صبح آزادی کا قرض ابھی باقی ہے
ابھی تک نا مکمل ہے مگر تعبیر آزادی
امرتسر کی تنگ و تاریک گلی میں موہن سنگھ نے محتاط نظروں سے اپنے چاروں طرف
دیکھا کہ کہیں کوئی ہندو یا کوئی سکھ اُسے ایک مسلمان راہگیر کے ساتھ دیکھ
نہ لے، اپنے گرد و پیش سے مطمئین ہونے کے بعد اُس نے کہا اچھا ہوا تم مجھے
مل گئے، یہ میرے پاس تمہارے لئے ایک امانت ہے، پھر اُس نے اپنی جیب سے سلے
ہوئے کپڑے کا رومال نکالا اور اُس کی گرہیں کھول کر اندر سے ایک چھوٹا سا
تعویز نکالا اور مسلمان راہگیر کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ” آج میرا بوجھ
ہلکا ہوگیا، آج موہن سنگھ سرخرو ہوگیا“ تعویز لینے والے مسلمان راہگیر نے
موہن سنگھ سے پوچھا یہ تعویز کس کا ہے اور تمہیں کہاں سے ملا۔
یہ سوال سن کر موہن سنگھ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ،اُس نے بتایا کہ چند دن
پہلے جب مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا، ہندوؤں اور سکھوں کے جتھے مسلمان
محلوں پر حملہ آور تھے، وہ بوڑھے جوانوں اور بچوں کو قتل کر رہے تھے،
مکانوں کو آگ لگا رہے تھے اور عورتوں کی بے حرمتی کر رہے تھے، ایسے میں ایک
رات میں ایک چوک سے گزر رہا تھا کہ وہاں چند ہندو غنڈے نشے میں بدمست بیٹھے
ہوئے تھے، انہوں نے مجھے روکا اور مجھ سے پوچھا کہاں جارہے ہو میں نے انہیں
بتایا کہ میں گھر جارہا ہوں، انہوں نے مجھے کہا آؤ تمہیں سورگ (جنت) کی سیر
کراتے ہیں، میں اُن کا اشارہ سمجھ گیا کہ شاید کوئی مظلوم مسلمان لڑکی اُن
کے ہاتھ چڑھ گئی ہے۔
انہوں نے مجھے کہا جاؤ تم بھی موج کرلو اور ساتھ والی کوٹھری کا دروازہ
کھول دیا، میں نے دیئے کی روشنی میں دیکھا کہ چارپائی پر ایک سترہ سالہ
نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی، جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور بال یوں بکھرے
ہوئے تھے جیسے زبردستی نوچے کھسوٹے گئے تھے، لیکن اُس کی آنکھوں میں شیرنی
کی سی چمک تھی، مجھے دیکھتے ہی اُس نے کہا ”خبردار میرے قریب مت آنا“میں نے
کہا بہن میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا، بہن کا لفظ سن کر اسے کچھ تسلی ہوئی،
اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کا نام نام رقیہ ہے اور اِن غنڈوں نے میرے باپ،
بھائی اور خاندان کو قتل کردیا ہے اور مجھے اٹھا کر یہاں لے آئے ہیں۔
لیکن انہیں علم نہیں کہ ایک مسلمان عورت اپنی عزت کی حفاظت کیسے کرتی ہے،
اُس نے اپنے گلے سے ایک تعویز اتارا اور میرے قریب آکر مجھے دیتے ہوئے کہا
یہ میری امانت ہے اسے کسی مسلمان کو دے دینا اور اِس دوران اُس نے چھپٹ کر
میرے گلے میں لٹکی ہوئی کرپان کو زور سے اپنے سینے میں اتار لیا، خون کا
فوارہ اُس کے سینے سے ابل پڑا اور تھوڑی دیر وہ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈی ہوگئی،
دیئے کی دھیمی روشنی میں اُس کے چہرے پر ایک ایسا سکوت اور نور تھا جس سے
میں خوفزدہ ہوگیا اور تعویز جیب میں ڈال کر بھاگ نکلا، اُس دن سے میں کسی
مسلمان کو ڈھونڈ رہا ہوں تاکہ یہ امانت میں اُس کے سپرد کرسکوں، میری سمجھ
میں نہیں آتا کہ ایک مسلمان عورت اتنی بہادری سے اپنی عزت کی حفاظت کیلئے
کس طرح جان دے سکتی ہے“۔
میرے دوستوںیہ کوئی کہانی یا داستان نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے دوران پیش
آنے والا ایک ایسا حقیقی واقعہ ہے جو پاکستان کے مشہور ادیب جناب اے حمید
کے ساتھ پیش آیا تھا، ایسے ہزاروں لاکھوں لٹے پٹے قافلوں، جلتے ہوئے گھروں،
کٹے پھٹے لاشوں اور مٹی میں ملتی آبروؤں بھرے واقعات تحریک پاکستان کے
دوران برصغیر کے بچے، بوڑھے، جوانوں اور خواتین نے اپنے خون سے تاریخ کے
صفحات پر لکھ کر وطن عزیز پاکستان کی بنیاد رکھی۔
آج جب ہم اپنے بزرگوں سے جو اِن واقعات کے چشم دید گواہ اور راوی ہیں سوال
کرتے ہیں کہ آپ نے یہ قربانیاں کس لیے دی تھیں تو وہ ہمیں فوراً ہی جواب
دیتے ہیں ”اُس پاکستان کیلئے جس کا مقصد ”پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ
، قانون ریاست کیا ہوگا محمد رسول اللہ “ تھا، یہ کوئی جذباتی بات یا نعرہ
نہیں بلکہ وہ ٹھوس اور زندہ حقیقت ہے جسے بتدریج ایک منظم طریقے سے بھلایا
جارہا ہے اور ہم بھولتے جارہے ہیں۔
یہی وہ اصل حقیقت، عزم اور منزل کے حصول کے ساتھ ایک ایسا وعدہ تھا جو ہم
نے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا تھا ،اور اسی
وعدے پر مسلمانان برصغیر نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے قیام پاکستان
کی تاریخ ساز جدوجہد کی تھی، اس خواب کو تعبیر بخشنے کیلئے ہمارے قائدین نے
قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، گھر بار زمین و جائیدادیں چھوڑی اور عوام
کیلئے پاکستان کا جواز فراہم کیا، جس کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں نے آگ و
خون کے دریا عبور کئے، ماؤں نے معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھلتے
دیکھا، عورتوں نے اپنے سہاگ اجڑتے دیکھے اور گھر بار، عزیز و اقارب اور
اپنے پیاروں کے نام و نشان چھوڑ کر پاکستان کیلئے عازم سفر ہوئے اور ہجرت
کی۔
تاریخ گواہ ہے کہ غلامی کی لعنت حساس افراد اور زندہ قوموں کیلئے ہمیشہ
ذہنی اذیت، روحانی بے چینی اور قلبی درد و کرب کا باعث بنتی ہے حقیقت یہ ہے
کہ احساس غلامی اور محرومیت نے ہمیشہ محکوم اور غیور انسانوں اور غیرت مند
قوموں کے لہو کو گرم رکھا اور نتیجتاً حکمران قوموں کی ظاہری شفقت و
مہربانی اور آئین پسندی کے باوجود محکوم قوموں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ
ڈالا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے کا عمل کبھی خاموش نہیں ہوتا،
غلامی کی زنجیروں پر موت کے رقص ہوتے ہیں،آزادی کے متوالے سولیوں پر چڑھتے
ہیں، سروں کے نذرانے پیش کئے جاتے ہیں، جانوں کی قربانی دی جاتی ہے اور
شہداء کے بہتے ہوئے خون سے دریا سرخ ہوجاتے ہیں، گاؤں دیہات لٹتے ہیں، شہر
جلائے جاتے ہیں لیکن آزادی کے متوالے آگ و خون کے دریاؤں سے گزر کر آزادی
کی منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں ۔
ان آگ و خون کے دریاؤں سے گزرنے کا احساس اور تجربہ برصغیر کے مسلمانوں سے
زیادہ کسی اور قوم کو نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ غلامی کا طوق گلے سے اتارنے
کیلئے ہمیشہ سینہ سپر رہے، انہوں نے ہندو قوم کی طرح عزت و آزادی کے سودے
نہیں کئے، پلاسی کے میدان سے لے کر سرنگا پٹم کی سرزمین تک، 1857ء کی جنگ
آزادی سے لے کر تحریک خلافت، تحریک ہجرت اور تحریک عدم تعاون تک، جلیانوالہ
باغ کے المیہ سے لے کر واقعہ کانپور مچھلی بازار، سانحہ مسجد شہید گنج اور
حادثہ قصہ خوانی بازار تک، ایسے تمام مواقع پر مسلمانان ِ ہند جرات و
بہادری کے ساتھ بڑھ چڑھ کر مردانگی کا مظاہرہ کرتے رہے اور اپنے خون سے
آزادی کے چراغ روشن کرتے دکھائی دئیے۔
مسلمانان برصغیر کی جدوجہد ِ آزادی بلاشبہ انتہائی کٹھن اور صبر آزما کام
تھی اور مسلمانوں کو کئی محاذوں پر برسرپیکار رہنا پڑا، ایک طرف انگریز کی
غلامی سے نجات کا مرحلہ درپیش تھا تو دوسری طرف ہندو بنیے کے متوقع رام راج
کے برسراقتدار آنے کے خطرات لاحق تھے، انگریزوں اور ہندوؤں دونوں کی غلامی
کے طوق انہیں اپنی گرفت میں لینے کیلئے بے چین تھے، کیونکہ دونوں ہی
مسلمانوں کے ازلی دشمن تھے، انگریزوں کے ذہن سے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں
کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کبھی محو نہیں ہوسکی اسی طرح ہندو برصغیر کے
میدانوں میں سلطان محمود غزنوی، سلطان محمد غوری، ظہیر الدین محمد بابر،
احمد شاہ ابدالی جیسے مایہ ناز سورماؤں اور جری جرنیلوں کے ہاتھوں اپنی ذلت
آمیز شکستوں کے واقعات نہیں بھولے تھے۔
یہی وجہ تھی جب آزادی کی گھڑیاں قریب آئیں تو دونوں قوموں نے اپنے سینوں
میں چھپائی ہوئی برسوں کی دشمنی، نفرت اور بغض کا برملا اظہار کیا، انگریز
نے حالات و واقعات سے مجبور ہوکر مسلمانان برصغیر کا مطالبہ تو منظور کرلیا
لیکن پاکستان کے وجود کو گہری اور خطرناک ضربیں لگانے سے باز نہیں آئے،
پاکستان میں شامل ہونے والے دو بڑے صوبے بنگال اور پنجاب کو تقسیم کردیا
گیا، باؤنڈری کمیشن سے تمام بے اصولیاں کرائیں گئیں، الغرض پاکستان کو لولا
لنگڑا بنانے کیلئے انہوں نے تمام ممکنہ کوششیں روا رکھیں۔
دوسری طرف ہندوؤں اور سکھوں نے بھی اگرچہ پاکستان کے قیام پر بظاہر رضا
مندی ظاہر کردی تھی لیکن اندرونی طور پر وہ پاکستان کے وجود کو چند ساعتوں
یا چند مہینوں سے زیادہ دیکھنے کے متحمل نہیں تھے، وہ برصغیر کے مسلمانو ں
کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے اور خاص کر انہوں نے بھارت میں شامل
ہونے والے علاقوں کے مسلمانوں پر لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار
گرم کیا، مسلمانوں کے محلے قصبے، شہر اور دیہات لوٹے انہیں آگ لگائی،
ہزاروں لاکھوں بے گناہ بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کو تہہ تیغ کیا، نوجوان
لڑکیوں اور عورتوں کو اغوا کیا، نواکھلی سے لے کر لاہور تک، کشمیر سے لے کر
راس کماری تک غریب مسلمانوں پر ایک قیامت گزر گئی، پورا مسلم ہندوستان جل
رہا تھا، بہار سے لے کر مشرقی پنجاب تک آگ لگی ہوئی تھی، لیکن انگریزوں کا
”نیرو“ لارڈ ماونٹ بیٹن اور ہندوؤں کا” نیرو“ مہاراجہ پٹیالہ جو پنجاب کا
رنجیت سنگھ بننا چاہتا تھا چین سے بیٹھے بانسری بجارہے تھے، مسلمانوں کی
دنیا لٹتی رہی اور مسلمانوں کے ازلی دشمن 14اگست 1947ء کی صبح آزادی تک
بانسری بجاتے رہے ۔
چودہ اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی جمہوری مملکت پاکستان
کی شکل میں ابھری، جس کے قیام کیلئے مسلمانان ہند نے بابائے قوم قائد اعظم
محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میں ایک طویل اور صبر آزما جنگ
لڑی، یہ وہ سیاسی اور جمہوری حقوق کی بازیابی کی جنگ تھی جس کیلئے مسلمانان
ِہند نے قید و بند کی صعوبتیں تو ایک طرف ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کی
شہادت سے، ہزاروں بہنوں نے اپنی عزتوں اور عفتوں کے نذرانے دے کر اور
ہزاروں معصوموں نے بوڑھوں نے اپنی جانوں کی بازی ہار کر ظالم و متعصب
انگریزوں اور ہندوؤں سے اپنے پاک وطن کی آزادی حاصل کی۔
یہ حصول پاکستان کی طویل جدوجہد پر مبنی تاریخی واقعات زندہ اور باغیرت قوم
کی تاریخ ہیں جو آج ہمارے لئے قابل رشک اور قابل زکر ہیں، یہ اُن نیک جذبوں
اور پاکیزہ آرزوؤں کی تاریخ ہے جس کی قوت اثر سے ہندوستان کی تین سو سالہ
شب ظلمت کا سینہ چیر کر آزادی کا سورج طلوع ہوا مگر اِن پاکیزہ فولادی
جذبوں کی تاریخ کا آخری باب گیارہ ستمبر 1948ء کو بانی پاکستان حضرت قائد
اعظم محمدعلی جناح کی وفات کے ساتھ ہی ختم اور مکمل ہوگیا اور اُس کے بعد
جس تاریخ کا آغاز ہوا اُس کے صفحات پر کارناموں کی جگہ المیے رقم ہوئے۔
بابائے قوم اور شہید ملت لیاقت علی خان کی وفات کے بعد سے تا حال ہماری
قومی تاریخ المیوں در المیوں کی تاریخ ہے جس کے صفحات کا ایک سرا مقبوضہ
کشمیر کی لہو رنگ وادی، سری نگر کے خوں آلود پہاڑوں سے لے کر ڈھاکہ اور
چٹاگانگ کی خون آلود گلیوں تک پھیلا ہوا ہے تو دوسر سرا صوبہ بلوچستان و
سرحد کے کوہساروں سے لے کر کراچی کی سڑکوں تک سسکتی ہوئی مظلوم انسانیت اور
بے بسی و لاچارگی کی تاریخ بیان کرتا ہے، اِن المیوں نے ہمیں ایک متحد و
منظم قوم سے چھوٹے چھوٹے انسانی گروہوں اور بکھرے ہوئے بھیڑوں کے ریوڑ میں
تبدیل کردیا۔
انگریزوں اور ہندو بنیے سے لڑ کر پاکستان حاصل کرنے والی قوم جغرافیائی،
لسانی اور نسلی تضادات میں الجھ کر بکھر گئی، اقتدار مافیا نے کبھی
جمہوریت، کبھی اسلام، اور کبھی غریب پروری کے لبادوں میں روپ بدل بدل
کرجمہوریت کی دھجیاں اڑائیں، اسلام کے ساتھ کھلا مذاق کیا اور سیاست کا وہ
کھیل کھیلا جس کے احوال دیکھ کر شاید گورستانوں کے گل فروش بھی شرمندہ ہوتے
ہوں،سیاستدانوں کی باہمی چپقلش ،سیاسی مفادات کی کالی آندھی نے تحریک
پاکستان کے مقاصد کے ساتھ ساتھ قرار داد مقاصد کو بھی نہ صرف دھندلا کر رکھ
دیا بلکہ بانیان پاکستان اور تحریک پاکستان کے گمنام شہیدوں کی ارواح کو
بھی زخم لگائے جنہوں نے اپنا سب کچھ اس مملکت عظیم کے قیام کیلئے قربان کیا
تھا۔
قوم گزشتہ 62 برس سے اپنی ناکام تمناؤں اور حسرتوں کے لاشے اٹھائے امید بر
آس رہی جبکہ حکمرانوں نے ہر مرتبہ وطن عزیز پاکستان کے جواز کی توہین کی
اور قیام پاکستان کے بنیادی مقصد کو فراموش کردیا، قوم سے ہر مرتبہ وعدہ
خلافی کی گئی، حکمرانوں نے پاکستان کو اپنے باپ کہ جاگیر سمجھ کر اس بری
طرح لوٹا کہ آج پوری قوم کاسہ گدائی لئے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف جیسے اسلام
اور پاکستان دشمن اداروں کے سامنے کھڑی ہے جو اپنی مرضی سے ہمارابجٹ بنواتے
ہیں ہم پر ٹیکس لگواتے ہیں،۔
بخدا یہ صریحاً توہین ہے اُن جذبوں کی جو قیام پاکستان کیلئے دی جانے والی
قربانیوں کے پیچھے کار فرما تھے، یہ توہین ہے اُس خون کی جو پاکستان کیلئے
شہدا کے بدن سے بہا، یہ توہین ہے اُس نظریے کی جس کی بنیاد پر تحریک
پاکستان چلائی گئی اور یہ توہین ہے اُس تاریخ کی جس کی پیشانی پر اسلام کی
12سو سالہ حکمرانی کا تاج سجا رہا اور جس نے دنیا کو رہنے، سہنے اور جینے
کے ڈھنگ اور قرینے سکھائے۔
آج اسی قوم کی تباہی و بربادی پر باطل ہنس رہا ہے، قوم بانیان پاکستان کی
قربانیوں اور مقاصد کو بھول کر مفادات میں الجھ گئی ہے ہر کوئی کہیں بھی ہو
اپنی مفاداتی جنگ سے باہر نہیں آرہا ہے، اس وقت قوم جس دور آشوب سے گزر ر
ہی ہے وہ انتہائی خطرناک اور بھیانک منظر کی عکاسی کررہا ہے، نادان
حکمرانوں نے ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگایا جس کے خطرناک نتائج آج
برآمد ہورہے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ” سب سے پہلے اسلام “ یعنی
نظریہ پاکستان کا نعرہ بلند کرکے عالم اسلام اور صہیونی طاقتوں سے غیر
جانبدارانہ باہمی مفاہمت اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے اپنے تشخص اور
قومی حیثیت کو برقرار رکھتے لیکن وہ براہ راست یہودیوں اور صہیونیوں کی
جارحیت کے علمبردار بن کر عالم اسلام کی نظروں میں گر گئے۔
وہ جنگ جو امریکہ کل تک افغانستان اور عراق میں لڑرہا تھا آج کمال مہارت سے
اُس نے وہ جنگ پاکستان کے اندر شروع کرا رکھی ہے جس سے ہمارا اسلامی تشخص
اور مقام ہی متاثر نہیں ہورہا بلکہ اس کا براہ راست اثر ہماری آزادی اور
خود مختاری پر بھی پڑرہا ہے اور دشمن چاروں طرف سے منہ کھولے ہمیں نگلنے
کیلئے تیار کھڑا ہے لہٰذا اس نازک وقت میں ہمیں اسلام کی درخشاں تاریخ کی
روشنی میں اپنے گھوڑے ہر لمحے تیار رکھنے چاہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دشمن نے پاکستان کو کبھی معاف نہیں کیا اُس کا تو مقصد ہی
یہی تھا کہ پاکستان چند ماہ میں ختم ہوجائے لیکن وہ بابائے قوم قائد اعظم
محمد علی جناح کے اِس قول اور حقیقت کو بھول گیا کہ ”پاکستان خدا کی مرضی
ہے اور یہ مرضی پوری ہوکر رہے گی پاکستان قیامت تک زندہ رہے گا۔ “قائد اعظم
کی اس بات کا ثبوت ہر سال لوٹ کر آنے والا ہمارا یوم آزادی ہے جو یہ ظاہر
کرتا ہے کہ دشمن خواہ کچھ بھی کرلے مشیعت ایزدی یہ ہے کہ پاکستان ٹوٹنے
کیلئے نہیں بلکہ دنیا کے نقشے پر قائم رہنے کیلئے بنا ہے ۔
انشاء اللہ پاکستان قیامت تک زندہ وآباد اور قائم و دائم رہے گا، دشمن کی
کوئی چال کوئی حربہ پاک سر زمین کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا، ہم کل بھی
آزاد تھے، آج بھی آزاد ہیں اور اپنے رب کی عطا سے کل بھی آزاد رہیں گے، آج
ہم اس پاک سر زمین کے مرغزاروں، ریگزاروں، اور آباد قصبوں اور شہروں میں
اپنی آزاد فضاؤں کے ساتھ محو رقص ہیں، یہاں کی سر سبز و شاداب وادیا ں ہمیں
زندگی کے جبر سے بے خبر کئے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے دامن میں جاری دریا اور
اس کی تہوں میں چھپے خزانے ہماری توانائیوں کے جواب میں اپنا سب کچھ نچھاور
کرنے کے کیلئے تیار ہیں، یہاں کے پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندر کی وسعتیں
ہماری ہمتوں کی آزمائش کیلئے محو انتظار ہیں، قدرت کی اَن گنت عطیات اس خطہ
ارضی کے دامن میں پوشیدہ ہیں۔
لیکن افسوس کہ ہماری تمام توانائیاں سہل انگاری کی نظر ہوگئیں، ہماری
خوابیدہ صلاحیتیں کسی معجزہ کے ظہور کا انتظار کررہی ہیں، اب وقت آگیا ہے
کہ ہم سہل انگاری کے فریب اور معجزوں کے انتظار کے سحر سے باہر نکلیں اور
سوچیں کہ وہ کون سے دشمن ہیں جنہوں نے ہمیں 62 برس تک قیام کے پاکستان کی
اصل منزل سے دور رکھا ہوا ہے، پاکستان ہمارے پاس اللہ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانت ہے، یہ امانت ہے اُن شہداء کی جنہوں نے اس کی
بنیادیں اپنے گرم لہو سے اٹھائیں، یہ امانت ہے ہماری آئندہ نسلوں کی جنہیں
کل اس کا پاسبان بننا ہے۔
یاد رکھیں کہ پاکستان ایک حقیقت ہے یہ عطیہ خداوندی ہے اس نعمت سے فیضیابی
کیلئے ہمیں اپنے آپ کو پورے خلوص اور عزم صمیم کے ساتھ تیار کرنا ہوگا جس
طرح ہمارے آباء و اجداد نے اپنی انتھک محنت اور کامل جذبہ ایمان سے اسلام
کے پیغام حق کو جزیرہ ہائے عرب کے ریگزاروں سے نکال کر دنیائے عالم کے گوشہ
گوشہ تک پہنچایا تھا، آج ہمیں اُسی جذبہ اور ایمان کے ساتھ رخت سفر باندھنا
ہوگا انشاءاللہ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح و نصرت کے دروازے کھلتے جائیں
گے اور گردوں سے آج بھی فرشتوں کا نزول قطار اندر قطار ہونا شروع ہوجائے
گا، آئیے ہم سب مل کر اپنے بزرگوں کی اِس امانت کی حفاظت کریں، پاکستان کی
نامکمل عمارت کی تعمیر کریں، اور اُس تصور پاکستان کی تکمیل کریں جس کی
تخریب ہمارے دشمنوں کا مقصد و مدعا ہے، آج تکمیل پاکستان کیلئے ہمیں وہی
جذبے، وہی ولولے اور وہی قربانیاں دینا ہونگی جس کا نظارہ تشکیل پاکستان کے
وقت ہمارے آباؤ اجداد نے پیش کیا تھا، آئیے اِس قافلے کے ہم رکاب بن کر
تکمیل پاکستان کی جد وجہد کا عملی حصہ بنیئے کیونکہ جسم و جاں پر صبح آزادی
کا قرض ابھی باقی ہے۔
لہو بر سا ، بہے آنسو ، لٹے رہرو ، کٹے رشتے
ابھی تک نا مکمل ہے مگر تعبیر آزادی |