پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک
ہے اور اس میں بسنے والے لوگ جمہوریت کو پسند کرتے ہیں ۔بلکہ وہ اس پر بحث
کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔آپ جہاں بھی جائیں آپ کو سیاسی گفتگو ضرور سنائی
دے گی۔ لوگوں کے نظریات ، رائے مختلف ہو سکتے ہیں اور اسی بناء پر وہ اِن
سیاسی جماعتوں کے ساتھ پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور سیاسی گفتگو بھی
کرتے ہیں ۔ ایک سپورٹر اپنے نظریاتی پارٹی کی اچھا ئیاں بیاں کریگا۔ اور
دوسرا اس پر کیچڑ اچالے گا، خیر یہ تو ہوتا رہتا ہے ۔ بحث کرنے تک بات
بالکل ٹھیک ہے اور جو بات ٹھیک نہیں ہے ، وہ ان کی بحث کا رویہ ہوتا ہے ،
بحث کے دوران ایک جگہ پر محسوس ہوتا ہے کہ بس آپس میں ایک دوسرے کا گریبان
پکڑنے والے ہیں ۔ وہ اس بحث میں اتنے گرم ہو چکے ہوتے ہیں جیسے یہ اُن کا
نظریاتی معاملہ نہیں بلکہ ذاتی معاملہ ہے اور یہ پارٹی ان کے باپ کے جاگیر
میں سے کوئی چیز ہے۔ اور اُن سے بحث اُن کے ذات پر حملہ ہے۔اور وہ دو سروں
کے نظریا ت،خیالات کو ذاتیات تک لے جاتے ہے۔
در اصل یہ سب چیزیں ہماری سیاسی نا سمجھی تصور کیجاتی ہے جو ہمیں اندھی
تقلید کی طرف لیجاتی ہے۔
اس بحث میں وہ اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ جیسے V.O.A, BBC, CNN پر بلائے گئے
ہو اور ایک دوسرے کو ہر صورت چپ کر وانے کی کوشش کر تے ہے ، چاہے ناز یبا
الفاظ بھی استعمال کیئے جائیں ۔ کوئی بھی ایک دوسرے کی بات تسلیم کرنے کو
تیار نہیں ہوتا۔ اس لا حاصل بحث سے کسی کو بھی فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ
اُلٹا دلوں میں کدورتیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اگر کسی سپورٹر کو واقعی سیاسی
گفتگو کا شوق ہے تو ضرور کریں مگر اس طرز سے کہ دوسرے پارٹی کے سپورٹر ،جو
موجود ہوان کی دل آزاری نہ ہو جائے۔ پھر ضرور وہ بھی ایسے ہی الفاظ میں
جواب دینگے جس سے بات بگڑ سکتی ہے۔
اگر آپ صحیح معنوں میں بحث کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے دوسرے ساتھی یا
دوسرے پارٹی کے سپورٹر کی بات سننی پڑی گی، دلائل سے دی جانی والی بات آپ
کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اور اگر آپ صرف ’’میرا لیڈر، میرا لیڈر ‘‘ میری پارٹی
اچھی ’’کی رٹ لگا ئیں رکھیں گے اور دوسروں کی بات تک نہیں سنییگں تو یہ آپ
کی سیاست سے نا سمجھی تصور ہوگی اور اُلٹا اپنا اور اپنی نظریاتی پار ٹی کا
گراف نیچے آسکتاہے۔
اپنی غلطی کا اعتراف بڑے پن میں آتا ہے اور بڑے لوگ غلطیاں بہت کم کرتے ہیں
لیکن جب سرزد ہو جائے تو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں ۔ یہی بڑے اور
کامیاب لوگوں کی نشانیوں میں سے ہیں ۔ جو اپنی غلطیوں سے سیکھ کر کامیاب
ہوتے ہیں۔
ہماری سیاست میں سب سے بڑی خامی ہی یہی کہ کسی سے بھی تنقید برداشت نہیں
ہوتی، حالانکہ یہی تنقید اُسے کامیابی دلا سکتی ہے اگر آپ کو لوگوں سے بات
منوانی ہے،ان کے منہ بند کروانے ہیں، تو ان کے منہ اپنی کارکردگی سے بند کر
وادیں ، تنقید خود بخود ختم ہو جائیگی۔
کسی پارٹی کیلئے اس کے سپورٹر بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ لیکن اس پارٹی
کے سپورٹر کا رویہ دوسرے پارٹی کے سپورٹر یا عام لوگوں کے ساتھ بحث میں
ٹھیک نہ ہو، تو اس پارٹی کا گراف انہی نا سمجھ سپورٹر کی وجہ سے گر بھی
سکتا ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر جاکے دیکھئے۔ پاکستان کے لیڈر کا کیا حال بنا
رکھا ہے کسی کے تصویر کو فوٹوایڈٹ کر کے عورت کے روپ میں ظاہر کیا گیا ہے
کسی کو ناچنے والا، کسی کی داڑھی شیو کر وا دی گئی ہے، کسی کو داڑھی لگا دی
گئی ہے۔۔۔ توبہ کرو۔ کیونکہ کسی کا چہرہ مسخ کرنا اسلام میں ممنوع ہے۔
دوسروں کا دل دُکھانے سے اسلام منع کرتا ہے۔ دوسرے کی رائے کا احترام
سکھاتا ہے۔ جب اسلام ہمیں خلیفہ وقت پر خطبے کیلئے کھڑے حضرت عمرؓ سے اضافی
چادر اُڑھنے پر استفسار کی اجازت دیتا ہے تو کیا آپ کے پارٹی کا لیڈر حضرت
عمرؓ سے بہتر ہے کہ اسکی پالیسیوں پر تنقید نہ کیجا سکے۔۔۔۔؟ کیا آپ کی
جماعت، صحابہ کرامؓ اجمعین کی جماعت سے بہتر ہے کہ اسپر تنقید نہ کیجاسکے
اور آپ برداشت نہ کر سکے اور نامناسب رویہ اختیار کرے۔۔۔؟
لیڈروں میں بڑی صفات ہوتی ہے یہ نہیں کہ وہ خامیوں سے مبرا ہوتے ہیں ۔انسان
اچھا ئیوں ، برائیوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور لیڈرز بھی انسان ہوتے ہیں ۔وہ
کامیاب اور ناکام ہوسکتے ہیں۔ اور افسوس ہم اپنے اسلامی تاریخ کو بھی بھلا
بیٹھے اور اس اندھی تقلید میں چاہے ہمارا لیڈر ناکام ہی کیوں نہ ہواور صرف
اپنی پارٹی کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ،اپنے لیڈر کو فرشتہ ثابت کرنے لا حاصل
بحث جاری کرکے آپس کے نفرتوں کو طول دے رہے ہیں ۔ |