عدلیہ بحالی تحریک کے اٹوٹ انگ
اور بازو، وکلاء اور میڈیا اب آمنے سامنے کیوں ہیں؟ سارا تماشہ کس کے ایماء
پر کیا جارہا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ کم و بیش سارا میڈیا وکلاء کے چہرے
پر جو کالک دن رات لگا رہا ہے اس کا فائدہ کسے پہنچایا جا رہا ہے؟ یہ اور
ان سے ملتے جلتے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کیا جانا از حد ضروری
ہے تاکہ معاشرے کے جن دو ستونوں نے مل کر اتنی بڑی تحریک چلائی اور اسے
کامیابی سے ہمکنار کرایا ان کو آپس میں دست و گریبان ہونے سے بچایا جا سکے
اور ان کی وہ توانائیاں جو آپس کے لڑائی جھگڑے میں ضائع ہو رہی ہیں ان کو
کسی مثبت کام میں استعمال کیا جاسکے!
عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی سے پاکستان کے عوام کی نگاہیں ہر اہم مسئلہ
میں وکلاءکی جانب اٹھتی نظر آتی ہیں۔ عام لوگ وکلاء کو اتنی بڑی تحریک کی
کامیابی سے اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں۔ کوئی بھی قومی مسئلہ ہو عوام
چاہتے ہیں کہ وکلاء آگے آئیں اور اپنا کردار ادا کریں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے،
اسی لئے کہ پاکستان کے عوام اب آہستہ آہستہ موجودہ سیاسی جماعتوں سے کافی
حد تک مایوس ہو چکے ہیں اور کسی تیسری طاقت کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ شائد
وہ ان کے دکھوں کا مداوا کر سکے اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں ممد و
معاون ثابت ہوسکے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی اسی وجہ سے وکلاء سے خوف
محسوس کررہی ہیں کیونکہ موجودہ سیٹ اپ سے یہی محسوس ہورہا ہے کہ نیا الیکشن
کچھ زیادہ دور نہیں! حالیہ الیکشن میں حالانکہ وکلاء نے بطور کمیونٹی ان کا
بائیکاٹ کیا تھا لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے
وکلاء کافی تعداد میں اسمبلیوں میں پہنچنے میں کامیاب رہے۔ پاکستان پیپلز
پارٹی ہو، مسلم لیگ (ن) یا مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم ہو یا دیگر ”مقبول“
سیاسی جماعتیں، ان جماعتوں کے اندر ”جمہوریت“ کتنی مضبوط ہے اور ان کے
قائدین کس حد تک مخالفانہ رویہ برداشت کرنے کے عادی ہیں وہ پوری قوم کے
سامنے اظہر من الشمس ہے اور اس کے بارے میں تفصیل بتانے کی کوئی خاص ضرورت
نہیں ہے۔ وہ جماعتیں جو اس وقت حکومت میں ہیں وہ یقیناً وکلاء کی عدلیہ
بحالی تحریک کے ثمرات کے طور پر حکومت کررہی ہیں ورنہ اگر پرویز مشرف کی
آمریت کے خلاف وکلاء طوفان کھڑا نہ کرتے تو ان جماعتوں کی قیادت آج بھی
بیرون ملک ہوتی اور وطن عزیز کی سرزمین پر آنے کے لئے ترس رہی ہوتی (یہ الگ
بحث ہے کہ پاک سرزمین کو کس لئے ترستی، اپنے مفاد کے لئے یا عوام کی خدمت
کے لئے!) بہرحال اب یہی جماعتیں ہیں جو اندرونی طور پر وکلاء سے بطور
کمیونٹی خوف زدہ ہیں کہ کہیں یہ کالے کوٹوں والے کوئی سیاسی قوت نہ بن
جائیں اس لئے موجودہ وقت میں اس طرح کی سازشیں ہورہی ہیں کہ وکلاء کا بطور
کمیونٹی جو شاندار کردار سامنے آیا ہے اسے نہ صرف داغدار کیا جائے بلکہ
عوام کو یہ باور کروایا جائے کہ وکلاء تو بہت ظالم اور بدمعاش ہیں، ان پر
اعتماد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے ایک ”نہتے اور کمزور پولیس والے
“پر ہاتھ اٹھایا اور بعدازاں میڈیا پر بھی ”وکلاء گردی“ کا مظاہرہ کیا۔
میڈیا جس نے عدلیہ بحالی تحریک میں شاندار کردار ادا کیا تھا اس کو وکلاء
کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور ”نامعلوم وجوہات“
کی بناء پر میڈیا کے کچھ افراد ان قوتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں جو اس
ملک میں وکلاء کے سیاسی کردار کے مخالف ہیں اور ان سے خوف زدہ ہیں۔ میڈیا
کا حق ہے بلکہ فرض ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والے ظلم کو رپورٹ کرے لیکن یہ
کہاں کا انصاف ہے کہ کسی کمیونٹی میں موجود کسی خاص گروہ یا چند افراد کی
غیر قانونی حرکت کو پوری کمیونٹی پر تھوپ دیا جائے اور دن رات اس کمیونٹی
کے خلاف پراپیگنڈا کیا جائے۔ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ یا کمیونٹی کرپشن
سے پاک نہیں، یقیناً وکلاء کے اندر بھی کالی بھیڑیں، مفاد پرست عناصر اور
کسی اور کے ایجنڈے پر کام کرنے والے لوگ موجود ہیں اور انہی کی حرکتوں کی
وجہ سے ان قوتوں کو سارا ڈرامہ سٹیج کرنے میں مدد اور آسانی فراہم کی گئی
لیکن اس سے میڈیا پر ٹرائل شروع کردینا، وکلاء کا مؤقف ہی نہ سننا اور سارے
وکلاء کو بدمعاش بنا کر پیش کرنا ہرگز عقل مندی نہیں بلکہ ان ”ان دیکھی“
قوتوں کے ہاتھ مضبوط بنانے کی دانستہ یا نا دانستہ کوشش ہے جو وکلاء اور
میڈیا کو آپس میں لڑوا کر اور وکلاء کو منفی رول میں پیش کر کے ان کو
مستقبل میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے سے محروم کرنا چاہتے ہیں، یہ
سازشیں وہ لوگ کررہے ہیں جو اس ملک میں حقیقی معنوں میں عوام کے حقوق کے
مخالف ہیں اور نہیں چاہتے کہ سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام ختم ہو۔
وکلاء کی اکثریت جو مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے ان کی نیک
نامی اور اچھی شہرت متذکرہ بالا دست طبقوں کو اس لئے ایک آنکھ نہیں بھاتی
کہ وہ طبقات جو ہر وقت حکومت میں ہوتے ہیں
انہیں کوئی گروپ یا جماعت چیلنج نہ کرسکے، وگرنہ کیا پولیس اتنی ہی معصوم
اور پاکباز ہے کہ اس کے ایک اے ایس آئی کو 4/5 تھپڑ لگنے پر صوبے کا آئی جی
ذاتی مسئلہ قرار دے دے، چیف جسٹس صاحب پولیس کو وکلاء کے خلاف (جو ضمانتوں
پر ہیں)”بلا خوف و خطر“ کارروائی کا حکم صادر فرما دیں اور میڈیا پر وکلاء
کی عزت اچھالنی شروع کر دی جائے۔ کیا پورے ملک میں باقی سارے مسائل یکسر
ختم ہوگئے ہیں، کیا پولیس نے عوام کو ریلیف دینا شروع کردیا ہے اور چوروں،
ڈاکوﺅں کو پکڑنا شروع کر دیا ہے، کیا سرکاری افسران نے رشوتیں لینی چھوڑ دی
ہیں، کیا تمام جج اور عدالتی عملہ حاجی ہوگیا ہے، کیا میڈیا سے وابستہ
افراد نے ”زرد صحافت“ سے توبہ کرلی ہے؟ اگر ایسا ہے اور صرف کچھ وکلاء کی
جانب سے غیر قانونی حرکت ہی ایک واحد برائی رہ گئی ہے تو ٹھیک ورنہ جس طرح
باقی اداروں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ویسے ہی وکلاء کی صفوں میں (جن کی
تعداد کم از کم باقی اداروں خصوصاً پولیس اور میڈیا سے کم ہے) موجود ہیں تو
اسے اسی سطح تک رکھنا چاہئے نہ کہ میڈیا کی طاقت کا غلط اور بیجا استعمال
کرکے تمام وکلاء کو بدنام کرنا چاہئے۔ میڈیا کے کرتا دھرتا اگر سب کچھ دیکھ
رہے ہیں اور خاموش ہیں تو ان کی خاموشی بھی ”معنی خیز“ ہے۔ جس طرح کے
بیانات اور الفاظ میڈیا سے وابستہ افراد، اینکر پرسنز اور نیوز کاسٹرز سے
ادا کروائے جا رہے ہیں یہ یقیناً کسی اور کا ایجنڈہ اور حالات کو بگاڑنے کی
کوشش ہے، میڈیا کو بھی غور کرنا چاہئے کہ اصل میں یہ سب کچھ کس کے مفاد کے
لئے کیا جارہا ہے؟ |