آئی ایم ایف کا پاکستان حکومت
کوحکم نامہ وصول ہو گیا۔بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے ۔سرکاری تحویلات
کے کاروباری اداروں کی نجکاری کے منصوبے پر جلد عمل کیا جائے ۔ ٹیکس بڑھائے
جائیں ۔حکومت سبسڈی ختم کرے ۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑی دلیری سے عوام کے
سامنے کہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کی کسی ڈکٹیشن کے پابند نہیں ۔اگلے ہی روز
آئی ایم ایف کی سخت ڈکٹیشن سامنے آ گئی۔امریکہ نے سختی سے کہا کہ اگر تورخم
سے نیٹو سپلائی بحال نہ ہوئی تو پاکستان کی امداد بند کر دی جائے گی۔
ہم کیوں منافقت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔اصل صورتحال سے عوام کو با خبر کرنے
سے کیوں کتراتے ہیں؟غلامی کی زندگی گزارنا ہے تو کیوں بڑھکیں مارتے ہیں ؟کیوں
حقیقت کو تسلیم کرنے سے گھبراتے ہیں؟ایسے بہت سے سوالات ہیں جو ہر پاکستانی
کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح ضرب لگاتے ہیں۔ جس سے اس کی عام زندگی تو متاثر
ہوتی ہے ، ملک کو بھی نقصان ہوتا ہے۔اس سچائی کو مان لینا چاہئے کہ ہم
غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ہم دوسروں کی ظاہری چمک دمک کو دیکھ کر ان
کی نقل کرنا اپنے لئے فخر سمجھتے ہیں۔اسی وجہ سے پوری عوام کو مادہ پرستی
کی جانب دکھیل دیا گیا ہے۔ جس سے ان کا ذہن منتشر ہو کر رہ گیا ہے۔ سکون
نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ۔اچھائی برائی کا فرق مٹ گیا ہے۔حرام حلال
کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسا کیونکر ہوا……؟
ہمارا ایمان کمزور ہو چکا ہے ۔ہم سفید فام لوگوں کے پجاری بن چکے ہیں ان کی
ہر بات کو فوراً مان لیتے ہیں ۔ذہنی طور پر ان کے بندے بن گئے ہیں جبکہ وہ
لوگ چمکتی دھاتوں کو پوجتے ہیں ۔وہ اپنی اغراض کے بندے ہیں ۔ بظاہر تو
انہوں نے علم و ہنر کی بہت روشنی پھیلا رکھی ہے لیکن حقیقت اس کے بلکل
برعکس ہے ۔وہ ایسی تاریکی میں ڈوب چکے ہیں، جس میں آبِ حیات کا کوئی چشمہ
موجود نہیں ۔ ان کا علم و ہنر مادیت پر استوار ہیں ، وہ لوگوں کو ایسی
کشمکش میں مبتلا کر دیتے ہیں، جس سے مادی و سائل تو میسر آ جاتے ہیں لیکن
سکون قلب ختم ہو جاتا ہے ۔ بظاہر تو بینکوں ، سٹاک مارکیٹوں اور دفاتر میں
تجارت ہو رہی ہے لیکن حقیقت میں جوأ ہو رہا ہے ۔ فرضی خریدو فروخت ہوتی ہے
، کوئی اچانک بے شمار رقم کما لیتا ہے اور کروڑ پتی بن جاتا ہے ، لاکھوں
لوگوں کی رقم اچانک ڈوب جاتی ہے ،گویا انہیں اچانک موت آ جاتی ہے۔ ہمارے
ہاں ڈالر کی خراب صوتحال کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ جس کی وجہ سے مہنگائی میں
دن بدن اضافہ ہو جاتا ہے۔ درآمد و برآمد مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے ۔ڈالر کے
بڑھنے سے درآمد وبرآمد کرنے والوں کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑتا
ہے،انڈسٹری آڈر پورا نہیں کر پاتیں اور بند ہو جاتیں ہیں۔لوگ بے روزگار ہو
جاتے ہیں ،لاکھوں لوگوں کے گھروں کے چولھے بجھ جاتے ہیں۔
ہمیں حکم دینے والے آقا علم و دانائی ، فہم و فراست اور نظام حکومت کی
تعلیم دیتے ہیں لیکن عملاً عام لوگوں کا خون پی رہے ہیں اور نچلے طبقے کو
مزید مفلوک الحال بنا رہے ہیں۔ یہ ان کے اپنے مفکر ’’تھورو‘‘ کا کہنا ہے کہ
’’مغرب کے اکثر لوگ قرضے اتارنے کے لئے زندگی بھر محنت کرتے رہتے ہیں‘‘۔ان
کی تہذیب و تمدن نے بے کاری ، عریانی ، شراب نوشی اور مفلسی ہر جانب پھیلا
دی ہے ۔سرمایہ داری نظام کی وجہ سے بے روزگاری اور بے حیائی عام ہوتی جا
رہی ہے۔ ذہنی سکون نہ ہونے کی وجہ سے نشے کے عادی افراد میں دن بدن اضافہ
ہو رہا ہے۔کیا یہی کامیاب لوگ ہیں ؟ جن سے ہم متاثر ہیں،ان سے سیکھنا چاہتے
ہیں ، ان کے ہر عمل کو بہترین سمجھتے ہوئے اپنانا فخر سمجھتے ہیں؟
شاید ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کا یہ سرمایہ دارانہ نظام غیر مستحکم
ہے،ہمارے جیسے ممالک کو قرضوں میں جکڑ کر انہوں نے وقتی طور پر اپنے آپ کو
سہارا تو دے دیاہے لیکن یہ زیادہ دیر پا نہیں ہو گا۔ ان کی عارضی کامیابی
ایک دن زوال کا سبب بنے گی۔
انسانی زندگی روحانیت اور مادیت کے توازن پر استوار ہے۔ہم مادی زندگی کی
خواہشات کو پورا کرنے میں اتنا الجھ جاتے ہیں کہ روحانی خوشیوں سے محروم ہو
جاتے ہیں اور خدا کے بنائے ہوئے نظام کی تفہیم و تحسین سے محروم رہتے
ہیں۔ہمیں اس حقیقت سے آشنا ہونا ہو گا کہ ہم جب تک ان نام نہاد آقاؤں کے
شکنجے سے نہیں نکلیں گے ۔ ذلیل و خوار ہونگے ۔کوئی کامیابی مستقل نہیں ہو
گی ۔ اس کے لئے ہمیں ان سے متاثر ہو کر ان کی نقل کرنے کی بجائے اپنے اصل
کو پہچاننا ہو گا ۔ خدا نے ’’توازن‘‘ کو انسان کی سب سے بڑی صفت بنایا
ہے۔ہم اس توازن کے ساتھ زندگی گزاریں گے تو دنیا و آخرت میں تمام نعمتوں سے
مستفید ہو نگے،وگرنہ جو قانون قدرت پر نہیں چلتا جلد ختم ہو جاتا ہے۔ |