سانحہ گوجرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام اور پاکستان کے خلاف ایک سازش

تحمل، برداشت، رواداری، صبر اور ایک دوسرے کے مذہب اور مذہبی تعلیمات کے احترام کا جذبہ جب ختم ہوجائے تو حادثات اور سانحات کا جنم لینا ایک لازمی امر ہے، گزشتہ دنوں گوجرہ میں پیش آنے والا سانحہ جس میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف احتجاجی جلوس کے دوران مشتعل ہجوم نے دو گرجا گھروں سمیت عیسائیوں کی پوری بستی کو آگ لگانے کی کوشش کی اور اس ہنگامہ آرائی میں آٹھ افراد زندہ جل کر اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، جبکہ چالیس سے زائد گھروں کو جلنے کی وجہ سے نقصان پہنچا اور دو طرفہ فائرنگ کے تبادلے میں میں ایک ڈی ایس پی سمیت ٹی ایم اے اور 20افراد زخمی ہوئے، اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

30 جولائی کو ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ میں پیش آنے والے اس گھناؤنے واقعے نے پورے ملک میں تشویش کی ایک لہر پیدا کردی ہے، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو پڑوسی ملک بھارت کے مقابلے میں ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا گیا اور وہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ آزاد، آسودہ حال اور خوشحال ہیں، لیکن حالیہ واقعہ سے جس طرح اس چنگاری کو شعلہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے، وہ واقعتاً تشویشناک ہے۔

اس واقعے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے پنجاب کے وزیراعلیٰ سے رابطہ کر کے حالات معلوم کیے اور وزیر داخلہ نے اس موقع پر گوجرہ کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، اس واقعے پر غفلت برتنے پر ایک ڈی ایس پی سمیت کئی پولیس افران کو معطل کیا جا چکا ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ علاقہ میں سخت کشیدگی برقرار ہے اور رینجرز و پولیس کے دستے شہر میں گشت کررہے ہیں۔

جبکہ حکومت پنجاب کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں گوجرہ میں ہونیوالے ناخوشگوار سانحہ میں آٹھ افراد کی ہلاکت، کئی افراد کے زخمی ہونے اور درجنوں مکانات کو آگ لگا کر تباہ کرنے سمیت دہشت گردی پھیلانے کے جرم میں پولیس تھانہ سٹی گوجرہ نے ڈی سی او ڈی پی او اور 17 دیگر نامزد افراد سمیت 800 نامعلوم ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت سنگین نوعیت کی کئی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی درخواست پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایک انکوائری کمیشن بھی تشکیل دے دیا ہے جس نے اپنی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے ۔

یوں تو انتظامی غفلت کا مظاہرہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا خاصہ ہے، لیکن سانحہ گوجرہ اس اعتبار سے اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ اس میں انتظامیہ کی جانب سے غفلت اور لاپرواہی کی انتہا کر دی گئی ہے، مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ جھگڑا ایک شادی کیلئے ہونے والی تقریب میں قرآن مجید کی بے حرمتی سے شروع ہوا، جس پر مقامی مسلمانوں نے اعتراض کیا، لیکن یہ اعتراض ایک بلوے میں کس طرح تبدیل ہوا اور اس کہانی کے کرداروں میں ایک کالعدم تنظیم کے شر پسند عناصر کیسے داخل ہوئے، یقینی طور پر اس بات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔

زیادتی جس فریق کی جانب سے بھی کی گئی، تب بھی جھگڑا اس حد تک بڑھ جانے کی امید نہ تھی اگر اگلے روز شدت پسندوں کی ایک جماعت اسلام کی ٹھیکیدار بن کر وہاں نہ پہنچتی اور چالیس سے زائد گھروں کو آگ نہ لگائی جاتی، تو کبھی بھی اس قسم کے حالات جنم نہیں لیتے، گوجرہ میں رونما ہونے والے افسوسناک واقعات کا پس منظر دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مقامی انتظامیہ اگر ابتداء ہی میں اس معاملے کو کنٹرول کرلیتی اور قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے والے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے کارروائی کا آغاز کرتی توآج یہ صورتحال ہرگز پیدا نہ ہوتی ۔

بعد کے واقعات سے ایک بات اور بھی بہت واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ بنیادی غلطی مقامی انتظامیہ کی ہے اور یہ سوالات جواب طلب ہیں کہ جس وقت مشتعل مظاہرین بستی کی طرف بڑھ رہے تھے، اس وقت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں تھے، جس وقت قرآن کی بے حرمتی کا واقعہ رونما ہوا تھا اور مقامی لوگوں نے متعلقہ افراد کو پکڑ کر انتظامیہ کے حوالے کرتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی کار کاٹنے اور انہیں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا، اس وقت انتظامیہ نے اس مذموم کاروائی میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی۔

درحقیقت یہی وہ اصل عوامل ہیں، جنکی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں اور جس کی وجہ سے پاکستان دشمنوں کو اس واقعے سے نہ صرف پاکستان اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک موقع ہاتھ آگیا ہے بلکہ اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے پاکستان کے سابقہ شفاف ریکارڈ بھی خراب کرنے کوشش کی گئی ہے ۔

یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں تسلسل کے ساتھ قرآن پاک کی بے حرمتی اور توہین رسالت جیسے مذموم واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہے ہیں، جن پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا برانگختہ ہونا ایک فطری عمل ہے، عام مشاہدہ یہ ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف بر وقت کارروائی نہیں ہو پاتی اور اگر کبھی کوئی کارروائی ہو بھی جائے تو مسلمانوں کی دل آزاری کے مرتکب یہ عناصر ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور جب وہ ایسے لوگوں کو جن پر توہین رسالت اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے الزامات ہوتے ہیں، سر عام آزادانہ گھومتے پھرتے دیکھتے ہیں تو وہ لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں، جس کی وجہ سے سانحہ گوجرہ جیسے افسوسناک واقعات جنم لیتے ہیں۔

ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جب عوام قانون ہاتھ میں لینے سے گریز اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے اہانت قرآن اور توہین رسالت کے ملزمان کوانتظامیہ کے حوالے کرتے ہیں تو انتظامیہ کو بھی ایسے افراد کو رعایتیں اور تحفظ دینے کے بجائے ان کے خلاف قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دلوانے کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کا خود قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے۔

پاکستان کا کردار ہمیشہ اقلیتی آ زادی کے حوالے سے پوری دنیا میں سراہا جاتا رہا ہے، لیکن آج اس سانحے کی وجہ سے ایک سوال بن گیا ہے، پاکستان میں مسلمان اور اقلیتیں ہمیشہ شیر و شکر رہی ہیں، دوسری طرف حکومت اور معاشرے سے بھی غیر مسلموں کو کبھی شکایت نہیں رہی، پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں آج تک کوئی اس حوالے سے ہماری جانب انگلی نہ اٹھا سکا تھا کہ کبھی ہم نے اقلیتوں کے امور پر کوئی غفلت برتی ہو اور کبھی بھی یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ پاکستان میں کسی نان مسلم کو مذہب کے نام پر کوئی گزند پہنچی ہو یا ان کے حقوق غصب کیے گئے ہوں۔

پاکستان ہمیشہ سے اقلیتوں کے حقوق کا ضامن رہا ہے اور اس طرح کے واقعات پاکستان میں کبھی سننے کو نہیں ملے، ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک پہلے ہی اندرونی طور پر دہشتگردی کا شکار ہے، اس قسم کے مذہبی منافرت پر مبنی واقعات جلتی پر تیل کا کام کریں گے، موجودہ وقت میں قومی یکجہتی کی بے حد ضرورت ہے، کیونکہ لسانی اور مذہبی اور قومی عصبیت مضبوط سے مضبوط قوموں کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔

آج دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اس میں اگر پاکستان سے مخاصمت رکھنے والے لوگ سرفہرست ہیں تو کچھ اپنے بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، پاکستان کو بدنام کرنے کا ان کو محض ایک بہانہ چاہیے، ایسے میں پاکستانیوں کے اندر اتحاد و یگانگت کی اشد ضرورت ہے، نہ کہ گوجرہ جیسے واقعات رونما ہوں، اس نوعیت کے واقعات کا اس لئے بھی سدباب ضروری ہے کہ پاکستان اور مسلمانوں کے درپے دشمن قوتیں اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور ایسے واقعات کو ہمارے خلاف منفی پراپیگنڈہ کے طورپراستعمال کرتی ہیں۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اقلیتوں کو ہمیشہ بھر پور مذہبی، معاشرتی، ثقافتی آزادی دی اور کبھی بھی اقلیتوں کے حقوق پر کوئی آنچ نہیں آنے دی، لیکن گوجرہ کے سانحے نے دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے، ان حالات میں آئی جی پنجاب کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ سانحہ گوجرہ میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے، جہاں یہ غیر ملکی ہاتھ بلوچستان، وزیرستان، باجوڑ، سوات اور مالاکنڈ میں آگ لگانے کا مؤجب بنا ہوا ہے، وہیں اب گوجرہ جیسے واقعات کو جنم دے کر وطن عزیز کو غیر مستحکم کر کے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ کوئی بھی بیرونی طاقت اس وقت تک کسی ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتی جب تک اندر سے ہی اس کا ساتھ دینے والے لوگ موجود نہ ہوں، اس سانحے میں بھی بیرونی ہاتھ کے ساتھ ساتھ اندرونی طاقتیں بھی بر سر پیکار ہیں، جن پر توجہ دینے اور انہیں بے نقاب کرنے کی شدید ضرورت ہے، پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو بلا امتیاز معاشی، سیاسی اور مذہبی آزادی حاصل رہی ہے اور پاکستانی معاشرہ میں عوامی رویے بھی اس بات کے مظہر ہیں کہ یہاں کے مسلمان کسی بھی اقلیت کے بارے میں کوئی مذہبی پرخاش نہیں رکھتے۔

شاید انہی قابل رشک روایات کو داغدار کرنے کیلئے پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصہ سے مذہبی، علاقائی اور لسانی منافرت کو ہوا دینے والے واقعات رونما ہورہے ہیں، چنانچہ اب یہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سانحہ گوجرہ کے پرتشدد واقعات کی غیر جانب دارانہ تحقیقات اور اصل حقائق عوام کے سامنے پیش کرے اور جن فتنہ پرور لوگوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے اور اس کے بعد ملک دشمن شر پسندوں کی ایماء جو پر تشدد واقعات رونما ہوئے انہیں بے نقاب کر کے اصل ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر قرار واقعی سزادے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جاسکے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313726 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More