امریکن سنٹر میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر
ایٹم بم برسانے کی فلم دکھائی جارہی تھی۔ ہیروشیما کا ہنستا بستا شہر
دیکھتے ہی دیکھتے آگ اور لامتناہی آگ میں بدل گیا۔ یہ خونی داستان بھی اسی
امریکہ نے رقم کی ہے۔ جو آج عراق، افغانستان، پاکستان، فلیسطین اور دنیا کے
دیگر خطوں میں امن، جمہوریت، دہشت گر دی کے خلاف جنگ کے نام پر انسانوں کا
خون بہا رہا ہے۔ یہ داستان خونچکاں امریکہ کے کرنل پال ٹبٹس نے چھ اگست
1945 کو لٹل بوائے نامی ایٹم بم گرا کر لکھی تھی۔ اس کے نتیجے میں ہیروشما
میں دو لاکھ انسان لقمہ اجل ہوئے۔ یہ دنیا میں اس لحاظ سے تباہی کا سب سے
بڑا سنگین واقعہ تھا کہ اتنی کم مدت میں اتنے زیادہ انسان صفحہ ہستی سے مٹ
گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ کو اس پر اب بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ نہ
کبھی بم گرانے پر اس نے کوئی معذرت کی۔ دریائے آئی اوئی کے کنارے ایٹم بم
کی یادگار وہ کھنڈر نما گنبد ہے جس کو ڈوم کہتے ہیں اور اسی کے پڑوس میں وہ
عجائب گھر ہے جس میں ایک بچی کی وہ تڑی مڑی بائیسکل بھی ہے جس پر وہ ایٹم
بم گرنے کے وقت سوار تھی۔ گنبد کی سیڑھیوں پر وہ پرچھائیں ہمیشہ کے لئے
معلق ہو گئی ہے جو عمارت کے ایک ایسے باسی کی ہے جو بم گرتے وقت سیڑھیوں سے
اتر رہا تھا لیکن ایٹمی حرارت سے ایک پرچھائیں میں تبدیل ہو کر وہیں معلق
ہو گیا۔ یہ المیہ اس عہد کی نشانی ہے جب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے لیے
امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے جاپان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غیر مشروط طور
پر ہتھیار پھینک دے لیکن جاپان نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ امریکہ
روس کے جاپان میں داخل ہونے سے پہلے ہی جاپان کو سر نگوں کر کے اپنا تسلط
جمانا چاہتا تھا۔ اس لیے ان مقاصد کے حصول کے لیے اس نے انسانی تاریخ کا
مہلک ترین ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ہیروشیما پر گرایا
جانے والا پہلا ایٹم بم انولا گے نامی بی-29 ہوائی جہاز پر لاد کر لایا گیا
تھا جس کے پائلٹ کرنل پال ٹبٹس تھے۔ یہ ساٹھ کلو گرام یورینیم 235 کا بنا
ہوا بم تھا۔ لٹل بوائے نامی اس بم کو آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر ہیروشما کے
مرکز پر گرایا گیا تھا۔ بم زمین سے اوپر فضا میں پھٹا۔ بہت سے لوگوں نے
ایٹمی تپش سے بچنے کے لیے دریائے آئی اوئی میں چھلانگیں لگا دیں لیکن دریا
کا پانی ایٹمی توانائی سے ابل رہا تھا۔ اس بم نے دو لاکھ انسانوں کی جان لی۔
جاپان نے ہیروشما پر گرنے والے ایٹم بم کے نتیجے میں بھی ہتھیار نہیں
پھینکے تو نو اگست کو میجر چارلس سوینی نے فیٹ مین نامی ایٹمی بم ناگا ساکی
کے شہر پر گرایا۔ یہ آٹھ کلو گرام پلوٹینم 239 کا بنا ہوا بم تھا۔ اس بم کی
وجہ سے ایک لاکھ بیس ہزار لوگ جان بحق ہوئے۔
امریکہ نے آج پوری دنیا میں ایک ایسی دہشت گردی کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ جس کا
کوئی انت نہیں ہے۔ امریکہ آج بھی دنیا میں امن کا ٹھیکے دار بنا ہوا ہے۔
جنگی اخراجات سے اس کی معاشی بدحالی بڑھتی جارہی ہے۔ اربن انسٹیٹیوٹ کی
تازہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں عورتوں اور بچوں سمیت 35لاکھ شہری سڑکوں پر
سوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 35لاکھ شہری بے گھر ہیں۔ ان میں ساڑھے
تیرہ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ صرف نیویارک میں 37 ہزار افراد جن میں 16 ہزار
بچے بھی شامل ہیں، روزانہ مارکیٹوں کے چھجوں کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔
امریکہ کے بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے
روزگار ہوچکے ہیں۔ امریکہ میں ایسے درجنوں گروپ اور جماعتیں قائم ہوچکی ہیں
جو امریکہ سے اپنی ریاستوں کی مکمل آزادی کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس سلسلے
میں کئی جماعتوں نے امریکی وفاقی حکومت کے غیر معمولی اختیارات کے خاتمے
اور امریکی ریاستوں کی مکمل آزادی اور علیحدگی کا حق دینے کیلئے قانون سازی
کا مطالبہ کیا ہے۔ ان تنظیموں کا مؤقف یہ ہے کہ امریکہ کی وفاقی حکومت انکی
ریاست سے جو ٹیکس وصول کرتی ہے اس کا بہت ہی کم حصہ ریاست کی فلاح و بہبود
پر خرچ کرتی ہے جبکہ امریکی حکومت امریکی عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی سے دنیا
کے مختلف حصوں میں جو بھی فوجی کاروائیاں کررہی ہے اس کا بوجھ ٹیکسوں کی
شکل میں امریکی عوام پر ہے اور انہیں شدید معاشی و اقتصادی مشکلات کا سامنا
کرنا پڑ رہا ہے۔
آج ۶ اگست ۹۰۰۲ہے۔ اس اندوہناک واقعے کو گزرے ۴۶ برس گزر گئے ۔ ہیروشیما
میں مرنے والوں کی یاد میں آج شہر کے امن پارک میں تقریبات ہوں گی۔ مرنے
والوں کی یاد میں شہر کی بڑی گھنٹی بجائی جائے گی اور شہر کے امن پارک میں
گلدستے رکھے جائیں گے۔ مرنے والوں کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی
جائے گی۔ لیکن دنیا کے باسی جو امن چین سے رہنا چاہتے ہیں، امریکی عوام سے
یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے ٹیکس پر پلنے والی امریکی حکومت کب تک دنیا میں امن
کے نام پر انسانوں کا قتل عام کرتی رہے گی |