قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے افکار و نظریات

کون جانتا تھا25دسمبر1876 کو کراچی میں پیدا ہونے والا محمد علی ایک دن قائدِ اعظم بن جائے گا۔ بڑے بڑے رہنما،سیاست دان ، مشائح عظام ، علماء کرام اسکی ہر آواز پر لبیک کہنے کے لئیے ہمہ وقت تیار ہونگے۔کون جانتا تھا محمد علی دنیا کے سامنے جرء ات، بہادری،اصول پسندی، عزم و استقلال کی ایک مثال بن کر ابھرے گا۔حکیم الامت علامہ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبالؒ،پیر سیّد جماعت علی شاہ علی پوریؒ، پیر صاحب آف مانکی شریف، پیر سیّد محی الدین گولڑویؒ ، جیسے مقتدر اولیاء کرام اس عظیم بچے کی قیّادت میں جانبِ منزل کمر بستہ ہو جائیں گے۔ بظاہر شیخ جناح پونجا کے گھر پیدا ہونے والا محمد علی بھی عام بچوں کی طرح ہی تھا لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس بچے سے وہ کام لیا جو بڑے بڑے لوگ بھی نہ کر سکے ۔ تحریک پاکستان میں آنے والی مصائب و مشکلات کو دیکھا جائے تو بہادر سے بہادر آدمی کے قدم بھی لڑکھڑا جاتے ۔ ایک طرف ہندوؤں اورانگریزوں کی چلاکی ومکاری تو دوسری طرف نام نہاد ملّاؤں کے تند و تیز فتوے بھی اس عظیم قائد کو اپنے مشن سے نہ روک سکے۔اگراس عظیم مشن میں اﷲ کی مدد ونصرت اور نبی مکرمﷺ کی نظر عنایت قائدِ اعظم کے ساتھ شامل نہ ہوتی تو پاکستان بننے کا خواب کبھی شرمندہِ تعبیر نہ ہو سکتا۔اپنوں اور غیروں کی شدید مخالفت کے باوجود قائدِ اعظم محمد علی جناح ؒاپنی منزل کے حصول کے لیے کمر بستہ رہے۔ کسی نے گمراہ اور بددین کہا تو کسی نے کافر اعظم جیسے فتوے سے نوازا لیکن قائدِ اعظمؒ کے پائے استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی۔

حضرت واصف علی واصف انتہائی خوبصورت اور دلکش انداز میں اس عظیم قائد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں " وہ خلوص و صداقت کا پیکر قائدِ اعظم کہلانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ فتویٰ اسکے خلاف تھا مگر فطرت اسکے ساتھ تھی ۔ فطرت نے اس کے خلوص کو منظور کیا اور اسے قائدِ اعظم بنا دیا گیا۔ اہلِ ظاہر کا ایک گرو ہ اس وردات کو نہ پہچان سکا مگر اہل باطن پہچان گے کہ یہ فیض ہے کسی ذات کا یہ کسی نگاہ کی بات ہے۔ اہل باطن قائدِ اعظم کے ساتھ ہو گے اہل ظاہر کا یہ گروہ آج تک نہ سمجھ سکا یہ ماجرا کیا ہے قائدِ اعظم دلوں میں اتر گے اور مخالفین دلوں سے اتر گئے"

بظاہر انگریزوں کی طرح چال ڈھال رکھنے والے قائدِاعظم محمد علی جناح ؒ اﷲ تعالیٰ کے چنیدہ اور برگزیدہ بندوں میں سے تھے۔تب ہی اﷲ تعالیٰ نے مملکتِ پاکستان مدینہ ثانی کے حصول کے لئے قائدِ اعظم کا انتخاب کیا ۔ یہ خوبصورت اور ایمان افر وزواقعہ اس بات اس کی غمازی کرتا ہے۔امیر ملّت پیر سیّد جماعت علی شاہ ؒ نے قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو قرآنِ پاک ،جائے نماز،اور ایک تسبیح کا تحفہ بھیجا۔ قائدِ اعظم ؒ نے جوابی خط تحریر فرمایا اور شکریہ ادا کیا۔اور ساتھ فرمایا امیرِ ملت آب نے مجھے قرآنِ پاک اس لیے بھیجا کہ میں قرآن کو پڑھ کر اﷲ کے احکامات کو جانو اور نافذ کروں۔آپ نے مجھے جائے نماز اس لیئے بھیجا کہ جو آدمی اﷲ کی اطاعت نہ کرے اسکی قوم اس کی اطاعت نہیں کرتی۔ آپ نے مجھے تسبیح اس لئے بھیجی ہے تاکہ میں اﷲ کے رسول ﷺ پر درود پڑھوں جو اﷲ کے رسولﷺ پر درود نہیں پڑھتا اس پر اﷲ کی رحمت نازل نہیں ہوتی۔امیرِ ملت فرماتے ہیں اﷲ کی قسم محمد علی جناحؒ اﷲ کا ولی ہے۔ اﷲ نے میرے دل میں یہی بات ڈالی تھی میں نے اس کا ذکر کسی سے نہیں کیا محمد علی جناحؒ کو میری نیت کا کیسے معلوم ہو گیا؟؟

علامہ شبیر احمد عثمانی سے کسی نے پوچھا آپ ایک دم تبدیل کیسے ہو گے ؟ آپ فرماتے ہیں میں بھی قائدِ اعظم کا مخالف تھا رات کو خواب میں محمدمصطفی ﷺ کی زیارت ہو تی ہے آپ ﷺ خواب میں فرماتے ہیں یہ میرا سپاہی ہے اس کی مخالفت نہ کرنا۔

ایسے ایمان افروز واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ لیکن نام نہاد روشن خیال سیکولرطبقہ ، کانگریسی ملّاؤں کی روش پر چلتے ہوئے آج بھی قائدِ اعظم کو گمراہ ، لادین ، سیکولر اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی لازوال قربانیوں کی بدولت میں ہم نے اس عظیم لیڈر سے کیا سلوک کیا؟ جب میں میں سوچتاہوں تو یقین جانیے میری آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں مجھے ایک طرف قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے بے پناہ احسانات نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ملّاؤں کے خود ساختہ فتوے میری شرمندگی میں مزید اضافہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

قارئین! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ضرورسوچیئے گا۔ کیاہم نے بابائے قوم کے ساتھ ظلم نہیں کیا؟ کیا ہم نے اس عظیم قائد کے ایمان پر حملے نہیں کیے ؟کیا نام نہاد کانگریسی ملّاؤں نے امت مسلمہ کے عظیم سپاہی کو کافرِ اعظم نہیں کہا؟کیا ہماری ٹی وی سکرین پر بانی ِپاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی توہین و تضحیک نہیں کی جاتی؟ یقینا یہ سب ہوا ہے اور ہم نے ہی کیا ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے اگر ہم سمجھ جائیں تو ؟ آج چھ دھائیاں گزرنے کے باوجود ہم قائدِ اعظم ؒ کی ذات پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنے محسنوں کے ساتھ غداری کی۔ ہم احسان فراموش قوم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کے ہم ترقی کے بجائے تنزلی کی راہ پر گامزن ہیں ۔ اگر ایسے نازک حالات میں بھی ہم نے اپنی روش کو نہ بدلہ، اپنے دوست اور دشمن کو نہ پہچانا تودنیا کے نقشے سے ہمارا نام و نشان تک مٹ جائے گا ۔
بقولِ شاعر
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے مسلمانوں
تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں
Hassnain Ali
About the Author: Hassnain Ali Read More Articles by Hassnain Ali: 9 Articles with 7788 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.