسل لگتی ہے۔وہ اسلام کے نام پہ بننے والی
پہلی ریاست تھی اور پاکستان دوسری۔ میں نے بارہا یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں سے
میرے آقا ﷺ کو ٹھنڈی ہوائیں آیا کرتی تھیں۔ مکہ سے ہجرت کرتے وقت کیا کیا
ستم تھے جو سرورِ دو جہاں ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ روا نہ رکھے گئے۔سنگ
زنی،تہمتیں،راہ میں کانٹے اور گلے میں رسی۔ساتھیوں کو مار پیٹ طعن و تشنیع
انہیں گرم ریت پہ لٹانا،ان کی جانیں تک لینا۔اسلام کے نام پہ بننے والی
دوسری ریاست بننے سے پہلے کے حالات یاد کریں تو آپ کو ایک عظیم مماثلت نظر
آئے گی۔شودر تو پھر بھی کسی شمار و قطار میں آتے ہیں۔بھارت کا ہندو انہیں
ملیچھ سمجھتا تھا۔ہندو پانی اور مسلمان پانی کیا انسانیت کی تذلیل نہ
تھی۔یہ غلام ہندوستان کا روزمرہ تھا۔
ہم نے اپنی حرارت ایمانی اور اپنی قیادت کی حسنِ نیت اور خلوص کی بنیاد پہ
آزادی حاصل کر لی۔صرف انگریز سے نہیں ہندو سے بھی۔بد قسمتی یہ ہوئی کہ
آزادی کے فوراََ بعد ہی ہم بحیثیت قوم یتیم ہو گئے۔قحط الرجال کا شکار۔پھر
ہماری تربیت بالکل ویسے ہی ہوئی جیسے آک کل کے کسی نوزائیدہ یتیم کی ہوتی
ہے۔جہاں سے ملا کھا لیا جو ملا پہن لیا۔ غربت تہذیب کے آداب کہاں یاد رکھنے
دیتی ہے۔غربت غیرت کی قاتل ہے۔یتیمی زمانے بھر کے دکھ تکلیفیں مصیبتیں اور
کلفتیں ساتھ لاتی ہے۔یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔اقبال تو پہلے ہی داغِ مفارقت
دے گئے تھے۔قوم ابھی پالنے ہی میں تھی کہ بابائے قوم بھی رخصت ہوئے۔ہماری
سمت ہی متعین نہ ہو سکی۔لیاقت علی آخری نشانی تھے جنہوں نے قائد کے زیر
سایہ کام کیا تھا۔جب انہیں بھی شہادت کے درجہ پہ فائز کر دیا گیا تو جانئیے
کہ طالع آزماﺅں کی چاندی ہو گئی۔وہ وہ نمونے اور لطیفے اس ملک پہ مسلط ہوئے
کہ آج ان کی حرکتیں اور حالات پڑھ کے افسوس بھی ہوتا ہے اور اپنی بے بسی پہ
ہنسی بھی آتی ہے۔ قائد کو تو اپنے ساتھیوں میں بھی کھوٹے سکوں سے گلہ
تھا۔ان کے بعد جو آئے وہ تو سرے سے سکے تھے ہی نہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ٹوٹ گیا۔نہ صرف ملک ٹوٹا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم
ریاست کے دو ٹکڑے ہو گئے۔اسی ریاست کی فوج سالہا سال تک دشمن کے کیمپوں میں
پڑی رہی۔ہم آج تک یہی فیصلہ نہیں کر پائے کہ غلطی کہاں ہوئی۔قصور وار کون
تھا۔ہم اس کا الزام بھارت کو دے کے اطمینان کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔اندرا
گاندھی تو دشمن تھی۔دو قومی نظرئیے کی مخالف۔اس کا تو فرض بنتا تھا کہ وہ
اپنے کاز کے لئے کام کرے۔اس سے کیا گلہ لیکن کیا غلطیوں سے سبق نہیں سیکھنا
چاہیے؟کیا ہی اچھا ہوتا کہ بعد کی کوئی حکومت کوئی ایسا ادارہ قائم کرتی جو
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتا۔ حمود الرحمن کمیشن بنا تو ضرورلیکن
اس کی رپورٹ آج بھی حکومت کی طرف سے جاری نہیں ہوئی۔سیاستدان کہتے رہے یہ
فوج کی ناکامی ہے جبکہ فوج سارا ملبہ سیاست دانوں پہ ڈالتی رہی۔ملک ٹوٹ گیا
لیکن کسی ذمہ دار کو سزا نہ مل سکی۔وقت کے پلوں سے بہت سا پانی بہہ گیا
ہے۔بہت سے ذمہ دار حساب دینے اب اللہ میاں کے پاس ہیں لیکن تاریخ کو درست
کرنے ہی کو سہی قوم کو بتا تو دیا جائے کہ گناہ کس کا تھا اور قصور وار کون
تھا۔ذمہ دار پہچان لئے جائیں تو آئندہ ہمیں ملک توڑنے میں کسی حصہ دار کو
قومی پرچم میں لپیٹ کے گاڑنا نہیں پڑے گانہ ہی کوئی غدار اپنا مزار بنوا کے
لوگوں کو بے وقوف بنا سکے گا۔نہ کسی کو گارڈ آف آنر دے کے رخصت کرنا پڑے گا
اور نہ کوئی منصف ریٹائر ہونے کے بعد بلٹ پروف گاڑی مانگے گا۔
نواز شریف بھلے ہی اللہ کے ساتھ کھلی جنگ کریں۔سود پہ قرض دے کے معاشی
انقلاب کے خواب دیکھیں۔شراب سے وضو کر کے ثواب کی امیدرکھیں۔عمران الیکشن
میں دھاندلی اور مہنگائی کے خلاف بھلے جلسے جلوس نکالیں ۔جماعت اسلامی بھلے
ہی طالبان کی حمایت کرتی رہے اور پیپلز پارٹی بھلے پچھا کچھا بھی کھا جائے
لیکن اگر میرے ملک کے سارے سیاست دان اس خبر کو پڑھ کے کوئی سبق سیکھ لیں
تو امید کی جاسکتی ہے کہ کبھی نہ کبھی ہماری حالت ضرور سدھر جائے گی۔ یاد
رہے کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔اس کے وسائل بھی زیادہ ہیں اور وہ ہم جیسے
کرپٹ بھی نہیں۔اس کے باوجود میں کبھی ان سے متائثر نہیں ہوا۔آج کی خبر نے
البتہ میرا حوصلہ توڑ دیا ہے۔وہ جو ہمارا شعار ہونا چاہیے تھا جو کبھی
ہمارا خاصہ تھا آج ان کے ہاں موجود ہے اور ہمارے ہاں عنقا۔پچھلے دنوں بھارت
کی ایک خاتون سفارتکار کو امریکہ نے اپنے ایک ملازم کے ویزے کے لئے جعل
سازی کے الزام میں گرفتار کیا اور پھر رہا کر دیا۔اس گرفتاری پہ بھارت کے
حکمران اور حزب اختلاف یوں اکٹھے ہوئے کہ انہوں نے متفقہ طور پر بھارت کے
دورے پہ آئے امریکی وفد سے ملنے سے انکار کر دیا۔اس انکار میں راہول گاندھی
اور نریندر مودی دونوں برابر کے شریک ہیں۔کیا ایسا کبھی میرے وطن میں بھی
ہو پائے گا؟
ہمارے ساتھ کوئی کچھ بھی کر لے۔ہمارے ملک پہ حملہ آور ہو جائے۔ گھر آ کے
ہمارے بندے مار دے۔ہم سے مزدوری کروا کے پیسے دینے سے مکر جائے ہم غریب
بیوہ اور یتیم بچے کی مانند پھر بھی اسی کے در دولت پہ حاضر رہتے ہیں۔کیا
ہمارے لیڈر بھی متفق ہو کے اس طرح کا کوئی کمال کبھی کر پائیں گے۔یا ہم یہی
سمجھیں کہ۔۔۔ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھرسے! |