لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس
جناب خواجہ شریف نے لاہور سیشن کورٹس میں پولیس کے اے ایس آئی پر تشدد پر
از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں پولیس کو کہا ہے کہ وہ
بلا خوف و خطر اپنی کارروائی کرے، جس پر بغیر کسی خوف کے کارروائی کرتے
ہوئے پولیس نے دو وکلاء میاں محمد حفیظ اور ندیم بٹ کو ان کے دفتر ٹاﺅن شپ
سے گرفتار کرلیا اور اسلام پورہ تھانہ کی حوالات میں بند کردیا گیا۔ بعد
ازاں اطلاع ملنے پر وکلاء کی بھاری تعداد تھانہ اسلام پورہ پہنچ گئی جس میں
لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر رانا ضیاء عبدالرحمان اور جنرل سیکرٹری احمد
یار چاولی بھی شامل تھے۔ وکلاء نے پولیس کو بتایا کہ میاں محمد حفیظ اور
ندیم بٹ پولیس کے اے ایس آئی کو مار پیٹ والے واقعہ میں ہرگز شامل نہیں ہیں
اور انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ پہلے تو پولیس نے لاہور بار کے صدر کی
ذاتی شخصی ضمانت پر دونوں وکلاء جو حقیقتاً کسی تشدد اور مار پیٹ میں ہرگز
ملوث نہیں ہیں، کو رہا کردیا لیکن جب وہاں میڈیا کے نمائندے پہنچے اور
انہوں نے پولیس کو یاد دلایا کہ چیف جسٹس نے پولیس کو ”بلا خوف و خطر “
کارروائی کا حکم دیا تھا اس لئے وکلاء سے ہرگز خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں
تو پولیس نے ”بلا خوف و خطر“ ہو کر دونوں وکلاء کو دوبارہ گرفتار کر لیا
اور پولیس وین میں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ مذکورہ
بالا دونوں وکلاء نہ تو سیشن کورٹ میں پولیس والے کے ساتھ مار پیٹ میں ملوث
تھے نہ مطلوب اور نہ ہی انہیں ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا تھا، میاں محمد
حفیظ مسلم لیگ وکلاء ونگ کا ایک سرگرم رکن بھی ہے اور دبنگ وکیل بھی! جب
میڈیا پر پہلے دونوں وکلاء کو رہا کرنے کی خبر جاری ہوئی تو ایکسپریس ٹی وی
(جو شائد کسی وجہ سے وکلاء کے خلاف پارٹی بن چکا ہے اور 2/3 وکلاء کے
انفرادی عمل کو پوری وکلاء کمیونٹی کے خلاف بھرپور طریقہ سے استعمال کرتے
ہوئے صحافتی اقدار کی دھچیاں بکھیر رہا ہے، دوسرے ٹی وی چینلز بھی کماحقہ
اس کا ساتھ دینے میں مصروف نظر آتے ہیں) پر نیوز کاسٹر خاتون اپنے نمائندہ
سے پوچھتی پائی گئی کہ ملزمان کو رہا کیوں کردیا گیا ہے، جب نمائندہ نے
بتانے کی کوشش کی کہ مذکورہ دونوں وکلاء اور تھانہ اسلام پورہ پہنچنے والے
دوسرے وکلاء کا مؤقف ہے کہ میاں حفیظ اور ندیم بٹ اے ایس آئی تشدد کیس میں
ملوث نہیں تو اسی دوران ایکسپریس ٹی وی چینل کی خاتون نیوز کاسٹر نے فوراً
نمائندہ سے رابطہ ختم کردیا۔ اسی دوران جب راقم کی تھانہ میں موجود لاہور
بار کے جنرل سیکرٹری احمد یار چاولی سے ہوئی تو پیچھے وکلاء کے خلاف
انتہائی بیہودہ نعرہ بازی جاری تھی، استفسار پر پتہ چلا کہ نعرہ بازی میڈیا
اور پولیس والے کررہے ہیں۔ تمام میڈیا نے بریکنگ نیوز کے طور دونوں وکلاء
کی گرفتاری کی خبر نشر کی جن کا کوئی تعلق ہرگز سیشن کورٹ والے واقعہ سے
نہیں، نہ ہی وہ ایف آئی آر میں نامزد تھے اور نہ ہی ان کا متذکرہ واقعہ میں
کوئی کردار تھا، پھر انہیں کیوں گرفتار کیا گیا؟ انہیں میڈیا بار بار
حوالات میں بند کیوں دکھاتا رہا؟ اسی لئے تاکہ وکلاء کے جذبات کو مزید
بھڑکایا جائے اور مزید تلخیاں اور منافرت پھیلائی جا سکے! یہ وکلاء اور
میڈیا کی مشترکہ طاقت ہی تھی جس نے اس ملک سے آمریت کے سایوں کو بھاگنے پر
مجبور کیا، وکلاء کی قربانیاں تھیں جس نے میڈیا کو مجبور کیا کہ وہ چھبیس
چھبیس گھنٹے براہ راست نشریات پیش کرسکے، میڈیا نے تو عدلیہ بحالی تحریک سے
بہت کچھ حاصل کرلیا لیکن وکلاء کو کیا ملا؟ وکلاء کو کیا حاصل ہوا؟ یہی کہ
پولیس بھی ان کے خلاف من مانیاں کرنے کے لئے آزاد، میڈیا بھی ان کی عزت
پامال کرنے کو کمربستہ! اور تو اور تین افراد کے عمل سے وہ چیف جسٹس ہائی
کورٹ جو وکلاء کے کنونشنز میں آبدیدہ ہوجایا کرتے تھے اور وکلاء جن پر جان
نثار کیا کرتے تھے وہ بھی پولیس کو حکم دیں کہ وکلاء کے خلاف بلا خوف و خطر
کارروائی کی جائے! کیا انہوں نے قبضہ گروپوں، ڈاکوﺅں، لٹیروں، قاتلوں،
یتیموں اور بیواﺅں کا مال ناجائز طور پر ہڑپ کرنے والوں، دو نمبر ڈاکٹروں،
عاملوں وغیرہ وغیرہ کے خلاف کارروائی کے لئے بھی کبھی پولیس کو فری ہینڈ
اور بلا خوف خطر کارروائی کا حکم صادر کیا ہے؟ کیا کبھی کسی پولیس افسر کو
بھی چیف جسٹس صاحب نے بھری عدالت اور میڈیا کی موجودگی میں اپنی یونیفارم
اتارنے کا حکم صادر فرمایا؟ چیف جسٹس صاحب کے علم میں ہے کہ وکلاء تحریک کے
دوران لاہور، راولپنڈی اور خصوصاً ساہیوال میں وکلاء پر کیسے کیسے مظالم
نہیں ڈھائے گئے، ان مظالم کے احکامات جاری کرنے والوں اور ان پر عمل کرنے
والوں کے خلاف انہوں ابھی تک کیا کارروائی کی ہے؟ کیا غیر آئینی احکامات کو
ماننے پر صرف پی سی او ججز کی فراغت کافی ہے؟ کیا نہتے وکلاء اور عوام پر
نازیوں کی طرح کے مظالم پر کوئی کارروائی قانون اور انصاف کے منافی ہے؟ چیف
جسٹس صاحب کے علم میں نہیں کہ جب جسٹس ایم اے شاہد صدیقی صاحب سے جی او آر
میں واقعہ ان کا سرکاری گھر خالی کرانے کی کوشش ہورہی تھی تو یہ وکلاء ہی
تھے جس شدید سردیوں میں وہاں ٹولیوں کی صورت پہرہ دیا کرتے تھے کہ جو گھر
خالی کرانے آئے گا ہماری لاشوں پر سے گزر کے ہی آگے جاسکے گا! کیا ان ہی
صدیقی صاحب کو وکلاء نے ہائی کورٹ بار کا صدر منتخب کر کے اپنے سروں پر
نہیں بٹھایا؟
کیا عقل مندوں کو اس میں سازش کا کوئی پہلو نظر نہیں آرہا کہ وکلاﺀ، پولیس،
میڈیا اور عدلیہ کو باہم دست و گریبان کیوں کروایا جارہا ہے؟ جن وکلاء نے
پولیس والے کے ساتھ مار پیٹ کی تھی ان کا کیس عدالت میں ہے، وہ اس وقت
ضمانت پر ہیں اور چھ اگست تاریخ مقرر ہے، پھر بے قصور وکلاء کی گرفتاری کی
کیا وجہ ہے؟ دوسری بات یہ کہ اگر مادر پدر آزاد اور پہلے ہی بلا خوف و خطر
کارروائیاں ڈالنے والی پولیس والے کے ساتھ مار پیٹ میں سارا قصور اگر ان
2/3 وکلاء کا بھی مان لیا جائے تو انہیں کتنی بڑی سزا دی جائے گی، کیا اس
قصور میں تمام وکلاءکو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا جانا ضروری ہے یا پھانسی
کی سزائیں ان کا مقدر ہیں؟ جناب چیف جسٹس صاحب کو بھی معاملے کی نزاکت کا
احساس کرنا چاہئے تھا، وہ جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں سابقہ چیف جسٹس لاہور
ہائی کورٹ کے بارے میں ان کا اور وکلاء کا رویہ کیا تھا، جبکہ ان کے ساتھ
وکلاء کی محبت کا عالم کیا تھا اور وہ ایک جملے اور وکلاء کی وردیاں اتارنے
کی وجہ سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں! اب بھی وقت ہے، چیف جسٹس صاحب نہ صرف
وکلاء بلکہ میڈیا اور پولیس کے بھی بڑے ہیں، ان کو چاہئے کہ وہ فوری طور پر
تمام فریقین میں بیچ بچاﺅ کی پالیسی شروع کریں، موجودہ معاملہ میں سازش کا
سراغ لگائیں اور معاملہ نپٹائیں، کیونکہ اس مسلئہ کو جتنا طول دیا جائے گا
اتنے ہی مسائل اور بڑھیں گے اور مسائل بڑھانا کسی کے بھی حق میں نہیں ہوگا
بلکہ اس سے صرف وہ قوتیں خوش ہوں گی جو عدلیہ بحالی کے حق میں نہیں تھیں
اور جو تحریک میں وکلاءاور میڈیا سے ناخوش تھیں!
|