پروفیسر مظہر ۔۔۔۔۔ سرگوشیاں
بدنصیبی ہے ، فقط بد نصیبی کہ زباں نے دل کی رفاقتوں سے مُنہ موڑ لیا ہے
اور چشمِ بینا کے مشاہدوں سے یکسر مختلف جا بجا جھوٹ کی فصل اگائی جا رہی
ہے ۔اِس قحط الرجال میں کوئی ایسا اہلِ فکر و نظر اور صاحبِ بصارت و بصیرت
نظر نہیں آتا جو جھوٹ سے سچ کو نتھار کے رکھ دے البتہ ’’نا روا‘‘ کو ’’روا‘‘
کہنے والے ایسے بیشمارجو مسیحائی کے دعویدار بھی ہیں اور یہ ضِد بھی کہ
اُنہیں مسیحا مان لیا جائے ۔لیکن گِرگٹ کی طرح پَل پَل رنگ بدلنے والوں پر
کیسے ایمان لے آؤں کہ
قول کے کچے لوگوں سے نسبت پہ کیسا ناز
دھوبی کے کتے کا کیا ہے جس کا گھر نہ گھاٹ
ہر کسی کی اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ اورڈُگڈگی بجا کر ’’تماشا‘‘
کرنے والے بھی ڈھیروں ڈھیر۔ہم فقط بندر کہ جنہیں ناچنا تو آتا ہے ، نچانا
نہیں ، ہر گز نہیں ۔
میڈیا آزاد ہوا تو ہم نے سُکھ کا سانس لیا کہ اب جمہورت پلے گی ، بڑھے گی ،
پھولے گی، پھلے گی لیکن میڈیا کچھ زیادہ ہی ’’آزاد ‘‘ اور بے باک ہو گیا
۔یہ آزادی و بے باکی بھی گوارا تھی کہ کوئی تو ہے جو اونچے ایوانوں کے
باسیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے ۔لیکن میڈیا کے
مہربانوں نے اپنے اپنے قبلے سجا لیے ۔عوامی افراتفری کے لیے تو ’’مُلّا‘‘
ہی کافی تھے جنہوں نے قوم کو فرقوں میں بانٹ کر اپنی آڑھت سجا رکھی ہے لیکن
آزاد و بیباک میڈیا نے اُن سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل کر قومی یکسوئی و
یکجہتی کوہی بھسم کر ڈالا ۔الیکٹرانک میڈیا کے ہر چینل کا ہر اینکراپنے
اپنے خداؤں کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز نظر آتا ہے اور پرنٹ میڈیا کا ہر لکھاری
اپنے اپنے ممدوح کی مدح سرائی میں مشغول ۔ریٹنگ بڑھانے کے شوق نے اُس
یکسوئی کو دریا برد کر دیا ہے جسکی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ سچ تو یہی ہے
کہ اب سچ کے کھلیانوں کو جھوٹ کے بارود نے یوں اُجاڑا ہے کہ سچ کی کھیتیوں
میں سَرسوں کے پھولوں کی طراوت سے ذہنی بالیدگی قصّۂ پارینہ بن چکی ہے ۔
محترم عمران خاں صاحب نے لاہور کی مال روڈ پر محفل سجائی ۔اجتماع مہنگائی
کے خلاف تھا لیکن اِس محفل میں مہنگائی کا مارا کوئی ایک بھی نظر نہ آیا
۔ہر سو میلے کا سا سماں تھا ، بھنگڑے ڈالے جا رہے تھے ، بندر نچائے جا رہے
تھے اور موسیقی کی دھنوں سے دل گرمائے جا رہے تھے ۔مہنگائی کا تو صرف بہانہ
تھا، اصل قصّہ یہ تھا کہ محترم عمران خاں صاحب نے بلدیاتی انتخابات جیتنے
کا ڈول ڈالا اور ایک دفعہ پھر اپنے سونامی کو لے کر محوِ سفر ہوئے ۔پہلا
پڑاؤ ’’تختِ لاہور‘‘ کہ اُسے سَر کرنے کی خواہش نے خاں صاحب کو عرصۂ دراز
سے بے چین کیا ہوا ہے ۔ایک تماشا ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی دکھایا تھا ،
وہ بھی کنٹینر پر سوار ہو کر ملک بچانے نکلے تھے لیکن نیتوں کے فتور نے
اُنہیں اپنا بستر بوریا سمیٹ کر اپنے دیس ’’کینیڈا‘‘ جانے پر مجبور کر
دیا۔اب ایک تماشا تحریکِ انصاف دکھا رہی ہے ۔وہی کنٹینر، وہی سردیوں کی
ٹھٹھرتی شامیں ، وہی ٹسوے ، وہی ڈُگڈگی اور اُس پر ناچنے والے بھی وہی
۔محترمہ مریم نواز کہتی ہیں کہ ’’لاہوریے‘‘ بڑے ظالم ہیں جنہوں نے پہلے خاں
صاحب کو ووٹ نہیں دیئے اور اب اُن کے احتجاج میں بھی شریک نہیں ہوئے جبکہ
میاں محمود الرشید اور عبد العلیم کامیاب شو پر مبارکبادیں وصول کر رہے ہیں
۔ پنڈی والے شیخ رشید صاحب کو انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آنے لگا
اور شایدشیخ صاحب کے اسی ’’سمندر‘‘سے متاثر ہو کر خاں صاحب نے بھی کہہ دیا
کہ اب قوم کو پتہ چل گیا ہو گا کہ 11 مئی کو دھاندلی ہوئی تھی ۔اِس احتجاج
کو کوئی 10 ہزار کا اجتماع کہہ رہا ہے تو کوئی بیس ہزار کا لیکن تحریکِ
انصاف کے نزدیک یہ مجمع پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان تھا ۔اگر حاضرین
کی تعداد پچاس ، ساٹھ ہزار بھی تھی تو پھر بھی اسے کامیاب شو قرار نہیں دیا
جا سکتا کیونکہ تحریکِ انصاف نے بلدیاتی انتخابات کے لیے منتخب کردہ اپنے
ٹکٹ ہولڈرز کو اِس احتجاج میں بھرپورشرکت کا حکم دے رکھا تھا۔ سبھی جانتے
ہیں کہ مقامی سطح پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ذاتی تعلقات کا عنصر
سب سے موثر کردار ادا کرتا ہے ۔اِس لحاظ سے یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر
بھی نہیں۔اِس لیے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے
بعد تحریکِ انصاف ایک دفعہ پھر دھاندلی کا علم بلند کیے سڑکوں پر ہو گی ۔
اگر تحریکِ انصاف کا یہ احتجاج واقعی مہنگائی کے خلاف تھا تو پھر خاں صاحب
کو یہ احتجاج خیبر پختونخواہ میں اپنی ہی حکومت کے خلاف کرنا چاہیے تھا
جہاں مہنگائی کا عفریت مفلسی نہیں ، ہر مفلس کو نگلتا جا رہا ہے اور اشیائے
خورو نوش کی قیمتیں پنجاب سے کہیں زیادہ ہیں ۔خاں صاحب سے جب بھی یہ سلگتا
سوال کیا جاتا ہے کہ خیبرپختونخواہ میں اتنی مہنگائی کیوں ہے تو وہ آئیں
بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں ۔ یادش بخیر ، اُنہوں نے یہ فرمایا تھا کہ قوم
کو چھ ماہ کے اندر خیبرپختونخواہ حکومت میں واضح فرق نظر آنے لگے گا ۔چھ
ماہ تو گزر چکے لیکن وہ ’’فرق‘‘ کہیں نظر نہیں آتا البتہ اپنوں کو جی بھر
کے نوازنے کا سلسلہ ضرور دراز ہوتا چلا جا رہا ہے ۔اب تو خاں صاحب کو یہ
ادراک کر لینا چاہیے کہ یہ جذباتی قوم تھوڑی بے وقوف ضرور ہے لیکن اتنی بھی
نہیں جتنا کہ اُنہوں نے سمجھ رکھا ہے ۔اُنہوں نے مینارِ پاکستان پر ایک
انتہائی موثر اور کامیاب شو کا انعقاد کرکے اہلِ سیاست و ثروت کے ایوانوں
میں ہلچل تو ضرور پیدا کی لیکن اُن کی نیت اُس وقت قوم پہ آشکارا ہو گئی جب
اُنہوں نے وہی پرانے ، پِٹے ہوئے اور دیمک زدہ چہرے اپنے ساتھ ملا کر یہ
اعلان کر دیا کہ آسمان سے فرشتے کہاں سے لاؤں ، انہی سے گزارا کرنا ہو گا
۔اُس دن سے اوجِ ثریا پہ مقیم خاں صاحب کی تنزلی کا سفر شروع ہوا جو تا حال
جاری ہے اور تب تک جاری رہے گا جب تک خاں صاحب تلخ حقیقتوں کا ادراک نہیں
کر لیتے ۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ نواز لیگ نے قوم کو مایوس کیا ہے ، بہت مایوس لیکن
کچھ لوگ وقت کے عنصر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اب بھی اس سے اُمیدیں باندھے
بیٹھے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ تا حال نواز لیگ کو ملکی سطح پر کسی مشکل صورتِ
حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔اگر تحریکِ انصاف کے عقیل و فہیم اصحاب کپتان
صاحب کو یہ مشورہ دیتے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں صوبہ خیبرپختونخواہ کو
ایک ماڈل صوبہ بنانے میں صرف کر دیں تو شاید یہ صرف نواز لیگ ہی نہیں ،
دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہوتا اور جب لوگ خیبر پختونخواہ
کو بطور’’ماڈل‘‘ پیش کرنے لگتے تو اقتدار کے ایوانوں میں بھی کچھ ہلچل
محسوس ہونے لگتی اور مقتدر ہستیاں اپنا سیاسی مستقبل بچانے کے لیے قوم کی
اشک شوئی کی طرف متوجہ ہو جاتیں ۔اگر پھر بھی اونچے ایوانوں میں ہلچل پیدا
نہ ہوتی تو لاریب خاں صاحب قوم کے واحد اور مسلمہ رہنما بن کر اُبھرتے اور
اُنہیں دھرنوں کی ضرورت ہوتی نہ احتجاجی سیاست کی ۔لیکن خاں صاحب نے اپنا
اندازِ سیاست بدلا نہ مستقبل قریب میں بدلنے کے آثار نظر آتے ہیں ۔بخدا جی
یہی چاہتا ہے کہ خاں صاحب قوم کی بھلائی کے لیے کچھ ایسا کر گزریں کہ ہم
جیسے ناقدین بھی بے اختیار اُن کی تحسین کرنے لگیں لیکن خاں صاحب نے جو
وطیرہ اختیار کر رکھا ہے اُسے دیکھ کر تو سوائے مایوسیوں کے اور کچھ دکھائی
دیتا ہے نہ سجھائی ۔کاش کہ قدرے ضدی لیکن عزمِ صمیم کے حامل ، انتھک محنت
کرنے اور ناکامیوں سے دل برداشتہ نہ ہونے والے محترم عمران خاں صاحب راہِ
راست اختیار کرتے ہوئے اپنے سونامی کا رُخ کرسیٔ اقتدار کی بجائے مجبوروں
اور مقہوروں کی طرف موڑ لیں کہ اسی میں اُن کا بھلا ہے اور ملک و قوم کا
بھی ۔ |