آج ایک انوکھا ''ٹاپک ''لیے بیٹھا ہوں۔ خصوصاََہم نوجوانوں کا یہ
مسئلہ گھمبیرسے گھمبیر بنتا جارہا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ آج کا
ہرانسان یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی آرام' راحت' عزت و وقار سے گزرے، یعنی
انسان فطرطاََ تعیش پسند ہوگیا ہے۔ وہ دنیاوی جھمیلوں میں رہتے ہوئے بھی
اپنادنیا کے دیگر لوگوںسے الگ اور ممتاز مقام چاہتا ہے۔ غور سے دیکھا جائے
تو یہ کیفیت پڑھا لکھا نوجوان طبقے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس چاہت کے
باوجود کوئی بھی اپنی منزل کو نہیں پہنچ پاتا۔
زندگی میں عجب حالات و کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے، دولت مند اپنی دولت سے خوش
نہیں ہیں یعنی ان کی دولت ان کو چین و ذہنی سکون دینے سے قاصر ہے،تعلیم
یافتہ نوجوان اپنی تعلیم اور ڈگری سے نالاں ہے۔ انسانی زندگی کا عمیق جائزہ
لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ نسبتاََ ہرانسان اپنی
حالت و کیفیت سے خوش نہیں ہوتا ہے' ایسابہت ہی کم ہوتا ہے کہ انسان اپنی
موجودہ حالت' کیفیت' مقام ومرتبہ سے مطمئن ہو، یہ کیفیت مجھ سمیت دنیا کے
ہر ذی شعور آدمی میں پائی جاتی ہے۔ ہم اپنے ارگرد کے ماحول کا جائزہ لیتے
ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے روز
گار اور پیشے میں فٹ نہیں ہوتی ہے، اس کی واحدا ور بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے
کہ ہم میں سے جو بھی آدمی اپنے پیشے میں سوچ و سمجھ اور پلاننگ کے بغیر
زندگی کی مجبوریوں اور چانس کی وجہ سے آیا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح خاطر خواہ
نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ آج کے ان چندسطور میں کوشش کی جائی گی کہ
'' کیرئیر پلاننگ'' کے عنوان پرافراد کو انفرادی طور پر اور سرپرستوں کو
اپنے ماتحتوں کے لئے 'استاد کو اپنے تلامذہ کے لئے اور دیگر باصلاحیت افراد
کو قومی ترقی و تعمیر میں کردار ادا کرنے کے لئے گائیڈ لائن دی جائے ، شاید
اس طرح ہمارے کچھ مسائل کم ہی ہوجائیں۔اللہ کرے۔
ہم یہ جائزہ لیں گے کہ کیرئیر ہے کیا؟ماہرین نے عملی زندگی گزارنے کے لیے
اپنے اپنے طور پر جو تعریفیں کیریئر کے حوالے سے بیان کی ہیں ان کا مفہوم
یہ ہے کہ کسی پیشے کا انتخاب کرنا' یعنی اپنے ذوق کے مطابق کسی بھی شعبے
میںعملی کام شروع کرنا جس میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع ہوں اور
ظاہری راستے موجود ہوں۔ ظاہری بات ہے کہ ہمارے ہاں اس طرح کاخیال پیدا کرنے
کی کبھی کوئی کوشش نہیں گئی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم وتربیت اور
کامیاب زندگی گزارنے کے گُر بتلائے جانے کے بجائے ڈگری کا حصول اور نوکری
کا حصول ہی سیکھایاجاتا ہے' حصول ڈگری اور حصول نوکری کے لئے ہمارے ہاں
تمام ''چور راستے'' مہیا کئے جاتے ہیں۔ اور ان راستوں کو فخریہ اختیار بھی
کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ادارے کے اندر یہ کوشش نہیں کی جاتی ہے کہ آدمی اپنے
لئے اچھا کیرئیر منتخب کرے ۔ کہ وہ ایسا ذریعہ معاش اختیار کرے جو اس کی
صحت'صلاحیت' ذوق و رجحان اور حالات وکیفیات کے مطابق ہو، اورمنتخب کردہ
پیشے میں زیادہ سے زیادہ ترقی کر سکے اور اس میں اکتاہٹ' پریشانی' تھکن'
بوجھ اوربار نہ سمجھے بلکہ دل کی طمانیت اور مسرت و تسکین سے وہ اپنے
''کیرئیر'' میں آگے بڑھتاچلا جائے۔
یہ سمجھنا چاہیے کہ کیریئر پلاننگ بہت زیادہ ضروری ہے۔ انسان کی زندگی جہد
مسلسل سے تعبیر ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داریوں کو
اداکرنے کے لئے مادی وسائل کی اشد ضرورت ہوتی ہے ان کے حصول کے لیے انسان
کاروبار کرتاہے یا ملازمت کرتا ہے۔یہ معاشی سرگرمیاں ہی اس شخص کے کیریئر
کا نام ہے اس کیریئر کی وجہ سے معاشرے میں اس کی پہچان ہوتی ہے اور ایک
مقام پاتا ہے۔اپنے والدین ' بچوں اور دیگر متعلقہ افرادکی ضروریات زندگی کے
لیے وسائل فراہم کرنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے بچنا کسی صورت ممکن نہیں
اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کرنا ضروری ہے جس پرچل کر باعزت
مقام حاصل کیا جاسکے۔
ہر شخص کو چاہئے کہ ابتدا میں ہی اپنی منزل متعین کریں' منزل کا خواب غریب
امیر دونوں دیکھتے ہیں ' مگراس کے حصول کا طریقہ کار مختلف ہونا چاہیے۔
منزل تک پہنچنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ہی منزل کے راستے
اورانداز مختلف ہوسکتے ہیں۔ یہ انسان کا کام ہے کہ اپنے حالات اور وسائل کو
دیکھ کر ' اپنے مشکلات کا جائزہ لے کر خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنے موجودہ
وسائل کو بہتر طور پر استعمال کرنے کا سوچے اور اوریقینی طور پر استعمال
بھی کریں۔تمثیلا َ َیوں سمجھا جاسکتا ہے کہ انسان کی منزل ''مکہ مکرمہ
''ہے۔ اب مکہ مکرمہ پہنچنے کے لیے ذرائع ہوائی جہاز' ریل' بس'بیل گاڑی'اونٹ
یا پیادہ۔اب ان میں کسی کو بھی اپنی حیثیت کے مطابق اختیارکرکے مکہ مکرمہ
پہنچاجاسکتا ہے۔ اگر منزل تک پہنچنے /ٹارگٹ پانے کے لئے عزم مصمم ہو تو
رکاوٹیں کچھ معنیٰ نہیں رکھتی۔ مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی منزل تک پہنچنے یا
ٹارگٹ کو پانے کے ذرائع کا اچھی طریقے سے جائزہ لیں۔بہترین پلاننگ کریں۔
منزل کا تعین'منزل تک پہنچنے کے راستوںاور وسائل کا علم اور طریقہ کار کا
ادراک و فہم ہونا ازبس ضروری ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر منزل کی طرف
رخت سفر باندھا جائے تو کسی درخت کے چھاؤں میں سستانے کی گنجائش ضرور ہوتی
ہے مگر گھوڑے بیچ کر سونے کی گجائش قطعاََ نہیں ہوتی۔آپ کچھوے کی چال ضرور
چلیں مگر خرگوش کی طرح آرام ہرگز نہ کریں۔سچ یہ ہے کہ منزل تک پہنچنے کے
خواہش مند لوگ آرام کی نیند کبھی بھی سویا نہیں کرتے۔مجھے ایسے موقعوں پر
اکثر یہ شعر یاد آتا ہے
ومن رام العلیٰ من غیر کدِِ
اضاع العمر فی طلب المحال
کہ جو لوگ بغیر محنت اورجہدمسلسل کے بلندیوں کا خواب دیکھتے ہیں یقینا وہ
محال چیزوں میں اپنی عمر گنوا دیتے ہیں اور اس حوالے سے عر بی کا یہ مقولہ
بھی معروف ہے
ومن طلب العلیٰ سہراللیالی
یعنی جولوگ اونچے مرتبوں اور بلندیوں کے طالب ہوتے ہیں وہ راتوں کی نیندیں
ضرور حرام کرتے ہیں یعنی راتوں کو جاگا کرتے ہیں۔انتہائی معذرت سے عرض ہے
کہ آج کے جدید اور مقابلے کے دور میں اپنی منزل کے تعین وسائل و راستوں
اورطریقۂ کار کا درست فہم و ادراک اور ساتھ ہی بے تحاشا محنت کے بغیر کوئی
مناسب اورذوق کے مطابق مقام پانا ناممکن ہے اور ایساخیال بھی عبث
ہے۔مختصراََ عرض ہے کہ اپنی صلاحیتیں' تعلیم' ذہانت'رجحان وذوق یا میلان
طبع یا خواطرات دل'حالات و ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے لئے مناسب کیریئر
کا انتخاب کریں اور کیریئر کے انتخاب کے بعد ''ابھی عشق کے امتحان اور بھی
ہے '' کو ذہن میں لاتے ہوئے جہد مسلسل شروع کریں۔اور اتنی محنت کریں کہ جب
بھی آپ کے پیشے کا ذکر ہو تو لامحالہ انگلیوں کا رخ 'کامیابی و مہارت کی
مثال پیش کرنے کے لئے آپ کی طرف اُٹھے۔اتنا کافی ہے۔ اس حوالے سے جتنی
باتیںدل و دماغ میں آپ سے شیئر کرنے کے لئے ہیں اتنی جگہ کاغذ کے ان صفحات
میں کہاں ہیں۔ یہ کالم ''کامیابی کاراز'' والا کالم کا تسلسل ہے۔ ایفا ئے
عہد ہوا۔خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ |