آمر اور قابض مصری فوج و حکومت
نے مصر میں سیکولرزم کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دنیا کی منظم ترین
اور ملک کی سب سے قدیم مذہبی وسیاسی جماعت الاخوان المسلمون کو اپنے راستے
سے ہٹانے کے لیے سابق ظالم آمروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم و جبر کی
تمام حدود پار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق اسرائیل کے
تعاون سے مصر کی سیکولر فوج اور حکومت نے اخوان کے خلاف خطرناک منصوبہ بندی
کی، جس کے مطابق اخوان پر پابندی لگانے کے بعد دھڑا دھڑ کارکنوں کو جیلوں
میں دھکیلنا اور قتل کردینا طے پایا ہے۔ اپنے منصوبے پر عمل کا آغاز مصری
حکومت نے گزشتہ دنوں باضابطہ طور پر ملک کی سب سے قدیم مذہبی وسیاسی جماعت
الاخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قراردے کر، اس کے زیر اہتمام ملک بھر
میں احتجاجی مظاہروں پر پابندی عاید کرکے اور اس کی سرگرمیوں، مالی معاملات
اور رکنیت تک کو بھی جرم قرار دے کر کردیا ہے۔ مصر میں الاخوان المسلمون
تنظیم کے231 ارکان اور تنظیم کے زیرِ انتظام ایک ہزار پچاس انجمنو ں کے
مالی اثاثے ضبط کرلیے گئے ہیں۔ تقریباً ایک ہزار ایک سو تیس اداروں کے مالی
اثاثوں کو ضبط کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس میں سے ملک کی سب سے بڑی امدادی
تنظیم انجمن اسلامی کی گیارہ سو شاخوں میں سے ایک 138کے مالی اثاثوں کا
بالواسطہ تعلق الاخوان المسلمون سے ہے۔
منصورہ شہر میں ایک سیکورٹی عمارت پر خودکش بم حملے کو جواز بنا کر اخوان
کو دہشتگرد قرار دیا گیا ہے،حالانکہ الاخوان المسلمون نے اس بم دھماکے کی
مذمت کی تھی اور اسلام پسندوں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس
واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ دھماکے کے اگلے
روز ہی القاعدہ سے سے متاثر ایک گروہ” انصار بیت المقدِس“ نے اس دھماکے کی
ذمے داری قبول بھی کر لی تھی،اس کے باوجود مصر کی عبوری حکومت نے ذمہ داری
اخوان پر ڈال کر اسے دہشتگرد قرار دیا اور اخوان کے کارکنان کی پکڑ دھکڑ
شروع کردی، جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ مصری حکومت نے فوج اور دیگر اسلام
مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر اخوان کو راستے سے ہٹانے کا منصوبہ پہلے سے ہی
تیار کیا ہوا تھا۔ الاخوان المسلمون نے اس حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے
اپنے بیان میں کہا کہ حکومت نے منگل کے حملے میں اخوان المسلمین کے ملوث
ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور دہشتگرد قرار دے دیا۔حکومتی اعلان سے
پارٹی کی کارکردگی اور نظریات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ اسے مسلسل
حکومتوں کی جانب سے دباؤ کا سامنا رہا ہے۔حکومتی فیصلہ کاغذ کا صرف ایک
ٹکڑا ہے۔ دور اور قریب سے اس کا ہم پر کوئی فرق نہ ہوگا، کیونکہ غلط
الزامات سے خیال مرا نہیں کرتے۔ ہم صرف خدا سے فریاد کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ مصری حکومت کی جانب سے اخوان کو دہشتگرد قرار دیے جانے کے بعد
مصری پولیس نے اخوان کے خلاف کریک ڈاﺅن تیز کردیاہے۔جبکہ ”اخوان المسلمون“
کے ساتھ اتحاد میں شامل دائیں بازو کی جماعتوں نے مصر کی عبوری حکومت کے اس
فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے فوج کی جانب سے صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ
الٹنے کے خلاف چھ ماہ سے جاری احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہوا
ہے۔جمعہ کے روز بھی مصری حکومت کے فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا
گیا تومصری پولیس نے ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جس سے 147 افراد زخمی
اور متعدد افراد جاں بحق ہوگئے، اسی دوران پولیس نے الاخوان المسلمون کے
265 کارکنوں کو گرفتار بھی کیا۔حراست میں لیے جانے والے افراد میں 28
خواتین بھی شامل تھیں۔جب کہ اس سے ایک دن پہلے ہی حکومت نے اخوان کے 16
کارکنوں کو حراست میں لیا تھا۔ہفتے کے روز بھی مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی
جامعہ الازہر میں پولیس نے اخوانی طلبہ پر تشدد کیا،ایک اسلام پسند طالب
علم کو شہید کردیا گیا اور 60 کو گرفتار کر لیا۔اسی دوران قاہرہ کی جامعہ
الازہر میں دوعمارتوں کو آگ لگادی گئی،سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ
اخوان کے حامی طلبہ نے یہ آگ لگائی ہے جبکہ طلبہ نے اس الزام کو مسترد
کردیا ہے۔مصر کی وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان ہانی عبدالطیف کے مطابق اخوان
کو دہشت گرد تنظیم کا درجہ ملنے کے بعد ہر اس شخص کو پانچ سال تک قید کی
سزا ہوسکے گی جو اخوان کے مظاہروں میں بھی شریک ہوگا اور تنظیم کی قیادت
کرنے والوں کو موت تک کی سزا ہوسکتی ہے۔
اخوان کو دہشتگرد قرار دینے کا مصری حکومت کا فیصلہ سراسر خلاف قانون اور
بے بنیاد ہے، دنیا بھر میں اس فیصلے کی مذمت کی گئی ہے۔امریکی وزیر خارجہ
جان کیری نے بھی مصر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کو دہشت گرد
قرار دینے کے بعد اخوان کے خلاف عبوری حکومت کے شروع کیے گئے تازہ کریک
ڈاون پر تشویش ظاہر کی اور مصری حکومت کو الاخوان المسلمون کو دہشت گرد
جماعت قرار دینے پر امریکی تحفظات سے آگاہ کیا اور کہا کہ امریکی صدر
اوباما کی انتظامیہ الاخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا ارادہ
نہیں رکھتی ہے، نہ ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔جبکہ حریت کانفرنس (گ) کے
چیئرمین نے بھی مصر کی فوجی حکومت کی طرف سے اخوان المسلمون کو دہشت گرد
تنظیم قرار دینے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عاقبت نااندیش
حکمرانوں نے اپنے ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو دہشت گرد قرار دے کر ایک
تاریخی حماقت کی ہے، اس مجرمانہ فیصلے کے اس ملک کے مستقبل پر انتہائی منفی
اور سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔دنیا بھر کے مختلف اخبارات نے اخوان کے خلاف
مصری حکومت کے تازہ تشدد پر مبنی اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مصر
میں پہلی مرتبہ آزاد انتخابات میں منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی کی حکومت
کا تختہ الٹے جانے کے بعد، اخوان المسلمین کے خلاف فوجی حکومت نے جو سنگین
قدم اٹھائے ہیں، ”انٹرنیشنل نیو یارک ٹائمز“ کے مطابق انہیں اور کڑا کر دیا
گیا ہے اور ملک کے نئے لیڈروں نے اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ انہوں نے
اخوان کی ہر قسم کی سرگرمیوں کے خلاف ایک طویل جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔فوجی
حکومت نے اس تنظیم کو بیرونی ملکوں سے آنے والی امداد سے اور ملک سے باہر
پناہ لینے سے بھی محروم کرنے کے لئے قدم اٹھائے ہیں اور عرب حکومتوں سے
درخواست کی ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کے معاہدوں کا احترام کرتے ہوئے، اس
تنظیم سے کسی قسم کا واسطہ نہ رکھیں۔اِن فیصلوں کا نزلہ جن اداروں پر پڑا
ہے، ان میں 1970ءکی دہائی میں قائم کی گئی ’اسلامی میڈیکل ایسوسی ایشن‘
شامل ہے۔ اس کے ملک بھر میں کئی اسپتال ہیں، جہاں سالانہ بیس لاکھ تنگدست
بیماروں کا علاج ہوتا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اخوان کو بنیادی طور پر ایک
ایسی غیر ملکی تنظیم کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جس کے عزائم دہشت گردانہ
ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے ارکان کی مصر کی اقتصادی اور معاشرتی
زندگی میں گہری جڑیں ہیں اور2011ءکی عوامی تحریک کے بعد، جمہوری انتخابات
میں وہ سب سے زیادہ کامیاب قوّت کی حیثیت سے ابھری تھی۔ اس تنظیم پر دہشت
گردی کا الزام لگنے کے بعد ملک کے متعدّد شہروں میں بے تحاشہ گرفتاریاں کی
گئی ہیں۔مصر کی صورت حال پر ”واشنگٹن پوسٹ“ کے ایڈیٹوریل بوررڈ نے ایک
خصوصی اداریے میں کہا ہے کہ دنیائے عرب میں جمہوریت کی تحریک تین سال قبل
شروع ہوئی تھی۔ اِس کے بعد آمرانہ حکومتوں کے خلاف بغاوت کی ایسی روک کا
آغاز ہوا تھا، جس سے یہ امّید پیدا ہو گئی تھی کہ جمہوریت سے محروم اس خطّے
میں نمائندہ حکومتوں کا قیام ممکن ہوجائے گا، لیکن پچھلے ہفتے کے واقعات سے
ظاہر ہے کہ مصر نے جمہوریت کی راہ سے منہ موڑ لیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ سب
سے نقصان دہ بات بدھ کو ہوئی، جب مصر کی عبوری حکومت نے یہ اعلان کہ وہ
الاخوان المسلمین کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رہی ہے، یہ قدم منصورہ شہر
میں ایک بم دہماکے کے بعد اٹھایا گیا، حکام نے بغیر کسی ثبوت کے اخوان کو
اس کا ذمّہ دار ٹھہرایا، جس نے اس دھماکے کی مذمّت کی تھی۔ تشدّد ایک قابل
مذمّت فعل ہے، لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ مصر کی فوجی حکومت اسے الاخوان
المسلمین کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔اخوان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینے
کے سنگین نتائج نکلیں گے اور اخوان سے وابستہ سینکڑوں خیراتی ادارے اور غیر
سرکاری تنظیمیں بند ہو جائیں گی۔ یہ پیچھے کی طرف جانے والا اتنا بڑا قدم
ہے کہ اس سے وسیع سماجی تحریک کے ساتھ عداوت میں اضافہ ہوگا۔ مصر کے
اخبار”مصر ٹوڈے“ نے تبصرہ کیا ہے: ”فوج اور سیاست دانوں بالخصوص اعتدال
پسند مذہبی جماعتوں کے ساتھ مفاہمت ناگزیر ہے۔ اگرایسا نہ کیا گیا تو مصرکا
مستقبل تاریک ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن البنا نے اس تحریک کا آغاز
1923میں کیا تھا مگر 1929ءمیں اسے باقاعدہ شکل دی گئی۔ اس کا منشا اسلام کے
بنیادی عقائد کا احیا اور ان کا نفاذ تھا۔ مگر بعد میں یہ جماعت سیاسی شکل
اختیار کر گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس کے اراکین کی تعداد بیس لاکھ
کے لگ بھگ تھا۔اب دنیا بھر میں اخوان کے حامیوں کی تعداد دس کروڑ سے زیادہ
بتائی جاتی ہے۔روز اول سے یہ جماعت زیرعتاب رہی ہے۔ جماعت کے بہت سے اراکین
کو جیلوں میں بند کیا گیا اور سید قطب شہید جیسے لوگوں کو پھانسی پر چڑھا
دیا گیا۔ اخوان المسلمون کو 1954ءمیں فوجی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔
تاہم اس تنظیم نے اپنے سماجی کاموں کا سلسلہ جاری رکھا۔ 2011 ءمیں جمہوری
طریقوں سے اخوان نے اقتدار سنبھالا تو صرف ایک سال کے بعد ہی منتخب حکومت
کا تختہ الٹ دیا گیا اور اس کے بعد سے اخوان کے ہزاروں ارکان کو شہید اور
ہزاروں کو زخمی کردیا گیا ہےاور اب اخوان کو دہشتگرد جماعت قرار دے کر
اخوان کے خلاف بے تحاشہ ظلم و جبر کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے، لیکن یہ بات
واضح ہے کہ اخوانی رہ نماﺅں اور کارکنوں کے لیے جیلیں کاٹنا اور پابندیوں
کا سامنا کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، ان کی تربیت ہی ایک ایسے ماحول میں
ہوئی ہے کہ وہ ان کی کم ہی پرواہ کرتے ہیں۔ اخوا ن کی صف اول اور دوم کی
قیادت قید یا نظربند کی جاچکی ہے، مگر اس کے باوجود متحرک کارکنوں نے
ایمرجنسی قوانین اور احتجاجی مظاہروں پرپابندی کے عبوری قوانین کو ہوا میں
اڑا دیا ہے۔ مصری حکومت اور فوج کے مقرب خیال کیے جانے والے اخبار”الاھرام“
نے بجا طور پراعتراف کیا ہے کہ فوج اپنی طاقت کے استعمال کے باوجود مرسی کے
حامیوں کی ”روح احتجاج“ کو کچلنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس امرسے
لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ مرسی کے حامی سڑکوں پر
نکلتے تھے اور اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ قاہرہ، اسماعیلیہ، اسکندریہ،
بنی سویف، شرم الشیخ اور دوسرے بڑے شہروں میں حکومت کے خلاف ریلیاں نہ
نکالی جاتی ہوں۔ |