پاکستان دنیا کی تاریخ میں وہ واحد ملک ہے
جو خالصتاً جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آیا، مگر افسوس کہ وہی
پاکستان اپنے قیام کے بعد سب سے زیادہ غیر جمہوری صدموں سے دوچار رہا،
باسٹھ برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری ادارے ایک
سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں، قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک کا آدھے سے
زیادہ عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہو چکا ہے جبکہ بقیہ رہ جانے والے عرصے میں
جمہوریت کے نام پر جمہوری بادشاہ ملک پر مسلط رہے ہیں اور اِس تمام عرصے کے
دوران جمہوریت اور جمہوری عمل کا فقدان ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ بنا
رہا، اگر ہم دنیا کے دیگر جمہوری ممالک کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت باآسانی
منکشف ہوجاتی ہے کہ وہاں تمام سیاسی خرابیوں اور باہمی اختلافات کے باوجود
کوئی اور دوسرا ادارہ اصلاح احوال کیلئے جمہوری عمل میں مداخلت نہیں کرتا،
لیکن اِس کے برخلاف پاکستان میں ہر پانچ دس سال کے بعد جمہوریت کی بحالی کے
نام پر ایک اصلاحی طاقت اٹھتی ہے اور ایک طویل عرصے کیلئے حقیقی جمہوریت
اُس کے قدموں میں ڈھیر ہوجاتی ہے، یوں ملک ایک بار پھر آمریت کے سیاہ سائے
کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور اِس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پچھلی خرابیاں
دور ہونے کے بجائے کئی نئی پیچیدگیاں اور گمبھیر مسائل جنم لے لیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں گزشتہ باسٹھ برس سے یہی سلسلہ چلا آ رہا ہے ، ہر
بار جمہوریت ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب
پاکستان جمہوری عمل اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے قائم ہوگیا تھا تو اُسی وقت
ہی یہ عہد بھی کرلیا جاتا کہ جو عمل قیام پاکستان کا باعث بنا ہے وہی
جمہوری عمل پاکستان کی بقا، استحکام اور سلامتی کا ذریعہ بھی بنے گا، اگر
اِس فکر و فلسفہ کو اپنا کر تمام تر خدشات، موہوم حادثات اور ممکنہ مشکلات
کے باوجود یہ عمل جاری رکھا جاتا تو آج ملک میں یہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی
اور ملک جمہوریت کی پٹری پر کبھی کا گامزن ہوچکا ہوتا، لیکن افسوس کہ ایسا
نہیں ہوا ہر بار ایک نئے معمار نے جمہوری عمارت کی نئی سنگ بنیاد رکھی،
ابھی نئی عمارت مکمل بھی نہیں ہوپاتی کہ ایک اور نیا معمار اصلاح احوال کی
تحریک لئے آجاتا ہے اور پرانی عمارت اور اُس کی بنیاد کو ڈھا کر نئے سرے سے
ایک بار پھر ایک اور نئی عمارت کی سنگ بنیاد رکھتا ہے، یہ سلسلہ 16اپریل
1953 کو خواجہ ناظم الدین کی حکومت کی برطرفی سے شروع ہوا اور آج تک جاری
ہے، ملک غلام محمد سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر نئے معمار نے ملک میں
جموریت کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا، لیکن آج تک کسی کی کوئی بھی جمہوری
عمارت مکمل نہیں ہوسکی، یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ جمہوری عمل کا ہمیشہ
یہ اصول اور تقاضہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص یا گروہ حکومت نہیں کرسکتا
جسے عوام کی تائید و حمایت حاصل نہ ہو اگر یہ اصول ابتداء ہی میں ہمارے ملک
کے حکمرانوں کیلئے لازم کردیا جاتا تو آج ملک کی حالت کچھ اور ہوتی۔
لیکن ایسا نہیں ہوا ہر آنے والے حکمران نے ابتداً قوم میں نئی امیدیں
جگائیں، نت نئے خواب دکھائے، کسی نے عوامی حاکمیت کا نعرہ لگایا، تو کسی نے
عوام کی دہلیز پر انصاف پہنچانے کا دعویٰ کیا، کوئی کشکول توڑنے کی بات
کرتا رہا، تو کوئی زرعی انقلاب کا مژدہ سناتا رہا، کوئی قانون کی حکمرانی
کا شور مچاتا رہا، تو کوئی اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ لگاتا رہا، کوئی
قرضوں سے چھٹکارا اور غربت مٹاؤ کا پروگرام دیتا رہا، اور کوئی روٹی کپڑا
اور مکان کے خواب دکھاتا رہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جونہی یہ لوگ ایوان
اقتدار میں پہنچتے ہیں اِن کا لب و لہجہ بدل جاتا ہے، دعوؤں اور وعدوں کی
جگہ مجبوریوں اور رکاوٹوں کی لمبی فہرست عوام کے سامنے آنا شروع ہوجاتی ہے
اور اقتدار حاصل کرنے سے پہلے کے تمام وعدے اور دعوے بین الاقوامی حالات کے
عذر، عالمی دباؤ، خزانے کے خالی ہونے، وسائل کی کمی، پچھلی حکومتوں کی ناقص
کارکردگی اور حکومت کرنے کیلئے مزید مہلت کے مطالبے میں ڈھلتے نظر آنے لگتے
ہیں، وہ مسائل جن کو حصول اقتدار سے قبل چٹکی بجاتے ہی حل کرنے کے دعوے
ہوتے ہیں اب اُن کو حل نہ کرنے کا استدلال الہٰ دین کے چراغ کے محاورے پر
آکر ختم ہوجاتا ہے۔
گزشتہ باسٹھ برس سے یہی کچھ ہوتا رہا ہے، ہر نئی آمریت نے عوام سے وعدہ کیا
کہ وہ عوام کے منتخب نمائندوں کا حق حکومت تسلیم کرتے ہیں، اسی طرح سیاسی
حکمرانوں نے جمہوری روایات کو فروغ دینے اور پختہ کرنے کا عزم کیا لیکن اس
کے باوجود عوام ابھی تک دوراہے پر حیران و مضطرب کھڑے ایک اچھی حکومت اور
مستحکم جمہوری نظام کو تلاش کررہے ہیں اور دائروں در دائروں کا سفر ابھی تک
جاری ہے، یہ حقیقت ہے کہ ستائیس دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے
بعد اٹھارہ فروری 2008 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی
سیاسی جماعت بن کر ابھری، قوم نے پیپلز پارٹی کو ملک کو درپیش گمبھیر مسائل
حل کرنے اور قوم کی کشتی کو گرداب سے نکالنے کیلئے جرات مندانہ اقدامات
کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے گویا قسمت نے پاکستان پیپلز پارٹی اور
جناب آصف علی زرداری کو حقیقی جمہوری عمارت کی سنگ بنیاد رکھنے اور جمہوری
عمارت کو مکمل کرنے کا ایک نادر موقع دیا اور یوں ملک میں جمہوریت کے قیام
کی تکمیل کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی و ملکی معاملات غیر سیاسی سیٹ اپ سے نکل
کر مکمل طور پر نو منتخب حکومت کے ہاتھوں میں آگئے ہیں۔
لیکن صرف پندرہ ماہ میں تبدیلی کے تمام خواب قوم کی پلکوں سے پھسل کر زمین
پر آگرے، یوں لگتا ہے کہ صرف چہرے بدلے ہیں اور کچھ بھی نہیں بدلا، شاید
یہی وجہ ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف بھی یہ کہنے پر
مجبور ہوگئے ہیں کہ ”موجودہ جمہوریت اور سابقہ آمریت میں کوئی فرق نہیں ہے،
نواز شریف کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے جانے کے باوجود حالات میں کوئی
تبدیلی نہیں آئی، سترھویں ترمیم ( جس کے خاتمے کا قوم سے وعدہ کرتے ہوئے
جناب آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کا آئندہ آنے والا صدر یہ
اختیارات خود پارلیمنٹ کو واپس کر کے ایک نئی مثال قائم کرے گا، لیکن ڈیڑھ
سال بعد سوائے ایک کمیٹی کے قیام کے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ) بدستور اپنی
جگہ موجود ہے، غربت، بھوک افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی حالت
پہلے سے بھی بدتر کردی ہے، سرحد اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں آگ و
خون کا کھیل جاری ہے، ڈرون حملے پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں، حکومت اور
حکومتی رٹ ناپید ہے، پارلیمنٹ کمزور ہے اور سب زیادہ ستم ظریفی یہ ہے کہ
آمریت کے خلاف جدوجہد کی بات کرنے والی عوامی جماعت کی حکومت آمریت کی
باقیات کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔
ان حالات میں یہ کہنا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ کبھی نہ رکنے والا کاروان
جمہوریت پٹری پر چڑھنے سے پہلے ہی اتر گیا اور پلک جھپکتے ہی مسائل کو حل
کر دینے کے دعوے، پاکستان کو خوشحال و ترقی پسند معاشرہ بنانے اور غربت کے
خاتمے کے وعدے کسی دیوانے کا خواب بن کر رہ گئے، حقیقت یہ ہے کہ سال بھر
پہلے 80 فیصد پاکستانی اپنی آمدنی کا40 فیصد کھانے پینے اور روز مرہ کی
اشیاء پر خرچ کرتے تھے لیکن آج وہ اپنی آمدنی کا تقریباً 70 فیصد حصہ جسم و
جاں کا رشتہ برقرار رکھنے پر خرچ کررہے ہیں، سال بھر پہلے دس ہزار روپے تک
آمدنی والے گھرانوں میں اگر بڑوں کو نہیں تو بچوں کو ضرور تین وقت کا کھانا
مل جاتا تھا، لیکن آج شہروں میں ہزاروں بچے اسکول کے بعد کچھ نہ کچھ کام
کرتے ہیں، شہر میں دو وقت کے کھانے کیلئے بھیک مانگنے والے ہمیشہ سے موجود
ہیں، لیکن پچھلے ایک برس سے پیشہ ور بھکاریوں کے علاوہ صاف ستھرے کپڑے پہنے
نوجوان لڑکے، لڑکیاں، بوڑھے اور خاندان ٹریفک سگلنلز، مصروف شاہراہوں، اور
کاروباری مراکز میں بڑی تعداد میں ہاتھ پھیلائے بھکاری بنے گھومتے نظر آتے
ہیں، بھوک، غربت و افلاس نے جسم فروشی کو آسان کاروبار بنا دیا ہے۔
گزشتہ حکومت یہ کہہ کر قوم کا دل بہلاتی تھی کہ آپ سب کی فی کس آمدنی 650
ڈالر تک پہنچ چکی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے ہیں،
آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو ہم نے ہمیشہ کیلئے خیر آباد کہہ دیا ہے،
غربت کی شرح 35 فیصد سے کم ہو کر 24 فیصد رہ گئی ہے، بس کچھ ہی دنوں کی بات
ہے کہ ملک کا ہر مرد و زن اس ترقی کے فوائد اپنے کچے گھروں کی چھتوں سے
ٹپکتے ہوئے دیکھے گا، ہمیں پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہر
حکومت کے پاس عوام کو بہلانے اور وعدوں کے لولی پاپ دینے کیلئے کچھ نہ کچھ
تو ہوتا ہی ہے اگر پچھلی حکومت کے پاس عوام کیلئے خوبصورت سہانے خواب تھے
تو موجودہ حکومت کے پاس جواز و تاویلات کا نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے، بھلا
یہ کیسے ممکن ہے کہ پلک جھپکتے ہی برسوں پر محیط خرابیاں اور تمام مسائل حل
ہوجائیں، حکومت کے پاس کوئی جادوئی چھڑی تو ہے نہیں، کوئی الٰہ دین کا چراغ
تو نہیں ہے جو رگڑا اور مسائل کے حل کیلئے جن حاضر ہوگیا، اب آپ ہی سوچیے
کہ پانی، بجلی کے مسائل حل ہونے میں وقت تو لگے گا، اگر پہاڑوں پر برف نہیں
پڑے گی تو پانی اور بجلی کا بحران تو پیدا ہونا ہی ہے، یہ تو قدرت کے کام
ہیں ہم دخل اندازی کیسے کرسکتے ہیں، صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے، دعا کیجئے،
مہنگائی دو دنوں میں تو کم یا ختم نہیں ہوجائے گی، امن و امان کے بگڑے ہوئے
نو سالہ حالات ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوسکتے اور سب سے بڑی بات یہ کہ عوامی
فلاح و بہبود اور مسائل کے حل کیلئے قومی خزانے میں پیسہ نہیں ہے، لہٰذا یہ
طے شدہ بات ہے کہ ہمیں انتظار کرنا پڑے گا، پیسے کے آنے کا انتظار، وقت کے
صحیح ہونے کاانتظار اور مہنگائی، غربت، بھوک و افلاس کے ختم ہونے کا انتظار،
ایک ایسا انتظار جس میں مسائل و آلام ختم ہوں یا نہ ہوں غریب ضرور ختم
ہوجائیں۔
گزشتہ دس عشروں سے یہی کچھ ہورہا ہے، وعدوں کے سبز باغ اور بیانات کے لولی
پاپ سے قوم کو بہلایا اور پھسلایا جارہا ہے، ہر بار عوام کی جائز و معصوم
خواہشات کو دباو اور مجبوریوں کے پتھر تلے بے دردی سے کچلا جاتا ہے اور ہر
بار مایوسی اور ناامیدی ہی ملتی ہے، بھٹو صاحب کا روٹی، کپڑا اور مکان کا
خواب، ضیاءالحق کا شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلانے والے اسلامی نظام
کی بات، محترمہ بے نظیر بھٹو کے جمہوریت کے وعدے، نواز شریف کا صنعتی ترقی
کا شورو غوغا، عوام کو مکے دکھا دکھا کر ڈرانے اور دھمکانے والے ڈکٹیٹر
پرویز مشرف کی مادر پدر آزاد روشن خیالی سے ٹھنڈے، میٹھے اور دھیمے لہجے
میں بات کرنے والے جناب صدر مملکت اصف علی زرداری صاحب کے افہام و تفہیم
بھرے مفاہمتی دور تک عوام کی تقدیر اور نصیب کے دامن کسی فقیر کے کاسہ
گدائی کی طرح خالی کے خالی ہی رہے۔
طبقاتی کشمکش اور اونچ نیچ کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ لوگ بھوک،
غربت اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر محض ایک پیالہ چائے کی عدم دستیابی
پر خودکشیاں کررہے ہیں، اپنے جسمانی اعضاء بیچ رہے ہیں، جگر کے ٹکڑوں کی
بولیاں لگ رہی ہیں، لیکن فرانس، جرمنی، برطانیہ، تھائی لینڈ، سنگا پور اور
ترکی سے طبقہ اشرافیہ کے کتوں کے کھانے کیلئے اوسطاً ہر ماہ ڈھائی سے تین
کڑور روپئے کی خوراک درآمد کی جارہی ہے، کتنی حیرت، دکھ اور افسوس کی بات
یہ ہے کہ جس ملک میں چھ ہزار روپے ماہوار کی آمدنی کے حصول کیلئے عوام ملوں
اور فیکٹریوں کے باہر لمبی لمبی لائن لگائے کھڑے ہوں، اُس ملک میں لوگ ایک
کتے پر ماہانہ بیس سے چالیس ہزار روپے خرچ کرتے ہیں، ایک طرف حکومت معاشی
حالات کے دگرگوں ہونے کا رونا روتی ہے تو دوسری طرف نوے سے زائد وزراء اور
مشیروں کی فوج ظفر موج کے رنگ ڈھنگ اور انداز و اطوار کے کیا کہنے، لگتا ہی
نہیں کہ اِن کا تعلق کسی غریب ملک سے ہے، خزانہ خالی ہے، لیکن گورنرز کیلئے
پچاس کڑور کا ہیلی کاپٹر اور وزراء و مشیروں کیلئے قیمتی گاڑیاں درآمد کی
جارہی ہیں، ارکان اسمبلی کے صوابدی فنڈ (جو غریب عوام سے زیادہ خود ان کے
کام آتے ہیں) ڈبل کئے جارہے ہیں، ملکی معاملات چلانے کیلئے آئی ایم ایف اور
ورلڈ بینک سمیت دیگر مالیاتی اداروں سے قرض در قرض کی بھیک مانگی جارہی ہے،
لیکن اربوں روپوں کا قومی خزانہ ہڑپ کر جانے والوں کے نام ظاہر کرنے،
کروڑوں اربوں روپوں کی سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کرنے والوں کو پکڑنے اور
اُن کے احتساب کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں، حال یہ ہے کہ بچے کھچے قومی
اداروں کو اونے پونے بیچنے کی تیاری کی جارہی ہو، ایک طرف صدر صاحب ایوان
صدر کی قیمتی کراکری پیک کروا کر رکھ رہے ہیں تو دوسری جانب ہمارے وزیر
اعظم صاحب بیرونی دوروں پر قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔
عجیب منظر ہے حکمرانوں کا قول اُن کے فعل سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا، کہہ
کچھ رہے ہیں اور کر کچھ اور رہے ہیں، بدعنوانی، کرپشن اور لوٹ مار کا زہر
پوری قوم کے رگ و پے میں سرائیت کرچکا ہے، ظلم، زیادتی، اقرباء پروری اور
ناانصافی کا نہ رکنے والا ایک طوفان ہے، بھلا خود ہی سوچیے ایسے حالات میں
تبدیلی کیونکر آسکتی ہے اور کیسے عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے، سچ کہا حبیب
جالب ۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں، فقط وزیروں کے
ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قوم ہر دو چار سال بعد تبدیلی کے
عمل سے گزرتی ہے ،پی ڈی ایم، پی این اے، یو ڈی ایف، ایم آر ڈی، ملی یکجہتی
کونسل، اسلامک فرنٹ، اسلامی جمہوری اتحاد، متحدہ شریعت محاذ، تحریک نظام
مصطفیٰ، تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک ناموس رسالت، تحریک ناموس صحابہ سے لے
کر یحییٰ خان کی آمد، پاکستان میں مارشل لاء حکومت کے زیر سایہ جماعت
اسلامی اور مسلم لیگ کی وزارتیں، جنرل ضیاءالحق کی کابینہ میں مرد مومن مرد
حق کا نعرہ لگانے والی جماعت اسلامی کی شمولیت، اصغر خان، معراج محمد خان،
عمران خان اور نواز شریف جیسے لوگوں کو قومی ہیروز کے روپ میں پیش کرنے سے
لے کر جنرل پرویز مشرف اور صدر آصف علی زرداری کی آمد تک، امید اور حسرت و
یاس کی ایک نہ ختم ہونے والی کہانی ہے، ہر بار عوام سمجھتے ہیں کہ تبدیلی
آگئی ہے یا آنے والی ہے، لیکن وہ اِس تبدیلی اور اُس کے ثمرات کو کبھی
محسوس نہیں کر پاتے، یہ تبدیلی کبھی اُن کی زندگی کا تجربہ نہیں بنتی، اُن
کے آنگن میں خوشیوں کے پھول نہیں کھلاتی، اُن کے پژمردہ چہروں پر مسکراہٹ
نہیں لاتی اور دلوں کی دھڑکنوں کو تیز نہیں کرتی، گزشتہ62 سال سے وہ انتظار
کی طویل قطار میں کھڑے ہیں اور اس وقت تک کھڑے رہیں گے جب تک کہ سوچ، فکر،
نظر اور عمل کے زاویئے نہیں بدل جاتے ۔
یاد رہے کہ قوم موسیٰ نے اپنی غلامانہ ذہنیت کے سبب ربّ تعالیٰ کے حکم کی
نافرمانی کرتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ساتھ دینے سے انکار کیا تھا،
جس کی سزا اُنہیں یہ ملی کہ وہ اُس وقت تک وادی تیہ میں بھٹکتی رہی جب تک
کہ غلامانہ ذہنیت کے لوگ مر کھپ نہیں گئے اور جذبہ حریت و آزادی سے آشنا
ایک نئی نسل تیار نہیں ہوگئی، پاکستانی قوم بھی گزشتہ باسٹھ برس سے سیاست
کی وادی تیہ میں بھٹک رہی، اِس باسٹھ سالہ بے مقصد و رائیگاں سفر کا حاصل
ناکامیوں اور محرومیوں کے سرابوں کے سواء اور کچھ نہیں ہے، نشان منزل کیا
تھی، منزل کیا ہے؟ ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ تصورات دھندلاتے جارہے ہیں،
پوری قوم ایک بند گلی میں کھڑی ہے، اُسے راستہ نہیں مل رہا، ہمارا یقین
کہتا ہے کہ یہ راستہ اُس وقت تک نہیں ملے گا جب تک کہ پوری قوم اجتماعی طور
اپنے ربّ کے حضور سجدہ ریز ہو کر معافی نہیں مانگتی، توبہ نہیں کرتی اور اس
راستے پر چلنے کا تعین اور وعدہ نہیں کرلیتی جس کا انتخاب ہمارے اسلاف نے
حصول پاکستان کی تحریک میں کیا تھا اور جو بنائے پاکستان قرار پائی تھی۔
|