گزشتہ سال کراچی میں بینک
اہلکاروں کی طرف سے طفیل شاہ شخص کے گھر پر اس کی خواتین سے بدتمیزی کے
واقعہ کے بعد طفیل شاہ نے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کرلی تھی۔ طفیل شاہ نے
بنک سے کاروبار کے لئے قرضہ لیا تھا۔ جس کی عدم ادائیگی پر بنک والے اسے
ہراساں کر رہے تھے۔ لیکن دوسری طرف اسی ملک میں گزشتہ چار سال میں ۹۱۱ ارب
روپے کے قرضے معاف کرائے گئے ہیں۔17 اکتوبر 1999 کو بینکاری کے شعبے میں
جنرل پرویز مشرف نے اپنے ایجنڈے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بینکوں کے
قرض نادہندگان سمیت ایسے افراد جنہوں نے اپنے قرضے معاف کرائے ہیں وہ 4
ہفتوں میں تمام واجبات ادا کریں وگرنہ ان کے خلاف قانون کا آہنی ہاتھ حرکت
میں آجائے گا۔ لیکن یہ آہنی ہاتھ ان طاقتور سیاستدانوں، صنعت کاروں،
جرنیلوں، جاگیرداروں کا تو کچھ نہ بگاڑ سکا جو اربوں روپے لوٹ کر کھا گئے،
بلکہ عوام کو مکے دکھا کر عوام کی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخصت ہوگیا۔
مشرف دور میں ماضی میں معاف کرائے گئے قرضوں کی مد میں تو ایک پیسے کی بھی
وصولی نہیں ہوئی۔ لیکن اس دور میں جس تیزی سے قرضے معاف کئے گئے اس کی
پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ قرضے معاف کرنے والوں میں نہ
صرف وہ ممتاز سیاستدان شامل ہیں جو قومی مفاہمتی آرڈیننس 2007ء سے مستفید
ہوئے ہیں۔ بلکہ وہ بڑے تاجر، صنعت کار اور وڈیرے بھی شامل ہیں جن کے پاس
ملک کے اندر خطیر رقوم کے اثاثے موجود ہیں جن کو فروخت کر کے بینکوں کے
قرضے وصول کئے جا سکتے تھے۔ مشرف نے عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ 12
نومبر 1999 کے بعد بینکوں کے نادہندگان اور قرضے معاف کرانے والوں کے نام
شائع کر دیئے جائیں گے لیکن ان کے عرصے اقتدار میں کبھی یہ فہرست شائع نہیں
کی گئی۔ حالانکہ نواز شریف اور بینظیر کے دور میں یہ فہرست شائع ہوتی رہی
تھی ۔
اپریل ۸۰۰۲ میں اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے سینٹ میں
انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران سر کاری بنکوں اور مالیاتی
اداروں سے 14 ارب 91 کروڑ 93 لاکھ 51 ہزار روپے مالیت کے قرضے معاف کروائے
گئے ہیں جبکہ گزشتہ 8 سالوں کے دوران غیر ملکی قرضوں کا حجم 27 ارب سے بڑھ
کر 53 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ایک سوال کے تحریری جواب میں سینیٹر اسحاق
ڈار نے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ تین سالوں 2005-07 کے دوران صنعتی شعبے سے
وابستہ 89 قرض دھندگان نے مجموعی طور پر 8 ارب 57 کروڑ 61 لاکھ 29 ہزار
روپے کے قرضے معاف کروائے اس دوران تجارتی شعبے سے وابستہ 12 ہزار چار سو
چار قرض دھندگان نے تین ارب30 کروڑ82 لاکھ 20 ہزار روپے کے قرضے معاف
کروائے جبکہ زرعی شعبے سے وابستہ 82442 قرض دھندگان نے تین ارب تین کروڑ
پچاس لاکھ دو ہزار روپے کے قرضے معاف کروائے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان
بالا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ 30 دن کے اندر ملک کے بینکوں سے قرضے معاف
کرانے والوں کی تفصیلات جاری کردی جائیں گی۔ لیکن حکومت میں وزارتوں سے
علیحدگی کے بعد انہیں اپنا یہ وعدہ یاد ہی نہ رہا۔
سال ۶۰۰۲ میں مسلم کمرشل بنک نے خاموشی سے اپنی سالانہ رپورٹ میں سال2005ء
میں مختلف کاروباری و صنعتی اداروں کے 1ارب 3کروڑ روپے سے زائد کے قرضے
معاف کر دئیے۔ بینک کی طرف سے جاری کی گئیں تفصیلات کے مطابق سال 2005ء کے
دوران 82کاروباری و صنعتی یونٹوں کے 5لاکھ یا اس سے زائد کے قرضے معاف کئے
گئے ہیں۔ یہ وہ قرضے ہیں جو گزشتہ سال2005ء کے دوران 31دسمبر تک مختلف
کاروباری و صنعتی اداروں کو فراہم کئے گئے تھے۔ مجموعی طور پر 82کاروباری و
صنعتی اداروں کو ایک ارب 3کروڑ51لاکھ روپے کے قرضے معاف کئے گئے ہیں۔ بینک
نے ایڈ کو ٹیکسٹائلز لمیٹڈ اسلام آباد کو47لاکھ روپے ثاقب فیبرکس فیصل آباد
کو 70لاکھ روپے، ہائی ٹیک انٹرنیشنل فیصل آباد کو 94لاکھ روپے، ایس ڈی اے
کولڈ سٹوریج پشاور کو 2کروڑ،41لاکھ روپے سے زیادہ کا قرضہ معاف کیا گیا ہے۔
رحمن انڈسٹریز سوپ مینو فیکچررز لاہور کو 73لاکھ روپے نظام الدین علی
اسبسٹو انڈسٹریز کراچی کو 80لاکھ روپے، علی پور چینوٹ ملز لمیٹڈلاہور کو
1کروڑ 44لاکھ روپے، سٹار سلیکا انڈسٹریز لمیٹڈ کو 1کروڑ روپے ایس اینڈ کی
انٹرپرائزز اسلام آباد کو4کروڑ41لاکھ روپے، جمال ٹیوب ملز لاہور کو 20کروڑ،
سن شائن جیوٹ ملز لاہور کو 1کروڑ 63لاکھ روپے سے زیادہ کا قرضہ مسلم کمرشل
بینک نے معاف کر دیا ہے۔ یہ وہ قرضے ہیں جو مختلف صنعتی اداروں نے گزشتہ
سال مسلم کمرشل بینک سے حاصل کئے تھے۔
قرضوں کی معافی کی دوڑ میں بی بی کے پہلے دور میں 7.23 بلین اور دوسرے
میں6.64 بلین روپے کی قومی رقم بنکوں کو کبھی نہ مل سکی۔۔1985 اور 1999 کے
دوران نواز شریف نے اپنے ادوار میں سیاسی حمایت کے لئے ارکان اسمبلیوں پر
سرکاری خزانے کے تمام دوازے کھول دئیے۔ نواز شریف نے سب سے زیادہ قرضے معاف
کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا۔ نواز شریف کے پہلے دور میں2.39 بلین روپے کے
قرضے بیک جنبش قلم معاف ہوگئے۔ شوکت عزیز کے زریں دور میں31.63 بلین کا قرض
معاف کیا گیا۔ نادہندگان کی فہرست میں چوہدری شجاعت٬ چوہدری پرویز الہی،
جام یوسف اور کالاباغ خاندان کے چشم و چراغ ملک اللہ یار جیسے نام نمایاں
ہیں۔ اسی خانے میں جنرل امجد سمیت آٹھ جرنیل شامل ہی۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان
نے2002 میں اپنے شیڈول کی وہ تمام شقیں ہی ختم کردیں جو مگرمچھوں کے قرضے
معاف کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتیں تھیں۔
سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے سینٹ میں سوال اٹھایا تھا جس پر مشیر خزانہ
شوکت ترین نے جواب میں کہا تھا کہ گزشتہ حکومت کے دوران 42 ارب روپے کے
قرضے معاف کیے گئے اور یہ تمام قرضے اسٹیٹ بینک کے قواعد کے مطابق معاف کیے
گئے ہیں۔ یہ تمام قرضے بینکوں نے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سفارش پر تمام
دستیاب قوائد کو سامنے رکھ کر معاف کیے ہیں۔ شوکت ترین نے ایک سوال کے جواب
میں کہا کہ قرضوں کو معاف کرنے کا فیصلہ میرٹ پر کیا گیا ہے۔ سینیٹر
پروفیسر خورشید احمد نے سوالات کے دوران نکتہ اٹھایا کہ ایوان کو بتایا
جائے کہ 42 ارب کے علاوہ بھی قرض معاف کیے گئے ہیں یا نہیں اور خیبر بینک
کو تو قرضے معاف کرنے کے لیے دباؤ میں لایا گیا تھا٬ مشیر خزانہ شوکت ترین
نے سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے پاس پوری معلومات نہیں ہیں فی الحال جو
معاملہ ایوان میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ اسٹیٹ بینک کے سرکلر 290 کے تحت معاف
کیے جانے والے قرضوں کی تفصیل سے متعلق ہے۔ اسی طرح سے پبلک اکاؤئنٹس کمیٹی
کو وزارت خزانہ کی طرف سے جو اعداد و شمار مہیا کیے گئے کے مطابق اٍس عرصہ
میں عوامی سیکٹر کے بنکوں نے30.18 بلین روپے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے جو1985
تا1999 کے دوران قرضوں کی شکل میں معاف کی گئی تھی۔ یہ رقم59.95 بلین روپے
اس رقم سے زائد تھی۔ جو تین سابقہ حکومتوں کے چودہ سالہ عہد اقتدار میں
معاف کی گئی تھی۔ یہ قرضہ شوکت عزیز کے دور میں کھایا پیا گیا۔ یہ نقطہ بھی
اپنی جگہ پر سچائی کا امین ہے کہ شوکت عزیز و مشرف کے دور میں پاکستانی
خزانے کو بڑی بیدردی و بے رحمی سے لوٹا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی صورتحال
یہی ہے۔ قرض کی وصولی تو دور کی بات ہے قرض لینے والوں کے ناموں کی فہرست
بھی منظر عام پر نہیں لائی جارہی ہے۔ حنا ربانی کھر نے بھی وعدہ کیا ہے کہ
یہ فہرست طویل ہے اس لئے اس کو لانے میں تاخیر ہورہی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ دنوں چیف جسٹس سپریم کورٹ
آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام کھلا خط لکھا تھا۔ جس میں چیف
جسٹس کی توجہ ملکی حالات کی طرف دلاتے ہوئے ان سے کھربوں کے قرضے معاف
کرانے والوں کے خلاف ازخود نوٹس لینے کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے اس خط
میں کہا ہے کہ سرکاری بینکوں سے اربوں کھربوں روپے کے قرضے لے کر معاف
کرانے والوں کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے تمام پیسہ
واپس سرکاری خزانے میں لایا جائے۔ آپ اس سلسلے میں از خود نوٹس لے کر ملک
کی دولت ہڑپ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کریں۔ خط میں کہا گیا ہے
کہ محترم چیف جسٹس آپ سے میری مؤدبانہ درخواست ہے کہ میرے اس کھلے خط کو
پٹیشن کی حیثیت سے قانونی شکل دے کر کارروائی کا آغاز کریں تاکہ ملک معاشی
بحران سے نجات پائے اور ہم سب ملکر پاکستان کو ایک مستحکم اور باوقار ملک
بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔ دیکھئے الطاف حسین کی اس درخواست پر کب سنوائی
ہوتی ہے |