پاکستان بھی تو کچھ کرے

عالمی ثالثی عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد کشن گنگا ڈیم کو کافی اہمیت اور شہرت حاصل ہوگئی ہے۔ ”کشن گنگاندی“ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جو دریائے نیلم کےلئے بولا جاتا ہے۔ بھارت نے 2007ءمیں 330 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کےلئے 3600 کروڑ روپے کی مالیت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر شروع کی، جس کی تکمیل 2017ءمیں ہونی ہے۔ یہ بھارتی منصوبہ پاکستان کے نقصان میں ہے، اس لیے پاکستان نے اس ڈیم کی تعمیر پر اعتراضات اٹھائے کہ بھارت کی جانب سے کشن گنگا دریا کا رخ موڑنا اور پاور ہاﺅس کے گیٹ نچلی سطح پر نصب کرنا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اس سے پاکستان کا نیلم جہلم بجلی گھر 30 فیصد پیداوار اور وادی نیلم کا ایک حصہ دو ہزار کیوسک پانی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے گا۔ پاکستان نے بات چیت کے ذریعے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی، لیکن بھارت کی جانب سے معقول جواب نہ ملنے پر مئی 2010ءکو عالمی ثالثی عدالت میں کشن گنگا پن بجلی گھر کی تعمیر کے خلاف درخواست دائر کردی۔جس کے بعد عالمی ثالثی وفد نے متنازع کشن گنگا بجلی گھر کا معائنہ کر کے 2011ءمیں بھارت کو اس منصوبے پر کام کرنے سے روک دیا،لیکن بھارت نے پاور پلانٹ ٹنل کی تعمیر جاری رکھی۔

رواں سال فروری میں ہیگ کی بین الاقوامی عدالت نے زیرِ تعمیر کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے سلسلے میں یہ تو تسلیم کیا کہ یہ پروجیکٹ پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن اس بات کو نہیں مانا کہ بھارت کے اس پروجیکٹ سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے ۔ گزشتہ دنوں عالمی ثالثی عدالت نے کشن گنگا ڈیم کیس کے حوالے سے سنائے جانے والے فیصلے میں بھارت کو ڈیم سے متعلق دیگر معاملات سے روکتے ہوئے کشن گنگا ڈیم سے فی سیکنڈ 9 مکعب میٹر پانی چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا ڈیم بنا تو سکے گا، مگر وہ پاکستان کو آدھا پانی دے گا اور بھارت کشن گنگا پن بجلی منصوبے کیلئے بنائے جانیوالے ڈیم میں پانی کا لیول انتہائی سطح کے نیچے نہیں لے جا سکے گا۔ابھی عالمی عدالت کے اس فیصلے کو چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ بھارت نے آزاد کشمیر کے دو دریاﺅں نیلم اور جہلم کا پانی روک لیا اور کہا کہ وہ دریا کشن گنگا پر بجلی پراجیکٹ کی تعمیر کے معاملے پر سندھ طاس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کررہا،جبکہ سندھ طاس کونسل پاکستان کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے بھارتی اقدام سندھ طاس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے،بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے نیلم کا رخ کسی صورت نہیں موڑ سکتا، کشن گنگا پروجیکٹ پر عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی حق تلفی کی ہے۔

واضح ہو کہ 1960ءمیں پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم نہرولال کے دستخط سے پاکستان اور بھارت کے مابین دریاوں کی تقسیم پر ہونے والا سندھ طاس معاہدہ ( انڈس واٹر ٹریٹی ) اگرچہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان چھ بڑے دریاوںکی تقسیم عمل میں آئی تھی، جو بھارت سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں۔ اس معاہدے میں یہ واضح ہے کہ کچھ شرائط کے ساتھ تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم اور چناب) کے پانی پر پاکستان کا حق ہوگا ور اور دیگر تین مشرقی دریاؤں (راوی، ستلج اور بیاس) کا حق دار بھارت ہوگا۔ پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریاؤں کے پانی اور ان ذیلی دریاؤں کے پانی پر جو اپنی قدرتی گزر گاہوں سے ہوتے ہوئے مرکزی ستلج اور مرکزی راوی میں ضم ہوجاتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کا حق ہو گا اور بھارت کسی بھی طرح ان کا بہاؤ روکنے کا مجاز نہیں ہے ۔ اب پاکستانی حق پر بھارت کا ڈیم تعمیر کرنا کس طرح معاہدے کی خلاف ورزی شمار نہیں ہوگا؟

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ کشن گنگا ڈیم کے حوالے سےبھارت کے حق میں ہونے والے عالمی عدالت کے فیصلے کو ہماری حکومت نے بہت بڑی فتح قرار دےاہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کشن گنگا کیس پر عالمی عدالت کی جانب سے ہونے والا فیصلہ پاکستان کی 60 سے65 فیصد، جبکہ بھارت کی 30سے 35 فیصد فتح ہے۔ عالمی عدالت نے بھارتی حکومت کو کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے روکا نہیں، بلکہ اس کا ڈیزائن تبدیل کرنے کا کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مقدمہ جیتنے کے باوجود پاکستان کو دریائے نیلم کا پورا پانی نہیں مل سکے گا۔ یہ فیصلہ پاکستان کے نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کو کم از کم 10فیصد تک نقصان پہنچائے گا اور پاکستان کو اپنے اہم ترین منصوبے نیلم جہلم پاور پروجیکٹ پر نظرثانی کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے دریاؤں کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کےلئے فوری طور پر معاہدہ سندھ طاس کے ثالث کو ساتھ ملا کر مستقل بنیادوں پر مذاکرات کے ذریعے بھارت کی آبی جارحیت کو روکنے کا کوئی حل نکالا جائے اور بھارت کی طرف سے متنازع ڈیموں کی تعمیر بند کر دینے کا عملی مظاہرہ کیے جانے تک یہ مذاکرات جاری رہنے چاہیے۔ اگر جلد ہی بھارتی منصوبوں کا توڑ نہ کیا گیا توہمارا زرعی شعبہ مکمل تباہی سے دو چار بھی ہوسکتا ہے ۔ بھارت سے تمام متنازع پروجیکٹ کی تعمیر رکوانے کیلئے باضابطہ طور پر عالمی عدالت میں پٹیشن بھی دائر کی جائے،تاکہ عالمی عدالت اور دیگر ادارے بھارت کو آبی جارحیت سے باز رکھنے کےلئے دباؤ ڈالیں۔اس کے ساتھ سب سے ضروری یہ ہے کہ پاکستان کو بھی بھارت کی طرح پانی کا ذخیرہ کرنے اور پانی سے بجلی بنانے کے لیے بہت تیزرفتاری کے ساتھ جنگی بنیادوں پر پیش رفت کرنا ہوگی،چاروں صوبوں کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اختلافات جلد از جلد ختم کرکے اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہیے، کیونکہ اب مزید تاخیر اور لیت و لعل کی کوئی گنجائش نہیں۔

ہمارے ساتھ آزاد ہونیوالے بھارت نے آزادی کے بعد سو سے زاید ڈیم سمیت سیکڑوں بجلی پیدا کرنیوالے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیر کرلیے ہیں، جبکہ درجنوں میگا پراجیکٹ زیر تعمیر ہیں۔تقریباً 14 ڈیم تو صرف پاکستان کی ملکیتی دریاؤں پر بنالیے ہیں، لیکن ہم سیاسی چپقلش اور حکومتوں کی نااہلی کے باعث اپنی ضرورت کے مطابق بھی ڈیم نہیں بناسکے ہیں اور ایک طویل عرصے سے کالا باغ ڈیم کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کراپنی جیبیں بھری جارہی ہیں۔حالانکہ یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پانی کی اہمیت و ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے، آنیوالے دنوں میں دنیا میں پانی کے مسئلہ پر جنگیں بھی ہوسکتی ہیں۔اس سب کے باوجوداب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں، سب نے عملی اقدام کی بجائے صرفنعرے لگائے۔ حکمران طبقے نے بھارتی آبی جارحیت کا راگ آلاپنے کے سوا کچھ نہیں کیا، حالانکہ صرف شور مچانے سے تو کچھ نہیں ہوگا،جس طرح بھارت نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکڑوں ڈیم تعمیر کرلیے ہیں،اس طرح پاکستان بھی تو کچھ عملی اقدام کرے۔جب تک غور و فکر اور مستقل و مضبوط بنیادوں پر کام نہیں کیا جاتا، ملک میں پانی اوربجلی کی کمی کا روگ اسی طرح رہے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701401 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.