شمالی وزیرستان میں آپریشن

ہماری روایتی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم رائی کو اپنے سامنے رائی کو پہاڑ بنتے دیکھتے رہتے ہیں اور جب وہ پہاڑ بن کے سارے راستے مسدود کر دیتی ہے تو ہم اسے سر کرنے کی سر توڑ کوششیں شروع کرتے ہیں جس کا نتیجہ سوائے سر ٹوٹنے کے اور کچھ نہیں نکلتا۔پاکستان کی تاریخ ایسی سنہری مثالوں اور کارناموں سے بھری پڑی ہے۔انہی حرکتوں کی وجہ سے ہم نے اپنا آدھا ملک گنوا دیا باقی کا آدھا اب مزید آدھا ہونے کی راپ پہ گامزن ہے اور ہم ہیں کہ خوابِ غفلت ہی سے بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ہماری معاشرت تباہ ہو چکی۔ ہم قوم سے گروہوں میں بٹ چکے ہیں اور یہ گروہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ہماری معیشت اور کشکول ہم معنیٰ ہو گئے ہیں۔ ہماری صنعت تباہ ہو چکی کہ پہیہ چلانے کے لئے ہمارے پاس ایندھن ہی نہیں۔ہماری بد عملی ہمیں تباہی کے دہانے پہ لا چکی لیکن ہم ہیں کہ خواب ِ غفلت سے بیدار ہونے کو تیار نہیں۔کوئی توجہ دلائے تو ہم اسے دیوانہ مشہور کر دیتے ہیں۔طاہر القادری غریب چیختا رہ گیا کہ یہ الیکشن نہیں قوم کے ساتھ فراڈ ہونے جا رہا ہے لیکن ہم نے اسے پروپیگنڈے کے طوفان میں دفن کر دیا ۔کیا حکمت مومن کی گم شدہ میراث نہیں لیکن کیا ہم واقعی مومن ہیں؟

مومن تو ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا جبکہ ہم تو اس سے قبل ایک ہی سوراخ سے ہزاروں بار ڈسے گئے۔اس کے باوجود ہم اس سوراخ سے انگلی باہر نکالنے کو تیار نہیں۔امن و امان ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ہم امریکہ کے دوست ہیں اور موجود دنیا میں اس سے بڑی بد دعا کوئی نہیں۔ ایک ایسا عالمی نو سر باز جو اپنے مطلب کے لئے ہمیشہ ہی آپ کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے اور پھر گٹر میں پھینک دیتا ہے۔ہم بھارت افغانستان اور ایران کے پڑوسی ہیں۔ بھارت سے تو خیر کیا گلہ کہ اس سے خیر کی توقع عبث ہے۔ایران اور افغانستان بھی جتنے ہم پہ مہربان ہیں اس کی ہم سب کو خبر ہے۔پھر چین ہے جو اقتصادی سپر پاور ہے وہ بھی ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایک جاگیردار اپنے غریب دوست کے ساتھ کرتا ہے۔غریب کی مدد کی جاتی ہے اسے اپنے پاؤں پہ کھڑا کوئی نہیں کرتا مبادا کل کو ہماری برابری کرنے لگے۔ہر ایک ہمارا مخالف ہے ہمیں تباہ کرنے پہ تلا ہے تو کیوں؟ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم !صرف ہم ٹھیک ہیں باقی ساری دنیا خراب۔کبھی کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہئیے۔

بلوچستان میں امریکہ بھارت افغانستان اور ایران مل کے پاکستان کے لئے مشکلات بڑھا رہے ہیں اور ہماری بے بسی کہ ہم کھل کے ان کا نام بھی نہیں لے سکتے۔ ہماری مشرقی سر حدیں جو کبھی ہماری نگرانی کی محتاج نہیں رہیں آج ہماری نالائقی اور نا اہلی کی وجہ سے ہماری سب سے بڑی کمزوری بن گئی ہیں۔پہلے ہماری جنگی مشقوں میں ایک فاکس لینڈ دشمن کی نشاندہی کرتی تھی اب ہر طرف فاکس لینڈ ہے اور بلیو لینڈ سینڈوچ بن چکی۔ ہمارے پالیسی ساز ان حالات میں دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھیں ہیں کہ کون کون سا سوراخ بند کریں۔ملک کے اندر میر جعفر اور میر صادق کی اولادیں اتنی طاقتور ہو چکیں کہ انہوں نے محب وطن لوگوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔آئی ایس آئی اور ہماری دوسری ایجنسیوں کو جتنا ہمارے اپنے کہے جانے والوں نے بد نام اور مطعون کیا ہے اتنا تو امریکہ اور بھارت بھی نہیں کر سکے۔ جب باڑھ ہی فصل کھانے لگے تو گھوڑے کو کیا ضرورت کہ تکلیف برداشت کرے۔جان پہ کھیل کے ادارے کسی مجرم کو پکڑ لیں تو جان کے خوف سے انہیں سزا نہیں دی جاتی اور جنہیں چھوڑنا ممکن نہ ہو اور ان کی سزا ناگزیر ہو تو ان کی سزا پہ عمل درآمد نہیں ہوتا۔ملک اپنے حکمرانوں کے جراتمندانہ فیصلوں اور ان پر دلیرانہ عمل سے نشو ونما پاتے ہیں۔ہمارے ہاں اول تو فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا اور فیصلہ ہو جائے تو اس پہ عمل کوہ گراں بن جاتا ہے۔

ہم فیصلہ کر چکے کہ ہم طالبان سے مذاکرات کریں گے۔ یہ فیصلہ اتنا پرانا ہو چکا کہ اب اسے دوبارہ نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ طالبان سے مذاکرات ضرور کئے جائیں لیکن اس کی آڑ میں انہیں مزید مضبوط ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔نقار خانے میں طوطی کی آواز کی بھلا کیا حیثیت اسے در خور اعتناء نہ جانا گیا۔اب شمالی وزیرستان پہ فوج پہ حملے شروع ہو چکے۔فوج نے جوابی کاروائی کی اور اب اس پہ ایک طوفان بد تمیزی اٹھنے کو ہے۔اس سے پہلے کہ یہ آگ سب کچھ جلا کے بھسم کر دے ضروری ہے کہ ستو پی کے سوتے حکمران ایک بار پھر اے پی سی بلائیں۔ہر ایک کو دعوت دی جائے کہ اپنا نکتہ نظر بیان کرے۔سب کی سنی جائے اور اتفاق رائے سے فیصلہ کر کے اس پہ اگلے ہی دن عمل درآمد شروع کیا جائے۔مذاکرات بھی قوم کو اعتماد میں لئے بغیر نہ ہوں اور آپریشن بھی۔جتنا ممکن ہو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے رائے عامہ کو بھی اس کی اظلاع دی جائے۔ جوتیوں میں دال بانٹنے کی بجائے کوئی مشترکہ لائحہ عمل ہی ہمیں اس عذاب سے نجات دلا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں رد عمل اور جلد بازی میں کیا گیا کوئی بھی ایکشن ہمیں ایک نئی مصیبت میں ڈال سکتا ہے۔ آپریشن سے پہلے اتمام حجت ضروری ہے ۔طالبان کے وہ گروہ جو مذاکرات کرنا چاہیں انہیں صدق دل سے تسلیم کیا جائے اور ان کے ساتھ معاملہ آگے بڑھایا جائے تا کہ دوستوں اور دشمنوں میں تمیز ہو سکے۔خاموشی امن کی نشانی نہیں طوفانوں کا بیش خیمہ ہوتی ہے۔یہ اشارے یہ استعارے انسانوں ہی کے ہزاروں سال کے تجربات کا نچوڑ ہیں انہیں نظر انداز کرنا کسی صورت فائدہ مند نہ ہو گا۔ ظفرمند وہی ہوتے ہیں جو اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتے اور اندرونی اور بیرونی دشمنوں پہ گہری نظر رکھتے ہیں۔کھلے دشمن سے مقابلہ نسبتاََ آسان ہوتا ہے لیکن وہ جو آپ کی بغل سے نکل کے آپ پہ حملہ آور ہو اس سے بچنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ دشمنوں کی آنکھیں اور کان بنے ففتھ کالمسٹوں کی حرکات و سکنات کی مکمل نگرانی ہمیں دشمن کے ارادوں تک پہنچانے میں بڑی حد تک ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں اور نیم دلانہ فیصلے کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے۔ انتہائی درد مندی اور غورو فکر کے بعد کیا گیا مصمم ارادہ اور پھر اس پہ عمل اچھے نتائج لاتا ہے۔اٹھئے بسم اﷲ کیجئے اﷲ کی نصرت آپ کی راہ دیکھ رہی ہے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269158 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More