سپریم کورٹ آف پاکستان نے
سابق پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007 ء کو لگائی جانیوالی ایمرجنسی
کو غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام قرار اور پی سی او ججوں کو کام سے روک
دینے کے بعد سے پاکستانی عوام کی امیدیں عدالت عالیہ کی جانب ایک بار پھر ا
ٹھ رہی ہیں۔ گو عدالت نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ فیصلے سے ملک کے انتظامی
اور مالیاتی فیصلے اور صدر کا حلف متاثر نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود عوام
بڑھتی ہوئی مہنگائی، اور غربت کے خاتمے کے لئے بھی عدالت ہی کی طرف دیکھنے
پر مجبور ہیں۔ رمضان المبارک کے آنے میں ابھی دو ہفتے باقی ہیں ۔ لیکن
بازاروں میں مہنگائی، قیمتوں میں تیزی سے اضافے، اشیاء صرف کی مصنوعی قلت
کی جو صورتحال ہے۔ وہ ناقابل برداشت ہے۔ چینی کی قیمت میں روزانہ اضافہ
ہورہا ہے۔ گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوچکا اور مزید قیمت بڑھائی جارہی
ہے۔ دودھ اور گوشت، سبزیاں اور پھل عوام کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ اوگرا نے
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جس کمی کا کا اعلان کیا ہے وہ عوام کے زخموں
پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اوگرا کے نوٹیفیکیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت 1
روپے67 پیسے کمی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ قیمتوں میں کمی کا اعلان
عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گراوٹ کے باعث کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اوگرا نے سندھ اور پنجاب میں سی این جی کی قیمت میں 60پیسے
اضافے کے ساتھ قیمت 48 روپے 60 پیسے کردی ہے جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں
سی این جی کی قیمت 27 پیسے کمی کے ساتھ 48.73 فی کلو ہوگئی ہے۔ شائد اسی کے
لئے کہا گیا ہے کہ اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ
گاڑی والے حضرات کی اکثریت سی این جی استعمال کرتی ہے اور اس سے بھی متوسط
طبقہ متاثر ہوا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں یہ کمی عدالت کی جانب سے کاربن ٹیکس
کے خلاف فیصلے کے بعد کی گئی ہے۔ اس سے قبل پیٹرولیم کی قیمتوں کے تعین کے
بارے میں جسٹس ریٹائرڈ رانا بھگوان داس کی سربراہی میں بننے والے کمیشن نے
اپنی رپوٹ میں کہا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کو غیر ملکی کرنسی
کی بجائے پاکستانی روپے کے ساتھ منسلک کیا جائے تاکہ پیٹرولیم کی مصنوعات
میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچ سکے۔ کمیشن نے سفارش کی تھی کہ پیٹرولیم
مصنوعات کی قمیتوں کا طریقہ کار وضح کرنے کے لیے توانائی اور پیٹرولیم کی
فیلڈ کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ کمیشن نے پیٹرولیم
مصنوعات پر عائد کیا گیا کاربن ٹیکس کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ
ٹیکس عوام پر اضافی بوجھ ہے جس کو نہیں لگنا چاہیے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی
کہا گیا تھا کہ یہ کمیٹی مختصر، درمیانی اور طویل مدت کے منصوبے بھی بنائے
اس کے علاوہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور وزارت پیٹرولیم کی
استعداد کار میں بھی اضافہ کیا جائے۔
کمیشن نے سنہ 2001 سے سنہ 2009 کے مارچ کے مہینے تک پیٹرولیم مصنوعات پر
عائد کیے جانے والے ٹیکسوں کی مد میں عوام سے حاصل کی گئی رقم کا بھی ذکر
کیا گیا ہے جس کے مطابق اس عرصے کے دوران حکومت نے 10 کھرب، 23 ارب 64 کروڑ
روپے کمائے تھے۔ اس لوٹ مار کے بعد تو عوام کو ریلیف ملنا چاہیے تھا۔ لیکن
اب جو قیمتیں مقرر کی گئی ہیں وہ ایک مذاق کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان میں ہر دور حکومت میں کم و بیش مہنگائی کا رونا رہا ہے۔ کبھی پٹرول٬
کبھی ڈیزل٬ کبھی آٹا اور کبھی دوسری اجناس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو
جاتا ہے غرض عوام مشکلات کا شکار ہی رہتے ہیں۔ روٹی٬ کپڑا٬ مکان کے بعد
تعلیم اور روزگار وغیرہ یہ تمام مسائل ایسے ہیں کہ جن میں پاکستان کا ہر
شہری گرفتار نظر آتا ہے۔ مگر یہ افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ حکومت نے
مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دئے ہیں کہ تن ڈھانپنے کو کپڑا اور پڑھنے کو
کتاب تو دور کی بات ہے اب دو وقت کی روٹی کے لئے بھی پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں۔
سابق دور میں شوکت عزیز نے عوام کو مہنگائی سے بچانے کے لئے یوٹیلٹی اسٹور
کے تن مردہ میں جان ڈالی تھی لیکن اب ان اسٹورز پر بھی لوٹ مار ہے۔ حال ہی
میں یوٹیلٹی سٹورز پر فروخت کئے جانے والی دالوں کی قیمتوں میں ایک روپے سے
دس روپے فی کلو تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جبکہ کچھ عرصے پہلے ہی یوٹیلٹی
سٹورز پر فروخت کئے جانے والے تمام اشیاء کی قیمتوں میں تین روپے اضافہ کیا
گیا تھا۔ اس طرح یوٹیلٹی سٹورز اور بازاروں میں فروخت کئے جانے والی اشیاء
کی قیمتیں یکساں ہو گئیں ہیں۔ جبکہ پرانا سٹاک بھی نئی قیمتوں پر فروخت کیا
جارہا ہے۔ مہنگائی کا یہ بڑھتا ہوا سیلاب سڑکوں، فٹ پاتھوں، محلوں، گلیوں
میں بھیک مانگنے والوں میں اضافہ کررہا ہے۔ سرکاری اداروں کو اس وقت حرکت
میں آنا چاہئے۔ کراچی میں رمضان سے قبل ایسے سستے بازار لگنے چاہیئے جہاں
عوام سکون سے خریداری کرسکیں۔ شہری حکومت، این جی اوز، معاشرتی و سیاسی
جماعتوں کو عوام کی خدمت کے اس عمل میں اپنا حصہ بٹانا چاہئے۔ تاکہ حکومت
کی مدد ہو۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ رمضان کی آمد سے قبل ایسی کمیٹیاں
تشکیل دے جو مارکیٹ کی مانیٹرنگ کریں۔ ان میں سرکاری اہلکاروں کے ہمراہ
عوامی نمائندے بھی لئے جائیں، اگر یہ کیا گیا تو اس بات کا امکان ہے کہ
عوام کو تھوڑا بہت ریلیف مل جائے۔ |